آغاجی ،چچا نفتی اور تیل کو سلام
ہمارے محلے میں ایک کوچوان رہتا تھا جو مٹی کا تیل بیچتا تھا، سب اسے چچا نفتی کہتے تھے۔
میں ایک دن کسی کام سے جا رہا تھا چچا نفتی اپنی خچر گاڑی کے پاس بیٹھے تیل بیچ رہے تھے۔ میں نے سلام کیا تو بولے “آغا ! اک بات پوچھ سکتا ہوں؟ “، میں نے کہا جی چچا پوچھئے۔
کہنے لگے کیا آپ نے اپنے گھر میں گیس لگوا لی ہے ؟
میں نے کہا جی لگوا لی ہے
نفتی بولے “تبھی آپ کے سلام کا انداز بدل گیا ہے”۔
میں نے تعجب سے کہا وہ کیسے ؟ یعنی کیا ہوا؟
نفتی کہنے لگے “ ہوا یہ کہ پہلے آپ سلام کرتے پھر رک جاتے میرا احوال میرے گھربار بچوں حتی کہ میرے خچر کا بھی حال پوچھتے، اب کبھی کبھار سلام علیک چلتے ہوئے بے نیازی سے کر جاتے ہیں۔ باقی محلے والے بھی ایسے ہی تھے اب جس جس کے گھر گیس لگتی جا رہی ہے وہ آپ جیسا سلام کرنے لگا ہے۔ میں جس سلام میں تیس سال تہذیب ، اخلاقیات اور انسانیت کی خوشبو سمجھتا رہا وہ تو دراصل مٹی کے تیل کی بُو تھی۔
میں سر جھکائے سنتا رہا اور آہستہ آہستہ چلنے لگا لیکن میں سر اٹھا نہیں رہا تھا میرے دل و دماغ میں یہی چل رہا تھا کہ میں تیس سال تک انسانیت کی بجائے ضرورت کے تحت اس شخص کو اخلاق اور گرمجوشی سے سلام کرتا رہا، خود کو بہت مہذب ، عالم گردانتا رہا اور آج جب میرے گھر میں گیس کا کنکشن لگ گیا تو لاشعوری طور پر میں نے سوچا اب اس شخص کی ضرورت نہیں اس کو سلام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
یاد رکھیں، ہمارے سلام میں سے ضرورت کی بو نہیں آنی چاہیے۔
نفتی : فارسی میں تیل کو نفت کہتے ہیں۔ نفتی بمعنی تیل والا
فارسی ادب سے
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔