اپنی عظمت کا یقینی ادراک

اپنی عظمت کا یقینی ادراک

Dubai Naama

اپنی عظمت کا یقینی ادراک

سائنس دان متفق ہیں کہ ذہانت کے جینز اگلی نسلوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ البتہ ان جینز کی منتقلی اگلی کونسی نسل یا کس فرد میں ہوتی ہے اس کے بارے میں سائنس دانوں کی اکثریت ابھی خاموش ہے۔ ممکن ہے اگلی چند دہائیوں میں سائنس دانوں کا احسن بچے (Perfect Babies) پیدا کرنے کا خواب پورا ہو جائے یعنی ایک جوڑا اپنی مرضی سے بیٹا یا بیٹی پیدا کر سکیں گے، ان کے بالوں اور جلد کے کالے یا گورے رنگ کا انتخاب کر سکیں گے، قد کا تعین کر سکیں گے اور یہاں تک کی ان جسامت کی دیگر ساختوں جیسا کہ آنکھوں کے رنگ کو بھی اپنی مرضی کے مطابق حاصل کر سکیں گے۔ لیکن بیالوجی کی شاخ جینیٹکس (Genetics) کے سائنس دانوں نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی ہے کہ وہ یہ بھی بتا سکیں کہ ایسے بچے کتنے اور کس حد تک ذہین ہوں گے یا ان کا آئی کیو (IQ) لیول کتنا ہو گا؟

دنیا میں یہودیوں کو ایک ذہین قوم متصور کیا جاتا ہے۔ عظیم ترین سائنس دان آئینسٹائن بھی یہودی النسل تھا جس کی کچھ سائنسی پیش گوئیاں سو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی سچ ثابت ہو رہی ہیں جن میں 3لاکھ میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلنے والی روشنی کا خلا میں خم کھانا شامل ہے۔ یہودی ماو’ں کے بارے مشہور ہے کہ جب وہ حاملہ ہوں تو ذہین بچے پیدا کرنے کے لیئے وہ خصوصی غذائیں کھاتی ہیں، کورسز کرتی ہیں اور خود اپنی تعلیم و تربیت پر بہت زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ لیکن ان کو بھی معلوم نہیں ہوتا ہے کہ ان سے پیدا ہونے والا بچہ کتنا ذہین ہو گا یا وہ ایک ناقص العقل اور سرے سے غبی و کندن ذہن ثابت کو گا۔

البتہ یہ ایک مصدقہ سائنسی حقیقت ہے کہ ذہین و فطین اور جینیس (Genius) بچوں کو اپنی ذہانت کا بدرجہ اتم ادراک ہوتا ہے جس کا اظہار وہ اس مقولے کے مصداق کہ، "ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات” (Coming Events Cast Their Shadows Before) اپنے بچپن اور جوانی ہی میں کرنے لگتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ البرٹ آئن سٹائن سنہ 1922ء میں جاپان کے ایک ہوٹل میں داخل ہوئے، اور ایک ویٹر اس کے کمرے میں اس کی خدمت کے لئے آیا، آئن سٹائن اسے ٹپ دینا چاہتے تھے، جب انہوں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو ان کے پاس ویٹر کو دینے کے لئے کوئی رقم نہیں تھی، چناںچہ آئن سٹائن نے کاغذ اور قلم نکالا اور اس کو جرمن زبان میں ایک جملہ لکھنے کے بعد دستخط کر کے دے دیا، اور اسے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس آپ کو دینے کے لئے اس وقت پیسے تو نہیں ہیں، مگر آپ یہ کاغذ کا ٹکڑا رکھ لو، ایک دن آئے گا جب اس کی فروخت بہت مہنگے داموں میں ہو گی۔ اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ویٹر مر گیا اور کاغذ کا وہ ٹکڑا ویٹر کے بھتیجے کے پاس چلا گیا۔ ایک عرصہ گزرنے کے بعد آئنسٹائن کی سائنسی اہمیت و عظمت کے چرچے پوری دنیا میں ہونے لگے اور جب اس کاغذ کے ٹکڑے کی نیلامی ہوئی تو اس کی قیمت تیرہ لاکھ 13،00،000 ڈالرز لگی۔

دنیا کے عظیم ترین سائنس دان آئینسٹائن کے ہاتھ سے لکھے اس کاغذ پر لکھا تھا کہ، "ایک پرسکون اور معمولی زندگی مسلسل بے چینی سے جڑی کامیابی کے حصول سے زیادہ خوشی لاتی ہے:”
"A quiet and modest life brings more joy than a pursuit of success bound with constant unrest۔”

آئنسٹائن کے اس مقولے کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ وقتی طور پر مشکلات میں گھرا مگر ذہنی طور پر پرسکون رہنے والا شخص ایک دن عظیم انسان بن کر دنیا کے چہرے پر ابھرتا ہے۔ بے شک مشکلات، تکلیفوں، پریشانیوں اور مصائب کے ستائے ہوئے شخص کے پاس وہ صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں جو خوشحال لوگ چاہ کر بھی کبھی حاصل نہیں کر پاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا اخلاق اور کردار و سیرت لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے کا طریقہ عام لوگوں سے بہت اوپر ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ بھرا ہوا برتن دنیا کے کام آئے مگر کبھی کبھی خالی برتن ہی دوسروں کی پیاس بجھاتے ہیں کیونکہ جو بظاہر دیکھنے میں خالی نظر آتے ہیں جب وہ بھرتے ہیں تو کبھی خالی ہونے کا نام نہیں لیتے ہیں۔

دنیا کے عظیم لوگوں کی اکثریت آج بھی محرومیوں میں پروان چڑھ رہی ہے۔ سائنس دانوں کو دیکھ لیں یا فوربز میں چھپنے والے دنیا کے 100 امیر ترین لوگوں کی زندگیوں کا مطالعہ کر لیں ان کی اکثریت محرومیوں اور غربت کا شکار تھی۔ لیکن انہوں نے ہمت ہاری اور نہ ہی اپنے اندر پائی جانے والی صلاحیتوں اور عظمت کو اپنے اندر دفن ہونے دیا۔ بلکہ وہ اپنے اندر کی اس عظمت کو اندر ہی اندر پروان چڑھاتے رہے، انہیں ہمیشہ اپنی اس عظمت کا ادراک رہا، انہوں نے مشکل حالات میں بھی اپنے ذہن پر کوئی دباؤ محسوس نہیں کیا اور ان کو جونہی مناسب موقع ملا وہ دنیا میں ایک چمک دار ستارے کی مانند نمودار ہوئے۔

جب انسان کو اپنی عظمت کا شعور حاصل ہو تو وہ جیسے بھی مشکل حالات کا شکار ہو وہ ان سے نکل آتا ہے اور ایک دن ایسا ضرور آتا ہے جب وہ اپنا لوہا منوا کر رہتا ہے۔ آسائشوں میں پروان چڑھنے والے۔ اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کی پہچان کر کے ہی ترقی کی جا سکتی ہے۔ آسائشوں میں پروان چڑھے لوگ عموما سست اور کاہل ہوتے ہیں۔ حقیقی بڑے اور عظیم لوگ وہی ہوتے ہیں، جن کو اپنی عظمت اور صلاحیتوں کا مکمل ادراک ہوتا ہے اور جو ہر مشکل اور رکاوٹ کو عبور کر کے ابھرتے ہیں۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کیا      آپ      بھی      لکھاری      ہیں؟

اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

[email protected]

Next Post

درویشیات - ليت الفتى شجرة

ہفتہ فروری 15 , 2025
درويش لکھتے ہیں کہ ایک درخت دوسرے درخت کی بہن ہو جیسے، کوئی نیک سیرت پڑوسی ہو جیسے، یہ درخت دوسرے درختوں کا پھل نہیں چراتے
درویشیات – ليت الفتى شجرة

مزید دلچسپ تحریریں