امانت دار انسان
کہانی کار: سید حبدار قائم
گاوں میں تنویر کے پاس لوگ امانتیں رکھتے تھے دور دور تک اس کی شرافت کے چرچے تھے جو شخص بھی گاوں سے باہر جاتا تھا وہ گھر کی قیمتی چیزیں اس کے پاس رکھ کر جاتا تھا واپس آ کر وہ تنویر سے اپنی امانت واپس لے لیتا تھا
تنویر کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام سکندر تھا وہ اپنے باپ کے مزاج سے بالکل الگ مزاج رکھتا تھا اسے کسی کی امانت کی کوئی پرواہ نہیں تھی اُس کا بس چلتا تو لوگوں کی امانتیں بیچ کر کھا جاتا لیکن تنویر اُس کو ایسا نہ کرنے دیتا اور اسے ہمیشہ امانت میں خیانت کرنے سے منع کرتا اور اسے بتاتا تھا کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم امین تھے لوگ ان کے پاس امانتیں رکھتے تھے عرب کے سارے لوگ ان کو امین کہتے تھے ہم سب مسلمانوں کو آقا پاک نے امانت کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے اس لیے ہمیں امانت کو اس کے مالک تک پہنچا کر خوش ہونا چاہیے اسی وجہ سے سارے گاوں میں تنویر کی دیانت داری کا چرچا تھا سارے گاؤں والے اس کے گھر والوں کی عزت کرتے تھے۔اور وہ بھی سب کی عزت کرتا تھا
ایک دفعہ گاؤں کے شریف نامی شخص نے اپنے گھر کے زیورات تنویر کے پاس امانت کے طور پر رکھوائے چوں کہ سارے گاؤں والوں کی طرح وہ بھی تنویر کی دیانتداری پر یقین رکھتا تھا۔ اور تنویر سے محبت کرتا تھا اس لیے اس نے تنویر کے بتاۓ ہوۓ طریقہ کے مطابق دو کاغذات پر زیورات کی تفصیل لکھی جس پر تنویر اور شریف دونوں نے دستخط کیے اور ایک ایک کاغذ دونوں نے اپنے پاس رکھ لیا اور زیورات کو تنویر کی نگرانی میں دے کر وہ لمبے عرصے کے لیے شہر چلا گیا
اس دوران سکندر نے جو کہ تنویر کا لالچی بیٹا تھا اس کی نظر زیورات پر پڑی جوکہ امانت کے طور پر اُس کے والد کے پاس پڑے ہوۓ تھے۔ جسے اس کے والد نے گھر میں محفوظ جگہ پر سنبھال کر رکھا ہوا تھا ۔ یہ دیکھ کر اس کا من للچایا لیکن وہ والد کے ہاتھوں مجبور تھا اور وہ چوری نہیں کر سکتا تھا
کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ گاوں میں شریف کے مرنے کی خبر آگئ کہ وہ ایک حادثہ میں وفات پاگیا ہے تو اس پر سکندر خوشی سے جھوم اٹھا کیونکہ اس کی نظر شریف کے رکھواۓ ہوۓ زیوارات پر تھی جو اب اس کو اپنی ملکیت بنتے دکھائی دے رہے تھے اس نے اپنے والد کو سمجھانے کی کوشش کی کہ مال کو اپنی ملکیت بنا لیتے ہیں لیکن تنویر اللہ پاک سے محبت کرتا تھا اِس لیے اس نے صاف انکار کر دیا ۔ اس پر سکندر نے وہ چیزیں والد کی غیر حاضری میں گھر سے چوری کر لیں اور بازار میں جا کر بیچ دیں جو رقم حاصل ہوئی اس سے کچھ عرصہ عیاشی کی
چند دن بعد خبر ملی کہ شریف مرا نہیں بلکہ زندہ تھا اور وہ گاوں میں واپس آ گیا ہے
گاؤں میں واپس آتے ہی اس نے اپنی رکھوائی ہوئی امانت واپس لینا چاہی تو تنویر گھر میں امانت لینے گیا تو امانت کو وہاں نہ پایا تو گھبرا سا گیا اس نےجا کر شریف کو بتایا کہ امانت جہاں پر رکھی تھی وہاں پر موجود نہیں ہے تو اس بات پر شریف کو غصہ آ گیا جس کا اس نے اظہار کیا اور یہ کہہ کر چلا گیا کہ وہ دو دن بعد واپس آۓ گا اور اپنی امانت واپس لے جاۓ گا
تنویر نے گھر میں سب سے پوچھا تو اسے پتہ چلا کہ اس کے بیٹے سکندر نے سونا بیچ کر پیسہ خرچ کر دیا ہے اس نے بیٹے سے کہا کہ تم نے میری ساری زندگی کی دیانت داری پر داغ لگا دیا ہے اس لیے میں تجھے کبھی معاف نہیں کروں گا سکندر نے بہت بہانے بناۓ لیکن تنویر نے اسے پولیس کے حوالے کر دیا
گھر میں جا کر اس نے گھر کا قیمتی سامان بیچا اور زیورات خرید کر شریف کے حوالے کر دیے تنویر نے شریف سے معافی مانگی اور سب کچھ سچ سچ بتا دیا تنویر کی نیک نامی تو بچ گئی لیکن اس کے بیٹے کو اپنے کیے کی سزا مل گئی
پیارے بچو! تنویر ایک امانت دار شخص تھا اس نے ہمیشہ نبی اکرم صلى الله عليه واله وسلم کی سیرت پر عمل کیا جس کے بدلے میں اللہ پاک نے اس کو سارے گاوں میں عزت دار بنا دیا جب کہ اس کا بیٹا اپنے آقا حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم کی بات نہ مان کر رسوا ہو گیا
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نبی پاک حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم کی باتوں پر عمل کریں تاکہ اللہ تعالٰی ہمیں بھی عزت عطا فرماۓ۔
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔