چڑیا ، جگنو ، تتلی سارے مرتے جاتے ہیں
اک اک کر کے میرے پیارے مرتے جاتے ہیں
بوڑھی مائیں دیکھ دیکھ کے جن کو جیتی تھیں
کیسے کیسے راج دُلارے مرتے جاتے ہیں
کس کس لاشے پر میں روؤں پیٹوں کس کس کو
پھولوں جیسے لال ہمارے مرتے جاتے ہیں
موت نہ ہو کیوں رقص کناں میرے شہروں میں
جتنے بھی تھے آس سہارے مرتے جاتے ہیں
روشنی کا وہ قحط پڑا ہے دیس میں چاروں سمت
تیرگیوں کے خوف سے تارے مرتے جاتے ہیں
میرے سب رانجھوں کو اپنی خیر میں مولا رکھ
اک اک کر کے تخت ہزارے مرتے جاتے ہیں
اپنے خدا سے مانگ اسد، لَو بہار ِ صبحِ نو کی
زرد رتوں میں حُسن نظارے مرتے جاتے ہیں
کلام: عمران اسؔد
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔