27 دسمبر برصغیر کے بین الاقوامی طور پر مسلمہ اب تک کے سب سے بڑے اردو شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کا یوم پیدائش ہے۔ وہ تاج محل کی نگری آگرہ (حاکم وقت کی اصطلاح میں’’ اگرون‘‘) میں پیدا ہوئے تھے لیکن بعد میں غریب پرور شہر دہلی میں آبسے تھے ( جو شاید جلد ہی اندرپرستھ بن جائے گا)۔ آج انکے نام سے دہلی میں غالب اکیڈمی، غالب انسٹی ٹیوٹ اور غالب فاؤنڈیشن قائم ہیں۔ پرانے فصیل بند شہر کے علاقہ بلیماران میں انکی حویلی کو بھی قومی وراثت کے طور پر محفوظ کر لیا گیا ہے پھر بھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ برصغیر کی ایک اور عظیم شخصیت ڈاکٹر سر محمداقبالؔ نے اپنی ایک نظم میںغالبؔ کو خراج تحسین کرتے ہوئے اپنے دور کے تعلّق سے کہا تھاکہ انکے سارے کلام میں اس ’’سوز زندگی‘‘ کی عکاسی ہے جو اس دور میں ہر طرف نظر آتاتھا ۔ اب تو اقبالؔ کا دور گزرے بھی ایک زمانہ بیت چکا لیکن وہ سوز زندگی جسکا غالبؔ کی دور بیں اور دور اندیش نظروں نے خوب خوب مشاہدہ کیا تھا آج ہمارے آپ کے دور میں بھی چاروں طرف اس طرح بکھرا پڑا ہے کہ عوامی زندگی کے ہر پہلو کی موجودہ کیفیت انکے کسی نہ کسی مشہور شعر کی تشریح لگتی ہے۔غالبؔ کا انکے اشعار میں آنے والے ہر لفظ کے ’’گنجینہ معنی کا طلسم‘‘ ہونے کا دعویٰ شاعرانہ تعلّی نہیں ایک حقیقت ہے جوانکی ’’فردوس تخیل‘‘ کی خوشہ چینی کرنے والوں کو دعوت فکر دیتی ہے۔ آئیے ہم بطور مشتے نمونہ از خروارے آپ کو اسکی کچھ جھلکیاں دکھاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسّر نہیں انساں ہونا
آج عالمی سطح پرحقوق انسانی کا ہرطرف ذکرخیر ضرور ہے، نہ انکا دم بھرنے والوں کی کہیں کمی ہے نہ قسمیں کھانے والوں کی ۔اقوام متحدہ کا 1948 میں جاری کردہ حقوق انسانی کاعالمی منشور بدستور رونق افروز ہے جسکی سالگرہ ہرسال اسی ماہ دسمبر کی ۱۰ تاریخ کو شان و شوکت سے منائی جاتی ہے۔ مغرب میں حقوق انسانی کے تحفظ کی ٹھیکیداری کے بلند و بانگ دعوے کئے جاتے ہیں مگر ارض فلسطین میں بدترین صہیونی بربریت سے نہ صر ف چشم پوشی بلکہ اسکی ہر طرح سے ہمت افزائی کی جاتی ہے۔ تیل کے ذخیروں پر قبضہ کرنے کیلئے کبھی ایک ملک کی دہشتناک بربادی کبھی دوسرے کو تباہ کرنے کی بہ بانگ دہل دھمکیاں ۔ کہیں مذہب کے نام پر قتل و غارت کے خوفناک مناظر ہیں تو کہیں مسلک کے نام لوگ آپس ہی میں دست بہ گریباں ہیں ۔ اپنے وطن عزیز پر نظر ڈالیں تو آج ایک سو تیس کروڑ کی آبادی والے اس ملک کے طول و عرض میں بسنے والے آدمیوںکے جمّ غفیر میں سے کتنوں کو انسان ہونا میسّرہے ؟ دستور ہند کے تحت شہریوں کے بنیادی حقوق و فرائض کا باب بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے اورقومی و ریاستی حقوق انسانی کمیشن بھی مصروف عمل ہیں، لیکن روزانہ اخباروں کی سرخیاںاو ر ٹی وی کی نشریات کچھ اور ہی کہانی سناتی ہیں۔ کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہونچانا حقوق انسانی کی بدترین خلاف ورزی بھی ہے اور بھارتی قانون میں سنگین جرم بھی، پھر بھی ہمارے یہاں آشرموں میں سادھو سنت پوری انسانی دنیا کے دوسرے سب سے بڑے مذہب کی سب سے محترم شخصیت پر بے تکلف کیچڑ اچھالتے نظر آتے ہیں اور حقوق انسانی کے محافظ اور قانون کے رکھوالے دم نہ کشیدم کی کیفیت میں بیٹھے ملتے ہیں کیونکہ انکا فرض منصبی تو بس حالات پر نظر بنائے رکھنا ہی ہے نا۔کہیں کسی عیدگاہ پر دن دہاڑے قبضے کی تیاریاں ہوتی ہیں تو کہیں سرکاری طور پر منظور شدہ کھلے میدان میں چند منٹوں کی ہفتہ وار عبادت پر طوفان بے تمیزی ہوتا نظر آتا ہے۔ کہیں محافظین گا ؤ کے غیض و غضب کا شکار ہوئے بے قصوروں کے اہل خانہ آہ و بکا کرتے دکھائی دیتے ہیں تو کہیں ’’چہرہ فروغ مے سے گلستاں کئے ہوئے‘‘ موٹرگاڑیاںچلا تے سڑکوں پرخون کی ندیاں بہاتے امرائے کرام کے صاحبزدگان۔ کبھی جاڑوں کی سردراتوںمیںفٹ پاتھوں پرٹھٹھرتے ہوئے بے سہارا لوگ دکھائی دیتے ہیں تو کبھی گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں چوراہوں پر کاسہ گدائی لئے ہاتھ پھیلاتے بچے۔ کیا اسی سب کو آدمی کو انسان ہونا میسّرہونے کی شہادت مانا جائے گا؟
۔۔۔۔۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
غالبؔ کے اس معنی خیز شعرکی تعبیر کے نمونوں کی کیا آج معاشرے میں کوئی کمی ہے؟ حکومت کا کوئی وزیر با تدبیر ہویا عدات کا کوئی منصف اعلیٰ، کسی بڑی سے بڑی سرکاری کمیٹی کا محترم سربراہ ہو یا معزز رکن، ان قدآوران ملک و ملّت کی امیر سے امیرتر ہوجانے کی خواہش پوری ہو بھی جائے تو اس سے کیا ہوتا ہے، ارمان پھر بھی کم نکلنے کا احساس تو انھیں رہتا ہی ہے اور مزید ہری بھری چراگاہوں پر نظر بھی رہتی ہے۔ نتیجتاً بدترین بدعنوانیوں کی کہیں کوئی کمی نظر نہیں آتی ہے، نہ وزارتوں میں نہ عدالتوں میںنہ بین الاقوامی کھیلوں کی انعقاد کمیٹیوں میں، نہ دیگر سرکاری تنظیموں میں اور نہ بڑے بڑے سرکاری و نیم سرکاری تجارتی اداروں میں ۔ سرکاری عہدوں کے مشاہرے آج اگر آسمان سے
باتیں کر بھی رہے ہیں تو کیا، اس سے ان معزز عہدے داران کے سارے ارمان تھوڑی پورے ہوجائیں گے۔ تو پھر ان حالات میں عوام کی خون پسینے کی کمائی پر لگائے جانے والے سرکاری ٹیکسوں سے حاصل دولت میں سے حسب توفیق حصہ نکال کر اپنے بچے کھچے ارمان پورے کرنے کے علاوہ ان بچاروںکے پاس اور چارہ بھی کیا ہے۔
۔۔۔۔۔
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
غالبؔ کا یہ شعر پڑھ کے تو ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے ملک میں آئندہ آنے والے نظام حکومت کے تحت بنائی جانے والی مجالس قانون ساز کے انداز کاروائی کو یقیناً ًخواب میں دیکھا تھا۔ افسوسناک حقیقت یہی ہے کہ شہریوں کیلئے قوانین وضع کرنے کی اہم دستوری ذمّہ داری کی تکمیل کی خاطر بنائے گئے سرکاری اداروں کو بچّوں کا کھیل بنا دیا گیا ہے اور ان میں اکثر و بیشتر ہر طرح کے تماشے ہی ہوتے رہتے ہیں ۔ اپنی بال ہٹ منوانے کیلئے ہفتوں تک ان اداروں کی کاروائی نہ چلنے دینا، کانوں کے پردے پھاڑدینے والا شور شرابہ۔ برسر اقتدار پارٹی کی طرف سے حزب مخالف کو درکنار کرکے انکی ہربات پر ہنگامہ آرائی، بے نظیر لیاقت و شرافت اور بے مثال دیانتداری کے حامل سابق سربراہان حکومت پرہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے ذاتی حملے۔ کیا کیا تماشے نہیں ہوتے ان اہم اداروں میںجنھیں اب تو ساری دنیا ٹی وی پر دیکھتی ہے اور شائد غالبؔ خود بھی عدم آباد سے انکا مشاہدہ کرکے اپنی بھوشیہ وانی کے حرف بہ حرف صحیح نکلنے پر خوش ہوتے ہوں گے۔ غنیمت ہے کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں ورنہ یہ کیفیت بہ چشم خود دیکھ کر اگر انھوں نے اس پر اب یہ شعری تبصرہ کیا ہوتا تو پارلیمانی مراعات شکنی کے الزام میں دھر لئے جاتے۔
۔۔۔۔۔
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک راہ رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
فنّ سیاست کے بارے میں یوں تو نہ جانے کس کس نے کیا کیا کہا ہے لیکن اس میدان میں فی زمانہ جودائوں پیچ چلے جاتے ہیں انھیں کو بھانپ کر حضرت غالبؔ نے شاید یہ شعر کہا تھا۔ ایک مغربی مفکر نے سیاست کو ’’ بدمعاشوں کا کھیل‘‘ قرار دیا تھا تو یہاں ہندوستان میں مرحوم حکیم عبد الحمید صاحب نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ ’’آجکل سیاست ایسی شیطنت کی مظہر ہوتی جارہی ہے کہ اچھا ہوا میں اس گندگی میں نہیں پڑا‘‘۔ بہرحال اہل سیاست کے دیگر کمالات کو چھوڑئیے ہم تو صرف انکی’ کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر کبھی غنچہ و گل خار پر‘ کی ادا کی بات کر رہے ہیں۔ آج کی صاحب اقتدار جماعت کو برسوں تک کوسنے اور اسکی پالیسیوں پر گرجنے برسنے والے اصحاب اپنی پارٹی کی نیّا ڈوبتی دیکھ اسی کی آغوش شفقت میں پناہ لے کراب اسکی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔ مستقبل سے پر امید کسی دیگر بڑی پارٹی نے گھاس نہیں ڈالی تو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا لی جائے گی۔ دل بدلی مخالف قانون بن تو گیا تھا برسوں پہلے مگر پیشہ ور ان شاطران سیاست کو گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے سے کبھی روک نہیںسکا۔ اور اب تو یہ ’’ دل بدلی‘‘ جانے کیسے کیسے بھیس بدل رہی ہے ۔کہیں ملّت کی قیادت کے دعوے دار غالبؔ کے الفاظ ’’آزاد رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلح کل‘‘ کا کلمہ پڑھتے ہوئے ملّت سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والوں سے خفیہ ملاقاتیں کر ر ہے ہیں، توکہیں کوئی صاحب ایمان غالبؔ ہی کے اس صائب مشورے پر بڑی عقیدت سے عمل کررہا ہے کہ ’’زنّار باندھ سبحۂ صد دانہ توڑ ڈال، رہرو چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر‘‘۔
قارئین کرام ! ہم نے یہاں صرف چند مثالیں ہی پیش کی ہیں ورنہ غالب ؔکا معجزانہ کلام تو نہ جانے کتنے ایسے معنی خیز اشعار سے لبالب بھرا ہوا جنکی صداقت آج چہار سو بکھری نظرآتی ہے۔ حالات حاضرہ پر صد ق دل سے دبی زبان تبصرہ کروا لے بھی آج خود کو جتنا غیرمحفوظ محسوس کرتے ہیں اس کے پیش نظر ہم غالب ؔہی کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتے ہیں کہ:
نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانئے
بے صدا ہو جائے گا یہ ساز ہستی ایک دن
۔۔۔۔
پروفیسر سیّد طاہر محمود
سابق چیئرمین قومی اقلیتی کمیشن حکومت ہند
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔