مصنف ساز پارس

مصنف ساز پارس

Dubai Naama

یہ اظہاریہ آئی اٹک کے چار سالہ پروگرام کی نذرہے۔ میں از راہ تفنن کہوں تو اس آن لائن میگزین کے بانی آغا جہانگیر بخاری کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن نوآموز لکھاریوں کو انہوں نے متعارف کروایا، آج وہ ان کی پہچان بن چکے ہیں۔ چار سال پہلے جب آغا صاحب نے آئی اٹک کو لانچ کیا تو معروف لکھنے والوں توصیف نقوی، مقبول ذکی، شجاع اختر اعوان، حبدار قائم، چوہدری زاہد شکور اور فیصل جنجوعہ وغیرہ کو تو شائد بہت سے قارئین جانتے ہونگے مگر تب تک احقر کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ ان پتھروں کو ڈھونڈ  ڈھونڈ کر آغا صاحب ہی نے تراش کر نگینوں میں بدلا۔ آئی اٹک کے پلیٹ فارم پر آنے سے پہلے سوشل میڈیا پر میری ملاقات تلہ گنگ کے محمد فاروق احمد سے ہوئی۔ انہوں نے میری فیس بک کی مختصر تحریروں کو دیکھتے ہوئے مشورہ دیا کہ میں آغا صاحب کو اپنی تحریریں بھیجنا شروع کروں۔ اس سے قبل میں درجن بھر روزنامہ اخباروں کو اپنے کالم بھیجتا رہا مگر میری شنوائی کسی جگہ نہیں ہوئی۔ آغا صاحب جگ جگ جئیں، انہوں نے ڈیڑھ سال پہلے میرے چند کالم منگوائے، پھر وہ دن اور آج کا دن قارئین ان کے آن لائن اخبار "آئی اٹک” پر مجھے مسلسل پڑھ رہے ہیں۔ 

آغا بخاری صاحب، ایک مصنف شناس ہستی ہیں اور بطور ایڈیٹر انہیں لفظوں میں جھانکنے کا فن آتا ہے جس کے زریعے وہ جان لیتے ہیں کہ کوئی لکھنے والا آگے چل کر کتنا اچھا لکھے گا۔ لھذا اپنی اس صلاحیت کا زیادہ فیض وہ اپنے لکھنے والوں کو پالش کرنے پر صرف کرتے ہیں۔ میں جب انہیں کوئی ادھوری یا قابل تصحیح تحریر بھیجتا ہوں تو وہ اس کی نہ صرف تصحیح کر دیتے ہیں بلکہ آئندہ کے لیئے وہ اس مد میں میری رہنمائی بھی فرماتے ہیں۔ اس عرصے کے دوران میرے لکھنے میں کافی بہتری آئی۔ جب بھی میں کوئی غلطی کرتا تو آغا صاحب اس کی نشاندہی کر دیتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے رسالے میں لکھنے کے بعد مجھے پرنٹ میڈیا کے دیگر بڑے روزناموں میں لکھنے کا موقع مل گیا۔

Jahangir Bukhari

مصنف ساز پارس
آغا جہانگیر بخاری

حضرت علی علیہ السلام  کا ایک قول ہے کہ ایک دفعہ ایک صحابی نے آپؑ سے سوال پوچھا کہ استاد اور والدین کے مقام اور رتبہ میں کیا فرق ہے تو آپؑ نے فرمایا کہ، "والدین انسان کو آسمان سے زمین پر لاتے ہیں اور استاد علم کی طاقت دے کر اسے زمین سے آسمان کی بلندیوں تک پہنچاتے ہیں۔ ناچیز آغا صاحب کو علمی رسائی اور کالم نگاری دونوں میں استاد مانتا ہے۔ آئی اٹک میں میرے کالم "دبئی نامہ” کے عنوان سے چھپتے ہیں جبکہ دوسرے بڑے اخبارات میں "زیر آسماں” کے ہیڈنگ سے شائع ہوتے ہیں۔ آج اگر میں اچھا کالم نویس ہوں یا میرے علم و ہنر میں کچھ اضافہ ہوا ہے اور میں کسی گنتی میں آتا ہوں تو اس اعزاز کا سہرا آغا جی کے سر پر ہے۔

محترم المقام آغا جہانگیر بخاری صاحب کے بارے میرا عقیدہ ہے کہ میں ان سے جتنی سرعت کے ساتھ سیکھتا ہوں، میرا ان سے عالم بالا کا کوئی روحانی بندھن ہے۔ بعض دفعہ کسی اجنبی سے ملو تو لگتا ہے کہ پہلے اسے کہیں دیکھا ہے۔ تمام روحیں عالم ارواح میں اکٹھی رہتی رہی ہیں۔ عزت مآب آغا بخاری صاحب سے ابھی میری بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی مگر ان کو ملے بغیر ہی ان سے برسوں کی جان پہچان ہو گئی ہے۔ اول ان سے انسانیت اور روح کا مقدس تعلق ہے جو دنیا کا خالص اور مضبوط ترین رشتہ ہے۔ یہ قربت وقت گزرنے کے ساتھ دوستی میں بدل گئی ہے۔ چونکہ دور افتادہ دوستی عموما لالچ اور غرض سے پاک ہوتی یے جس میں جتنا وقت گزرتا ہے اس میں اتنا ہی زیادہ استحکام آتا ہے۔ گو ان سے کبھی روبرو ملاقات نہیں ہوئی مگر ان کی تحریریں پڑھ کر، ان کے لب و لہجے اور آواز کو سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ میرے دل اور روح کے بہت قریب ہیں۔ یہ آغا بخاری صاحب کا بڑا پن ہے کہ وہ میری کچھ تحریروں کو اپنی آواز میں بھی پڑھتے رہتے ہیں۔ ان کی آواز میں اتنی اپنائیت ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ لفظوں کو خلوص اور مٹھاس میں ڈبو ڈبو کر پڑھ رہے ہیں۔ ان کے لہجے اور ادائیگی سے احساس ٹپکتا ہے اور احساس کو محسوس تو کیا جا سکتا ہے مگر لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔

ایک بڑا مصنف کسی ہمعصر لکھاری کے بارے کچھ لکھنا چاہتا تھا مگر اسے مناسب الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ وہ اسی سوچ میں صبح سویرے باغ کی سیر کو نکلا جہاں اس نے دیکھا کہ ایک بچہ سورج کی طرف منہ کر کے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو مٹھی بنا کر بار بار کھول رہا تھا۔ مصنف نے اس بچے سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو تو اس نے جواب دیا کہ وہ سورج کی کرنوں کو مٹھی میں بند کر رہا یے۔ بچے کا یہ جواب سن کر اس مصنف نے اپنے ممدوح کے بارے یہ الفاظ لکھے کہ، "میرے محبوب لکھاری کے فن کو لفظوں میں بیان کرنا اسی طرح ناممکن ہے جس طرح سورج کی کرنوں کو مٹھی میں بند کرنا ممکن نہیں ہے۔

آغا جہانگیر بخاری، "پارس” نامی علامتی پتھر کی مانند ہیں جس کے بارے مشہور ہے کہ پارس اگر خاک کو بھی چھوئے تو وہ سونا بن جاتی یے۔ آغا بخاری صاحب کسی عام سے عام لکھنے والے کو بھی اعلی پائے کا مصنف  بنانے کا گر جانتے ہیں۔ میں کوئی خاص یا بڑا کالم نگار نہیں ہوں مگر مجھے یہ معلوم ہے کہ مجھ خاک کو انہوں نے چھو کر لکھنے کے قابل بنایا ہے۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

سبھی عنوان میرے - ڈاکٹر شجاع اختر اعوان کی تصنیف

پیر اکتوبر 14 , 2024
ڈاکٹر شجاع اختر اعوان جیسے دیرینہ دوست شامل ہیں جن سے میرا تعلق گزشتہ دو عشروں پر مشتمل ھے ڈاکٹر صاحب کا شمار ملک کے ممتاز کالم نگاروں میں ہوتا
سبھی عنوان میرے – ڈاکٹر شجاع اختر اعوان کی تصنیف

مزید دلچسپ تحریریں