پاکستان میں گندم کی پیداواری چیلنجز کا جائزہ
گندم کی پیدوار کے لحاظ سے صوبہ پنجاب پاکستان کے زرعی مرکز کے طور پر ہمارے سامنے ہے، یہ صوبہ نہ صرف اپنی خوراک کی ضروریات کو پورا کرتا ہے بلکہ دوسرے صوبوں کی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔ اس سال گندم کی پیداوار کے امید افزا پیداوار کے باوجود پنجاب حکومت کی جانب سے خریداری میں تاخیر اور حالیہ بارشوں نے کسانوں اور اس سے منسلک صنعتوں پر غیر یقینی صورتحال کے سائے ڈال دیئے ہیں۔ یہ صورت حال تاریخی بدانتظامی کے مسائل کی نشاندہی کرتی ہے اور ممکنہ بحرانوں سے بچنے کے لیے فوری طور پر دوبارہ تشخیص پر زور دیتی ہے۔
ماضی کی خامیوں پر غور کرنا موجودہ صورتحال کی فوری ضرورت کو سمجھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ حکومتی گوداموں میں ذخیرہ شدہ لاتعداد اور کروڑوں مالیت کی گندم کے اضافی ہونے کے نتیجے میں بدانتظامی کی سابقہ مثالیں فعال اقدامات کی اہم ضرورت کو اجاگر کرتی ہیں۔ پیداوار کے درست اعداد و شمار کے باوجود اضافی گندم کے استعمال پر نجی اداروں کے لیے حکومت کی ترجیح، کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے اس کے عزم پر سوال اٹھاتی ہے۔
اس وقت سرکاری گوداموں میں 2.6 ملین میٹرک ٹن گندم کا وافر ذخیرہ موجود ہے۔ تاہم خریداری میں تاخیر آنے والی فصل کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔ سرپلس گندم کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت کے نجی شعبوں پر انحصار کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے، جو کہ آزاد منڈی کے منظر نامے میں کسانوں کے لیے ممکنہ طور پر نقصان کا باعث بن رہا ہے۔
ان خطرات کو کم کرنے اور کسانوں کے اعتماد کو برقرار رکھنے کے لیے فوری کارروائی ناگزیر ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کو منصفانہ منافع کی یقین دہانی کراتے ہوئے گارنٹیڈ قیمتوں پر فوری طور پر گندم کی خریداری شروع کرے۔ ہدف شدہ پیداوار سے کم کسی بھی قسم کی تاخیر یا خریداری کسانوں کی فروخت میں پریشانی کا باعث بن سکتی ہے، جس سے مطلوبہ فائدہ اٹھانے والوں کے بجائے موقع پرست ذخیرہ اندوزوں اور قیاس آرائی کرنے والوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
مزید برآں خریداری کے عمل میں شفافیت اور درست پیداواری ڈیٹا کا استعمال سب سے اہم ہے۔ کسانوں کے ساتھ براہ راست گفت و شنید کرکے اور اضافی گندم کی مؤثر طریقے سے خریداری کرکے حکومت نجی اداروں پر زیادہ انحصار کو روک سکتی ہے اور عوام کے لیے غذائی تحفظ کو یقینی بنا سکتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پنجاب میں گندم کی خریداری کے موجودہ چیلنجز ایک کثیر جہتی نقطہ نظر کا مطالبہ کرتے ہیں، جس میں تاریخی بصیرت، فوری کارروائی اور طویل مدتی حکمت عملی شامل ہے۔ بروقت مداخلت، شفاف خریداری کے طریقوں کے ساتھ، نہ صرف کسانوں کے مفادات کا تحفظ کرے گی بلکہ ملک بھر میں غذائی تحفظ کو بھی تقویت دے گی۔ یہ حکومت پر فرض ہے کہ وہ اپنے زرعی اسٹیک ہولڈرز کی فلاح و بہبود کو ترجیح دے، اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک پائیدار اور لچکدار کاشتکاری کے ماحولیاتی نظام کو فروغ دے۔ امید ہے کہ حکومت گندم کے موجودہ مسئلے پر خود کو جھنجھوڑنے کی زحمت گوارا کرے گی۔
Title Image by Kai Pilger from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔