از قلم
بینش احمد اٹک
کوئی بھی انسان دُنیا میں تنہا نہیں رہ سکتا ہے ہمیں کسی نہ کسی رشتے کی ضرورت ہوتی ہے-کچھ رشے خونی ہوتے ہیں جن میں ہمارے گھر والے ہمارے عزیز واقارب شامل ہیں جبکہ کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جن سے ہمارا تعلق خونی تو نہیں ہوتا لیکن وہ اپنوں سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔ انہی میں سے ایک رشتہ اُستاد کا ہے۔
اساتذہ ہمارے روحانی والدین بھی کہلاتے ہیں – اسلام میں اُستاد کا رشتہ والدین کے رشتے کے برابر قرار دیا گیا ہے کیونکہ اُستاد ہی ایسی واحد شخصیت ہے جو والدین کے بعد بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہیں – اُستاد ہی ہے جو ہمیں معاشرے میں رہنے کے طور طریقے سکھاتا ہے اور ہمیں کتابوں کا علم پڑھاتا ہے-حضرت علیؑ نے فرمایا:
’’اگر تم بادشاہ ہو تو بھی اپنے اْستاد اور والد کی تعظیم میں کھڑے ہو جاؤ’‘
اس بات سے اُستاد کی حیثیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے- ایک اُستاد ہی ہے جو کوئلے سے ہیرا بناتا ہے- اُستاد کا کام صرف طلباء کو کتابی سبق ہی پڑھانا نہیں بلکہ وہ طلباء کو زمانے کی تمام اُونچ نیچ کے بارے میں سکھاتا ہے اور معاشرے میں رہنے کے طور طریقوں سے بھی آگاہی فراہم کرتا ہے-اُستاد کے احترام اور اس کی مناسب تربیت کے بغیر کوئی بھی انسان کامیابی حاصل نہیں کر سکتا-
مشہور محاورہ ہے کہ: ‘با ادب با نصیب’، ‘بے ادب بے نصیب’
جو انسان اپنے اساتذہ کا ادب و احترام نہیں کرتا وہ منہ کے بَل گرتا ہے-آپ پوری دْنیا میں نظر دوڑا کر دیکھ لیں کوئی بھی ایسا رشتہ نہیں ہوگا جو بغیر مطلب کے آپ کے ساتھ ہو-
آج کل کے رشتے صرف اور صرف مطلب کی بنیاد پہ قائم ہیں مطلب ختم تو رشتہ بھی ختم-لیکن ہمارے والدین اور اساتذہ ایسی واحد شخصیات ہیں جو بنا مطلب کے ہمارا ساتھ دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اْن کے بچے اْن سے بھی ذیادہ آگے جائیں اور مزید ترقی کریں –
ہمارے پیارے نبی حضرت محمدؐ کو تمام انسانوں کیلئے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے- جب آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہا سے خطاب کیا کرتے تھے تو صحابہ کرام اس قدر خاموشی سے بیٹھتے تھے کہ اپنے سروں کو حرکت تک نہیں دیتے تھے بیشک اُن کے سروں پہ پرندے آ کر کیوں نہ بیٹھے رہیں اور ایک موجودہ دور کے طلباء ہیں کہ اْنہوں نے اْستاد کے ادب و احترام کو بالکل ایک طرف کر کے رکھ دیا ہے- طلباء اپنے اْستاد کے سامنے تن کر کھڑے ہو جاتے ہیں اْن سے اونچی آواز میں بحث و مباحثہ کرتے ہیں -اکثر دکھائی دیتا ہے کہ وہ ان کے ساتھ جھگڑا بھی کرتے ہیں جو کہ بے حد نا مناسب طرز عمل ہے۔
میرے لیے میرے تمام اساتذہ قابلِ عزت ہیں – میں نے جب سے اس شعبے میں قدم رکھا ہے تو ہر قسم کے لوگوں سے میرا واسطہ پڑا ہے- لیکن دو ایسی شخصیات ہیں جو میرے لئے بہت ہی ذیادہ قابلِ احترام ہیں۔ آپ کو دنیا میں ایسے بہت کم لوگ ملیں گے جو بغیر کسی صلہ اور مطلب کے آپ کی مدد کریں گے- یہ میرے ایسے اْستاد ہیں جن سے مجھے وہ سب کچھ سیکھنے کا موقع مل رہا ہے جو شاید میں نے اپنی بائیس سالہ زندگی میں بھی نہیں سیکھا ہے۔ میں ان کے نام ظاہر نہیں کروں گی لیکن اللہ تعالیٰ سے ہر پل میری یہی دْعا رہتی ہے کہ میرے اللہ تعالیٰ ان اساتذہ کو مزید ترقی عطا فرمائیں، اْن کو لمبی زندگی دیں اور اسی طرح وہ دوسروں کو روشنی کی طرف لاتے رہیں۔آمین ثم آمین
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔