قصه یک شب در کالج کیمپبلپور
جیسے کے مضمون کے عنوان سے ظاہر ہے کہ یہ ایک رات کا قصہ ہے جو کے حالات و واقعات کے پیش نظر ایسا موڑ اختیار کر گیا کے ایک یادگار ، انتہائی دلچسپ اور مجھے ہمیشہ یاد رہنے والے قصوں میں شامل ہوگیا ہے جس کا حال احوال میں اب یہاں آپ کے سامنے لکھنے والا ہوں بشرطیکہ یاداشت ساتھ دے ۔ کیمپبلپور شہر اپنی تاریخی اہمیت کے علاوہ میرے لئیے ہمیشہ سے خاص دلچسپی اور مرکز محبت رہا ہے ، بچپن سے اس شہر طلسمات کے قصے اور دلچسپ کہانیاں سنتا آیا ہوں اپنے والد محترم سے اور خاص طور پر ان کے کالج کے زمانے کی یاداشتیں میرے زہن پر نقش ہیں یہاں جب بھی آنا ہوتا یہاں کی بارشوں کے بعد مٹی کی مہک ، لوگوں کا خلوص یہاں کی گلیاں اور بھاگتے خوبصورت تانگے ، تولا رام بلڈنگ کے پرانے چوبارے ، رات گئے ریل کی سیٹی ، کَنو کے پکوڑے ، گِیدڑ چوک ، سروالے کا فروٹ چاٹ ، فوارہ چوک میں چپلی کباب کی سوندھی سوندھی خوشبو ، ہرو کا پانی اور خوبصورت نظارے ، اٹک کا پُل اور نہ جانے کیا کیا ذہن کے مرتبان میں پاپ کورن کی طرح بن کر خیالات ابھرنے لگتے ہیں اور ایک خوشگوار سی لہر دل و دماغ میں سرایت کر جاتی ہے یہاں میں اس شہر سے محبت میں لکھا اپنا کلام آپ کو پڑھاتا ہوں کلام شاعر بقلم شاعر ملاحضہ فرمائیے ،
اے میرے ہم دم دیرینہ کبھی کیمبلپور تو آ
تجھے میں سیر کراؤں کبھی کیمبلپور تو آ
تجھے پلکوں پہ بٹھاؤں کبھی کیمبلپور تو آ
میں تیرے ناز اٹھاؤں کبھی کیمبلپور تو آ
توت کی چھاؤں ، کٹوا اور مکھڈی حلوہ ہو
تجھے ماضی میں لے جاؤں کبھی کیمبلپور تو آ ۔۔۔
میرے والد محترم سیّدزادہ سخاوت علی شاہ بخاری اپنے وصال سے قبل اس شہر بارے بہت سی یاداشتیں قلمبند کر چکے تھے جو آپ قارئین نے قسط وار پڑھی ہوں گی ” کیمپبلپور سے اٹک تک ” اور ” جو ہم نے دیکھا ” کے عنوان سے اور یہ سب اسوقت ہماری ویب سائٹ iattock.com پر موجود ہیں بشکریہ برادر بزرگ آغا سیّد جہانگیر بخاری جنہوں نے ایسا منفرد اور یاداشتوں کا منبع پلیٹ فارم مہیا کیا جہاں انگنت یاداشتیں ایک انسائیکلوپیڈیا کیطرح محفوظ ہیں جو چاہے جب چاہے یادوں کے ورق پلٹ کر بیتے ہوئے زمانوں میں لوٹ سکتا ہے ۔
تو آئیے کہانی کا آغاز کرتے ہیں ، گورنمنٹ کالج کیمپبلپور جسے اب گورنمنٹ کالج اٹک کہ کر پکارا جاتا ہے میرے تجزئیے کے مطابق اپنی صد سالہ سالگرہ منا چکا ہے کیونکہ بورڈنگ ہاؤس ( ہاسٹل ) کی عمارت کے صدر دروازے پر جو تختی آویزاں ہے اس پے سنۂ 1922 کندہ ہے اور کہا جاتا ہے کہ سردار سکندر حیات خان جو متحدہ پنجاب کے پہلے وزیراعظم منتخب ہوے ( آپ لاہور کی شاہی مسجد کے دالان میں سر علامہ مُحمد اقبال ؒ کے مزار کے قریب آسودہ خاک ہیں ) انہوں نےتحفتاً اسے اپنے شہر کو پیش کیا ) ، یہاں اس کالج میں میرے والد محترم سیّدزادہ سخاوت علی شاہ بخاری زیر تعلیم رہے اور ان کی کافی خوشگوار یادیں اس سے جڑی ہوئی تھیں ۔
سن انیس سو ساٹھ کے اواخر سے سن انیسو ستر کے وسط تک وہ اس سے منسلک رہے ۔ ان کے اساتذہ میں محترم سعداللہ کلیم ، محترم ڈاکٹر اشرف الحُسینی ، محترم پروفیسر انور جلال ، محترم نذر صابری ، محترم پروفیسر زاہر حسن فاروقی اور محترم ڈاکٹر غلام جیلانی برق نمایاں نام تھے جو مجھے یاد ہیں کیونکہ ان کا تذکرہ میں ان سے اکثر سنتا تھا اور وہ انہیں یاد کیا کرتے تھے ۔ اس دور میں کالج کے پرنسپل محترم کمانڈر ظہور احمد تھے اور میری یہ دیرینہ خواہش تھی کہ کبھی اس کالج کا وزٹ والد محترم کیساتھ کرتا لیکن کبھی اس خواہش کی تکمیل کا موقع نہیں ملا اور اب جبکہ وہ اس جہان فانی سے پردہ فرما گئے ہیں تو یہ خواہش دل ہی میں رہ گئی ۔ لیکن ہمارے گھر میں ابو کے کالج کے ادوار کی کچھ تصاویر موجود ہیں جن کو دیکھ کر ان میں سے کئی کرداروں سے بالمشافہ نا سہی لیکن تعارف رہا ہے ۔
رواں سال جنوری کی ایک سرد رات میں کیمپبلپور شہر میں اپنے ایک عزیز محترم علی عون صاحب کے ہاں مدعو تھا ( علی عون صاحب سے پیشگی معذرت کیساتھ یہاں واضع کردوں کے عزیز اس لئیے لکھا ہے کہ آپ مجھے واقعتا عزیز ہیں ویسے رشتے میں کزن بھی ہیں اور ماموں بھی ہیں ، قارئین حیران نہ ہوں ایسا بھی ہوتا ہے ) رات کے تقریبا 9 بجے ان سے رخصت چاہی تو وہ مجھے چھوڑنے میرے ساتھ ہو لئیے چونکہ میں پاکستان میں اسوقت بے کار تھا اور وہ صاحبِ کار تو انہوں نے گھر تک چھوڑنے پر اصرار کیا اب سردیوں کی رات تھی اور ان کے گھر کے گرم کمرے سے نکل کر گاڑی میں بیٹھنے تک یوں محسوس ہوا جیسے کے سردی کسی مشفق بُڑھیا کیطرح باہر سرد شال لئیے ہماری منتظر کھڑی تھی اور وہ ٹھنڈی شال ہمیں اوڑھا دی ایسے محسوس ہوا جیسے سردی کی ایک لہر نے ہمیں لپیٹ لیا ہو ہم ٹھٹھرتے ہوئے جلدی سے ہاتھ ملتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے ہیٹر چلایا اور موصوف نے کہا آج ذرا نئے راستے سے چلتے ہیں ہم ناز سینما کے پاس سے گزرے جو کے ہمارے شہر کی مشہور باقیات میں سے ہے اور رات کے وقت بند گاڑی کے اندر سے شیشوں پر بھاپ جمنے سے ہلکے زعفرانی رنگ کی اس بلڈنگ کو مدھم روشنی اور دھند کے بخارات میں دیکھا تو بہت دلفریب دکھائی دی اور والد محترم کیساتھ یہاں سے اکثر گزرنے کی کئی یادیں اور واقعات زہن کے پردے پر دوڑنے لگے ، مقامی انتظامیہ اگر اس عمارت کو محفوظ کر لے تو یہ اس شہر کی ایک پرانی یادگار کے طور پر بچ جائے گی ۔ اس سے آگے کا راستہ میں صحیح سے سمجھ نہیں سکا چونکہ ہم خوش گپیوں میں لگے ہوئے تھے لیکن ایک کھلی سڑک کی چورنگی سے جب ہم بائیں ہاتھ کیطرف مڑے تو یک دم علی عون نے مجھ سے پوچھا کہ کبھی اپنے ابو کا کالج دیکھا تھا میں نے نفی میں سر ہلایا اور کہا نہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ تمہاری بائیں طرف وہ کالج ہے دیکھ لو باہر سے اب ہم کالج کے گیٹ کے سامنے تھے اور وہیں کچھ پل کیلئیے گاڑی پارک کی اتر کر کالج کے بورڈ پر لکھی تحریر پڑھی اور تصاویر بنوائیں اسی اثناء میں کسی نے کالج کا بڑا گیٹ جس کے دو پلے تھے ان میں سے ایک پلا کھولا اور کچھ گاڑیاں اندر داخل ہوئیں اور کچھ باہر نکلیں اب گیٹ کھلا دیکھ کر ہمیں بھی اشتیاق ہوا کے اندر سے بھی کالج کو دیکھا جائے کیونکہ اس دن شاید کوئی تقریب منعقد کی گئی تھی اس لئیے رات کے اس پہر آمد و رفت جاری تھی سو ہم بھی موقع غنیمت جان کر اندر داخل ہو گئے یہ میرا اس کالج میں پہلا قدم تھا جو کہ اتنا مبارک ثابت ہوا کہ تحریر پڑھتے ہوے آپ پر یہ راز آشکارا ہوگا کے واقعی کتنا مبارک قدم تھا بقول اسرار الحق مجاز ،
” کیا کیا ہوا ہے ہم سے جنوں میں نہ پوچھئے ۔۔۔ "
خوشی خوشی کالج میں داخل ہوے دائیں طرف نیچے اترائی اور اس سے ملحق کھلا گراؤنڈ سا تھا سامنے راہداری کی داہیں طرف سرو کے درختوں کا حسین منظر اور باہیں طرف کلاس رومز کی بلڈنگ تھی ہم اس راہداری اور سرو کے درختوں کے پتوں کو چھوتے آگے بڑھے جیسے وہ ہم سے ہاتھ ملا رہے ہوں اور ویلکم کر رہے ہوں داہیں طرف نیچے روشنی اور اندھیرے کی آنکھ مچولی میں ایک خوبصورت سا دالان دکھا جسمیں بیٹھنے کیلئے بنچ بھی تھے شاید بیچ میں ایک گول دائرہ نما فوارہ بھی تھا ۔ کالج کے اس دورے میں علی عون مجھے ساتھ ساتھ بتاتے جاتے کہ یہ فلاں جگہ ہے یہ پرانی عمارت ہے یہ نئی توسیع ہوئی ہے یہ سب وہ اس لئیے جانتے تھے کیونکہ وہ خود بھی اس ادارے میں زیر تعلیم رہ چکے تھے اس خوبصورت راہداری جس کے دائیں بائیں خوبصورت اور لمبے درخت تھے دیکھ کر مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میں اس رات کالج میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا ہوں اور ریڈ کارپٹ پر گارڈ آف آنر کے بعد دونوں طرف چاک و چوبند ایستادہ سپاہیوں کے جھرمٹ سے گزر رہا ہوں اور وہ ہل ہل کر مجھے سلیوٹ کر رہے ہوں ۔ خیر سے ہم نے کالج کا پرانا ہاسٹل دیکھا جسپر 1922 کی تختی آویزاں تھی اس کے سامنے والد محترم کی طرح کھڑے ہو کر تصویر بھی بنائی اس سے ذرا آگے مسجد دیکھی یہاں ایک موٹر سائیکل سوار آیا اور کچھ سامان کسی کو دیا اور ایک سواری ساتھ بٹھاکر لے گیا یہ مجھے اس لئیے یاد ہے کہ ہم نے انہیں راہداری سے اتر کر راستہ دیا اور چلتے چلتے ہم کالج کے گراؤنڈ تک پہنچ گئے اب یہاں روشنی نہیں تھی گھپ اندھیرا بھی نہیں تھا ہلکی چاند کی روشنی اور اس آنکھ مچولی میں گراؤنڈ کے خد و خال کچھ حد تک نمایاں تھے یہاں ہم نے کچھ توقف کیا مدھم مدھم چاندنی سے لطف اندوز ہوتے ہوے پرانے قصے جو والد محترم سے سنے ہوئے تھے وہ دہرائے کچھ پرانی تصاویر کو ذہن میں لاکر اس جگہ کو اس کی پرانی شکل میں تصور کیا یہیں کہیں ایک بٹلر ہال بھی ہوا کرتا تھا جس کا مجھے پتا نہیں چل سکا نا ہی علی عون کو یاد آیا کے کہاں ہوا کرتا تھا ، مجھے والد محترم کے کلاس فیلو انکل مظہر الدین کا سنایا ہوا واقع یاد آیا جسمیں آپ دونوں نے سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کا سگار سلگا کر اس کے کش لگائے تھے اس لمحے کو محسوس کرنے کی کوشش کی یا شاید وہ کالج کا کوئی اور حصہ تھا خیر گراؤنڈ کے آخر میں ایک گیٹ بھی ہوا کرتا تھا جو اب بند کردیا گیا ہے اس کا ذکر ہوا اور اس کے بعد ہم وہاں سے واپس ہوئے اور علی عون صاحب مجھے راستے میں نئی تعمیر شدہ بلڈنگ اور پرانی بلڈنگ کے بارے بتانے لگے اور باتوں باتوں میں ہم مین گیٹ تک پہنچ گئے راستے میں سرو کے درخت اور ہلکی روشنی ایک خوبصورت سی پینٹنگ کا منظر لگ رہا تھا جیسے بلیک اینڈ وائٹ سکیچ ہو اور ہوا سے لہراتے درخت جیسے ایک مہربان اور شفیق مہمان نواز کیطرح خدا حافظ کہ رہے ہوں ۔ گیٹ کے قریب پہنچنے پر دیکھا کے بڑا گیٹ تو بند ہوچکا تھا اس پر تالا لگا ہوا تھا سو ہم چھوٹے گیٹ کی طرف ہولئیے لیکن شومئی قسمت چھوٹا گیٹ بھی بند تھا ہمیں تو جیسے چار سو چالیس والٹ کا جھٹکا لگا ہو اب اچانک سے ایسی کیفیت طاری ہو گئی کہ کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا جلدی سے لپک کر گیٹ کو پیٹا آوازیں دیں لیکن سب بے سود کوئی ہوتا تو آتا اب یہاں سے اس سارے خوبصورت سفر میں ایک خم دار موڑ آیا بقول اقبال ،
” مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں "
اس وقت کیا بجا ہوگا تو وقت کا میں صحیح سے تعین نہیں کر پایا لیکن رات کے تقریبا 10 بجے ہوں گے اور ہم نے یہ حقیقت تسلیم کر لی کہ اب ہم کالج میں لاک ہوچکے ہیں دیوار پھلانگنے کا سوچا اور اوپر دیکھا دیوار کیطرف تو خود کو بونا محسوس کیا پھر سامنے کیمرے پر نظر پڑی اس کے سامنے ہاتھ ہلائے تاکہ اگر کوئی دیکھ رہا ہو تو مدد کو آئے لیکن ایسا کوئی انتظام نا تھا علی عون صاحب شدید حیرانی ، پریشانی اور تشویش کا شکار تھے کے ایسے کیسے ہوسکتا ہے ہماری تو گاڑی بھی گیٹ کے سامنے کھڑی ہے اور اب چوکیدار صاحب کو کہاں تلاش کریں گیٹ پر کوئی ایمرجنسی نمبر بھی درج نہیں ہے بھاگ کر ایڈمن آفس کی طرف گئے مگر وہ بند تھا ، یہاں سے ہم تیزی سے بلکہ مقامی اصطلاح میں کہیں تو ‘ چِھک پَٹ ‘ کے ہاسٹل کیطرف دوڑے وہاں پر بھی کوئی نا تھا یک لخت کالج کی ساری خوبصورتی ایک بھیانک سے بھوت بنگلے میں بدل گئی اب وہی سرو کے درخت جو کچھ دیر پہلے دل کو لبھا رئے تھے اب خوفناک چڑیل نما سے لگ رہے تھے پتوں کی سرسراہٹ سے یہ گمان ہوتا تھا کہ کوئی ان دیکھی چیز ہے ہمارے آس پاس ہے ،پس کہ سردی کی شدت میں پسینے اور ایک خوف ساطاری ہوگیا فضا میں ۔ اس رات ہم نے کالج کا کونہ کونہ چپہ چپہ چھان مارا ” پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے ” کے کہیں کوئی ملے اور ہمیں آزاد کرواے اسی اثناء اس گُھپ اندھیرے اور سناٹے میں میرے موبائل فون کی گھنٹی کی آواز خامشی کو چیر گئی اور ہماری چیخ تو نہ نکلی لیکن یہاں ایک اور اصطلاح استعمال ہوتی ہے کہ ” تراء کڈ چھوڑاس ” اس واقعے میں آپ کو کچھ مقامی انداز بیان کا تزکرہ حسب ذائقہ ملتا رہے گا ” اب گھنٹی بجنے پر علی عون نے تذبذب میں پوچھا کہ کون ہے میں نے کہا آپ کے گھر سے کال آرہی ہے تو وہ جھنجھلا اٹھے کہ فون نہ اٹھانا اور سختی سے فوجی دستے کی قیادت کرنے والے جرنیل کیطرح ہدایت کی کے کسی کو پتا نا چلے میں نے بھی معقول سا کوئی بہانہ بنایا اور کال بند ہوگئی اور ہم پھر سے اندھیرے کمرے میں کالی بلی کو ڈھونڈنے کیطرح اس سنسان کالج میں چوکیدار صاحب کو تلاشتے ہوئے گھومتے گھومتے کئی مرتبہ ایسی ٹھوکر لگی کے چودہ طبق روشن ہوگئے کبھی گرتے گرتے سنبھلتے تو کبھی استاد تافو خان کے ڈھول کیطرح پٹتے کیونکے اندھیرے میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا اس پر آسمان کے ستاروں کے بعد صرف موبائل فون کی روشنی کا آسرا تھا چلتے چلتے کبھی علی عون مجھ سے آگے نکل جاتے کبھی میں ان سے پیچھے رہ جاتا اتنے میں علی عون نے کہا کے تمہیں بہت شوق تھا کالج دیکھنے کا اب تمہارے والد یہ چاہتے ہیں کہ بیٹا آج آگئے ہو تو اچھی طرح کالج دیکھ کر جاؤ اس پر ہم دونوں ہنس دئیے اور ماحول کچھ خوشگوار ہوا کچھ دیر ایک بنچ پر بیٹھ کر سستانے کے بعد پھر چل پڑے اتنے میں میری بہن اور زوجہ علی عون محترمہ صدف صاحبہ کا پھر سے فون آیا اور میں نے انہیں اس بار چپکے سے بتادیا کہ ہم اس طرح کالج میں لاک ہوگئے ہیں یہ سن کر پہلے تو وہ حیران ہوئیں کہ ہم وہاں اسوقت پہنچے کیسے اور یہ آئیڈیا کس کا تھا پھر جانے کیا سوچ کر وہ ہنسیں اور کہا کے چلیں اب میں کچھ کرتی ہوں علی عون صاحب نے پوچھا کون تھا تو میں نے بتایا کے آپ کے گھر سے فون تھا میں نے معقول بہانہ بنا کر گولی دے دی ہے تو وہ بولے کے ٹھیک ہے گھر پر کسی کو پتا نا چلے ورنہ میرے ڈیڈی (والد) کو پتا چل گیا تو ناراض ہوں گے ۔ گھومتے گھومتے کالج کے دالان سے ہوتے ہوے گیٹ کے عقب میں ایک کوارٹر نظر آیا جسمیں روشنی تھی اس کے نزدیک پہنچے تو اندر سے ایک شخص کی آواز سنائی دی ہم نے فورا ان کے دروازے پر دستک دی لیکن کوئی نہ آیا کچھ دیر مزید دستک دی تو ایک صاحب باہر نکلے اور ہمیں دیکھ کر حیران ہوئے کہ آپ لوگ کون ہیں اور اس وقت یہاں کیسے؟ ان کے چہرے پر حیرانی ایسی تھی کے لا یقینی سی کیفیت میں ہوں ہم نے پہلے ان کو اپنے انسان ہونے کا یقین دلایا پھر ان کو بتایا کہ ہم کالج دیکھنے آئے تھے اور اب اندر لاک ہو گہے ہیں آپ ازراہِ مہربانی چوکیدار صاحب کو بلادیں خیر وہ کچھ دیر ہمارے ساتھ رکے اور چوکیدار بابو کو کال بھی ملائی لیکن ہمیں مسلسل چور نظروں سے دیکھتے رہے انہیں شک تھا کہ ہم ناجانے کون سر پھرے نوجوان ہیں اور یہ کہا کے میاں کالج دیکھنا ہی تھا تو دن میں آتے مجھے آپ کی بات ہضم نہیں ہورہی اور اسی تشویش کے عالم میں ہم سے کہا کے میں آتا ہوں اور رات کے اندھیرے میں اپنا فون نمبر دئیے بغیر غائب ہوگئے میں غائب ہی کہوں گا کیونکہ اس کے بعد نا تو انہوں نے دوبارہ دروازے پر دستک کی آواز پر حاضری دی نا کبھی واپس آئے اور ہم ایک بار پھر بے آسرا ہوگئے ۔ اس دوران میں نے کافی سوچ بچار کے بعد اپنے ایک پڑوسی نعمان صاحب کو فون کیا جن کے گھر میں ان دنوں شادی کی تقریب منعقد تھی اور رات کے اس پہر شہر میں وہی بیدار ہوسکتے تھے ان کو فون پر سارا ماجرا بتایا وہ سن کر ہنستے رہے اور یقین نا کیا کسی طرح ان کو یقین دلایا اور کالج بلایا اور اس کے بعد میں کچھ اور لوگوں کو میسج کرنے اور کال کرنے کا سوچ رہا تھا اور اس پریشانی اور اداسی کے عالم میں تھا کے اگر صبح تک دروازے نا کھلا تو تب تک رات کہاں اور کیسے بسر ہو گی؟ یہ بھی امید تھی کی اندر ایک مسجد ہے اور ہوسکتا ہے یہ مسجد آباد ہو اور فجر کی اذان اور نماز کیلئے کھلے تو کچھ دیر اسمیں سستا لیں گے ان سوچوں کیساتھ ٹہلتے ٹہلتے تھوڑا دور نکل آیا ماحول بالکل شعیب بن عزیز کے اس شعر کے مطابقت سے اگر دیکھیں تو آپ کو موزوں لگے گا ،
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
اسی اثناء مجھے علی عون کی آواز سنائی دی جو کسی سے مخاطب تھے اور وہ شخص گیٹ کے باہر تھا میرے نزدیک آنے پر پتا چلا کے علی عون دیوار پر چڑھ کر خاردار تاروں کے درمیان سے انہیں چوکیدار سمجھ کر ان پر ہلکے ہلکے برہم ہو رہے تھے بلکے ابھی پوری طرح برہم ہونے کا ٹییمپو بنا رہے تھے ایسے موقعوں پر عام استعمال شدہ مقامی اصطلاح یاد آ گئی ” کَھل تونڈی ” یہ بلیوں کی لڑائی والی لیکن یک طرفہ غُر پِش سن کر میں بھی دیوار پر چڑھ گیا اور خاردار تاروں کے بیچ سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ یہ تو نعمان صاحب ہیں جو میری کال پر مدد کو آئے ہیں چوکیدار نہیں ہیں تو میرے تعارف کروانے کے بعد نعمان بھی یہاں وہاں کالیں ملانے لگے جن کو وہ جانتے تھے کہ کہیں سے کوئی انتظام ہو جائے اور ہمیں اس قید بامشقت سے رخصت ملے ۔ اسی دوران ہماری بہن صدف نقوی کی کال موصول ہوئی کے میں نے کچھ لوگوں سے رابطے کرنے کی کوشش کی ہے لیکن رات کے اس پہر کوئی کال نہیں سن رہا اس لئیے مجبورا ہمارے انکل یاور بخاری صاحب کو کال کی ہے وہ پہلے تو سن کر بہت ہنسے اور تعجب بھی کیا کہ ہم رات کے اس پہر وہاں کیا کر رہے ہیں یہ کوئی وقت ہے کہیں جانے کا انہیں صبح تک وہیں ٹہلنے دو اور پھر تسلی دی کے میں کالج کے پرنسپل ماجد بھٹی صاحب کو جانتا ہوں اور ان سے بات کرتا ہوں تو ان کی بات ہو گئی ہے اور بھٹی صاحب چوکیدار کو بھجوا رہے ہیں یہ خبر سن کر ایسے محسوس ہوا جیسے صدیوں سے مقید مجرم کو جیل سے رہائی کی خبر ملتی ہے تو کچھ دیر میں چوکیدار صاحب آگئے ہم سے ملے تالا کھولا اور یوں ہمیں کئی گھنٹوں بعد رہائی ملی جیسے ہم وہ جن تھے جو شیشیے کی بوتل میں بند ہوتا ہے شیشے کے باہر کی دنیا تو دیکھ سکتا ہے مگر جب تک بوتل کا ڈھکن نا کھلے باہر نہیں آسکتا اور واقعی یوں محسوس ہوا جیسے برسوں کے بعد قید سے رہائی ملی ہو اور آزادی کیسی نعمت ہے اس کا شدت سے احساس ہوا دل میں تہیہ کیا کے گھر پہنچ کر شکرانے کے نفل ادا کروں گا جو مجھے آج یہ سطر لکھتے ہوئے یاد آئے ہیں اللہ مجھے اس بھول پر معاف کرے ۔ نعمان سے ملے جو کافی دیر سے باہر کھڑا تھا اور ملکر بہت ہنسا ہم بھی ہنس دئیے اور وہاں سے اسے شکریہ کیساتھ رخصت کیا کیونکہ ان کے گھر شادی کی تقریب تھی اور اس کے بعد میں اور علی عون وہاں سے نکلے اور سیدھا بازار گئے وہاں سے کچھ پینے کیلئے لےکر ریلوے اسٹیشن چلے گئے تاکہ کچھ دیر کھلی فضاء میں آزادی کے ان لمحات سے اعصاب کو ریلیکس کریں اور پھر گھر جائیں ساتھ ساتھ اس سارے واقعے کو دہرا کر ہنستے بھی رہے کہ یہ ہوا کیا ہمارے ساتھ اور اگر ہم صبح تک وہاں بند رہتے تو کیا ہوتا یہ تو اللہ کا اور چاچا الیگزنڈر گراہم بیل کی ٹیلیفون جیسی ایجاد کا شکریہ جس کے فرزند ہونہار موبائل فون کے ذریعے رابطہ ہوا اور رہائی کے وسائل بنے الحمدللہ ۔
بعض اوقات ہماری زندگی میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن کا اثر تادیر ہماری زندگیوں میں شامل رہتا ہے ایسے ہی واقعات میں سے یہ ایک ناقابل فراموش واقع تھا اور کالج کا یہ وزٹ اگر ہم نے کبھی دن کے وقت کیا ہوتا تو شاید اتنا یادگار ناہ ہوتا جتنا کہ اس واقعے کے بعد یادگار بن گیا اور مجھے ہمیشہ یاد رہے گا ۔ بقول شاعر ،
بعض اوقات فقط اک لمحہ ،
حاصلِ عمرِ رواں ہوتا ہے ۔۔۔
کیمپبلپور کالج کی خوبصورتی کا زکر اپنے محترم والد مرحوم سے جیسا سنا تھا ویسا ہی خوبصورت اور زیب نظر اسے پایا اس کیلئے میں اس کالج کے موجودہ پرنسپل جناب ماجد بھٹی صاحب اور تمام انتظامیہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اس رات ان کو پریشان کیا اس کہانی کے توسط سے ان سے معذرت اور دعا ہے کہ یہ کالج اور اس میں پڑھنے اور پڑھانے والے ترقی کریں اور شاد آباد رہیں ، آمین ۔ آج مجھے اس یاداشت کو قلمبند کرتے کم و بیش چار ماہ ہو گئے جو سفر پاکستان سے شروع ہوا تھا وہ آج یہاں سات سمندر پار مصروفیات سے تھوڑا تھوڑا وقت نکال کر مکمل ہوا ہے امید ہے آپ کو پڑھ کر دلچسپ لگے اپنی آراء سے آگاہ کیجئیے گا ۔
قصہ گو ،
شاندار بخاری
مسقط، سلطنت عمان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔