سلطان محمودبسمل کی شاعری انسانی اعتقاد سے تعلق رکھتی ہے۔ انھوں نے ایک انسان اور ایک فنکارکی حیثیت سے روحانی عناصر اور زندگی کے سیال مدارج طے کیے ہیں،چنانچہ اُن کی شاعری کاتناظر ایک مثالی تصور ہے جسے عام قاری بھی آسانی سے اپنی ذہنی گرفت میں لے سکتا ہے۔ بنیادی طورپر سلطان محمودبسمل ’’انا‘‘ اور عالمِ مثال کاوسیع دائرہ رکھتے ہیں جس میں بہت سے چھوٹے چھوٹے دائرے وسیع حلقہ کیے ہوئے ہیں۔ ان کے پس منظر میں ایک منفردپیکراپنے قول وافکار پر قائم مضطرب شخصیت دکھائی دیتاہے۔ یہ مضطرب شخصیت خودسلطان محمودبسمل کی ہے جس نے فطری ہیجان کی روشنی میں، کبھی اشاروں، کبھی کنایوں میں وہ باتیں کہی ہیں جنھیں محض خیال پرست شاعر زبان پرلانے سے ہچکچاتے ہیں۔ اس اعتبارسے سلطان محمودبسمل کسی تحریک سے الگ، کسی فکری تناظر سے مختلف اپنے افکار کوذہنی سچائی کے تحت بیان کرنے اوراُس پر قائم رہنے کی قوت رکھتے ہیں۔ یہی سچائی انھیں اپنے عہدکے بہت سے شعرا سے ممتازکرتی ہے۔
جب کوئی انسان احساسِ ذمہ داری کے ساتھ زندگی بسرکرتا ہے تواس کے ذہن میں ایک آدرش بھی جنم لیتا ہے۔ یہ آدرش بعض اوقات مشترک تصورات اور عصری مماثلتوں کی بناپر پیداہوتا ہے مگرجب کسی ذمہ دار ذہن کے بطون میں ایک واضح نقطہ نظر پیدا ہوجائے تووہ زندگی بھراسی پرقائم رہتا ہے اوراسی کی سمت اپنافکری سفر کرتاہے۔ چنانچہ سلطان محمودبسمل نے بھی سچائی کی وضاحت کے لیے ایک اندازِ نظر کوقبول کیاہے اور وہ ہے سماج کے عناصرکی سچائی کی جھلک دکھانا اور سچے جذبات کی ترجمانی کرنا۔ سلطان محمودبسمل اس لحاظ سے محبت، وقار اور صداقت کاہم نوا ہے اور یہ ہمنوائی انھیں اُن عصری تحریکات کے بہت قریب لے جاتی ہے کہ جن کامطمع نظر فرد کی انا کاتحفظ اور انسانیت کی بقا کی ضمانت دیتاہے۔
ہماراموجودہ عصری زمانہ شدتِ احساس کورہنمابناکرزندگی کاسفرطے کررہا ہے لیکن منزل تک اُن کی رسائی اس لیے معدوم رہتی ہے کہ عصرِ جدید نے اپنی عنان اپنے ہاتھوں میں نہیں رکھی بلکہ دوسروں کے ہاتھ میں دے رکھی ہے۔ لہٰذافرد کی بجائے جماعت اور جماعت کی بجائے ایک مخصوص گروہ ایک سانچے میں ڈھل کرعصرِجدید کی ترجمانی کرتارہا ہے۔ میں نہیں کہہ سکتاکہ سلطان محمودبسمل نے شعرکہتے وقت یہ بات شعوری طورپر اپنے ذہن میں بسارکھی تھی کہ انھوںنے فرد کی انفرادیت کے پیشِ نظر نہ صرف نظریات کاطلسم توڑنے کی کوشش کی ہے بلکہ اپنے عہد کی اس ذہنیت کو بھی نشانہ بنایا ہے جس نے صداقتوں کامنہ چڑایا اورجھوٹ کوروارکھ کر بے اطمینانی اور غیرآسودگی کوپروان چڑھایا ہے۔ سلطان محمودبسمل نے اس ذہنیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہیں کی اورنہ ہی حقارت کی نظرڈال کراُس سے نفرت کی ہے بلکہ زندگی کے وسیع تجربے کی روشنی میں ایسے ذہنوں کومدبرانہ پیغام دیا ہے کہ کسی آدرش کے بغیر زندہ رہنازندگی کے ساتھ فریب کرنا ہے چنانچہ یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ سلطان محمودبسمل کیوں شعوری طورپر ایسارویہ اوراسلوب اختیارکرتے ہیں۔
سلطان محمودبسمل زندگی کے تناظر میں اورایک طویل عمربسر کرنے اورادب کی تحریکات کو پرکھنے کے بعداس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بیمارداخلیت اور اندھی مقصدیت انسانیت کی کوئی خدمت نہیں کرسکتی۔ آج انسان کاشعوری میلان ابہام اور سستی رومانیت کے خلاف کھُل کراظہار کی قوت ہے لیکن ہمارے بیشترشاعر، شاعری کوگورکھ دھندااور معمہ بنانے پرتلے ہوئے ہیں لہٰذاشعرمیں سچائی کاعنصر غائب ہوتاجارہاہے اور ایک عجیب قسم کامصنوعی پن شعر کے داخلی اور خارجی پیکر کومتاثرکرتا ہوادکھائی دیتاہے۔
سلطان محمودبسمل کی شاعری، عصرِ جدید کے مصنوعی پن کے خلاف سیدھی سادی انسانی معروضیت اور سچے جذبات کی شاعری ہے جس میں احساسِ نوعیت کے اعتبارسے اورفکر انفرادی تجربے کی روشنی میں شاعری کے موجودہ رویے سے بہت حدتک مختلف ہے بلکہ یہ کہاجائے تو بے جانہ ہوگاکہ سلطان محمودبسمل نے حقائق سے بے نیاز ہوکرشعرنہیں کہے اور اپنے عہدکی سیاسی اورسماجی تحریکات کوبڑی خاموشی سے دیکھااور اُن کاجائزہ لیاہے۔ چنانچہ ان کی شاعری کوسماجی عناصر سے الگ کرکے نہیں دیکھاجاسکتااورتجرباتی اعتبار سے یہ کہنا بالکل موزوں ہے کہ بسمل کی شاعری بیدارذہن اور تنومندجذبے کی شاعری ہے۔
سلطان محمودبسمل کے بہت سے اشعار فردوسِ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ نئے سائنسی تصورات کے برعکس خالص انسانی معاشرے اورذہنی رشتے سے وابستہ ہیں۔ انسانی معاشرہ خوف، عدم تحفظ میں مبتلا اور مستقبل سے مایوس دکھائی دیتاہے لہٰذا بے چینی، بے چہرگی اور زندگی سے اکتاہٹ ایک بغاوت کی شکل اختیار کررہی ہے جبکہ محبت، صداقت اور آدرش کے حصول کے لیے بے شمار رکاوٹیں اورناکامیاں موجود ہیں لیکن ان رکاوٹوں کی نشاندہی اورناکامیوں کاتجزیہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کاذہن اخلاقیات اور سماجی آسودگی کے تصورسے آشنا ہو۔ اس صورتِ حال سے سلطان محمودبسمل بخوبی واقف ہیں۔ اس لیے انھوں نے شاعری میں نہ تو بغاوت کامژدہ سنایاہے اورنہ ہی سستی رومانیت کاپیغام دیا ہے بلکہ انھوںنے زندگی کے موجودہ رویے پرتبصرہ کرتے ہوئے قلندرانہ اورمردانہ لہجے میں بات کی ہے ۔میرے نزدیک اُن کی شاعری کایہ واصف انھیں زندگی، انسان اورکائنات کے وسیع دامن میں لے جاتاہے۔ جہاں صداقت کی صداصاف سنائی دے رہی ہے:
کوئی تو ہو جسے سچ بولنے کایارا ہو
کہ اب تو جھوٹ کے پرچم اُٹھائے جاتے ہیں
ایسا کانٹا چبھا ہے پاؤں میں
چلنا مشکل ہوا ہے گاؤں میں
کوئی آندھی پھر آنے والی ہے
شور کتنا ہے پھر ہواؤں میں
مال کیا کیا بٹا غنیمت کا
اونچی اونچی محل سراؤں میں
پہلے دھرتی کے روگ ختم کرو
پھر بسیرا کرو خلاؤں میں
سرِبازار جو بے ساختہ حق بات کہتے ہیں
فقیہہ حیلہ جو سے ایسے دیوانے ہی اچھے ہیں
یہ عادی ہوگئی ہیں آدمی کا خون پینے کی
اب ان آباد سڑکوں سے تو ویرانے ہی اچھے ہیں
تاک میں صیاد بیٹھا ہے نشانہ باندھ کر
اہلِ گلشن سوئے دیوار گلستاں دیکھنا
آندھیوں کی زد میں ہے پھر یہ چمن
کچھ تمھیں اس کی خبر ہے دوستو!
بڑھی جاتی ہے پھر تاریکیِ شب
کوئی جگنو نظر آتا نہیں ہے
کسی گھڑے کا نشاں ہے نہ کوئی سوہنی ہے
ہر ایک سمت یہاں پانیوں کا ڈیرہ ہے
سچ بولنے کایارا،گاؤں میں چلنے کی دشواری،کسی آندھی کی خبر، مال غنیمت کااونچے محل سراؤں میںتقسیم ہونا، دھرتی کے لوگ فقیہہ حیلہ جوپرطنز، آبادسڑکوں کے عفریت، چمن سے بے نیازی، روشنی کی تلاش اور بنے بنائے راستوں سے ہٹ کر چلنے کی خواہش، یہ سب خیالات خلوص اور سچائی سے عبارت ہیں۔ ان میں گہراکرب اور زندگی کا دکھ موجود ہے ،میرے نزدیک سماجی شعوراور زندگی کاایک واضح تصور ان اشعارسے مترشح ہوتاہے جسے آسانی سے نظرانداز نہیں کیاجاسکتاکیونکہ یہ سچے جذبات سلطان محمودبسمل کے انفرادی آدرش سے تعلق رکھتے ہیں لیکن یہ اُن کے معاشرے کے اجتماعی تصورات کاعکس بھی ہیں۔ لہٰذاسلطان محمودبسمل سچائی کاعلم اٹھاکرزندگی کے کارزار میںشریک ہونا چاہتے ہیں۔ یہ اُن کی سچی آرزو ہے اورگرمی اور صداقت کی نموبھی۔
سلطان محمودبسمل کی شاعری گہرے سماجی شعور کی بناپرتاریخ کاایک بنیادی عنصر بھی بنتاہے۔ وہ کبھی سماج کے غیرذمہ دارانہ رویے اورذاتی تصورکی بنیاد پرزندگی کی الجھنوں اور مسرتوں کی بات بھی کرتے ہیں،چنانچہ پختہ شعور کے تحت ان کازمینی رشتہ بھی پائیدار اور اہم دکھائی دیتاہے مثلاً یہ اشعارگھر کی علامت کے تناظر میں پاکستان کاوسیع دائرہ بناتے ہیں:
دست و بازو ہیں مرے، بچے مرے
اپنی بے پایاں مجھے طاقت لگے
ڈھلا جو بخت کا سورج تو یہ ہوا معلوم
وفا شعار تھے اس کے تمام ہرجائی
خلاؤں میں وہ پھٹ جائیں گے آخر
غبارے تم نے جو چھوڑے ہوئے ہیں
مقتل سجائے جاتے ہیں عشاق کے لیے
مصلوب ہو رہی ہیں ابھی تک محبتیں
میرے دکھیا دل کے اندر جھانکو تواک بار کبھی
بھید کھلیں گے تم پرکیا کیا ماضی کے اس مدفن میں
جنھیں اپنے اثاثوں کی پڑی ہے
انھیں کہہ دو قضا سر پر کھڑی ہے
غم کے زمانے بیت گئے ہیں خوشیوں کی رُت آئی ہے
روز اخباروں میں ایسی تقریریں پڑھتارہتا ہوں
ان اشعار میں’’گھر‘‘ کے واقعات میںحقیقت نگاری کے ساتھ ایک شدید کرب موجود ہے اورذمہ دارانہ طرزِ احساس ،بلکہ پاکستانیت کی کائنات بھی کہ جس میں سلطان محمودبسمل وسیع تجربوں کے ساتھ زندہ ہیں۔
سلطان محمودبسمل کاوالہانہ بیان صداقت اظہار سے ہم آہنگ ہے۔ اس اظہار سے انھیں مسرت ملتی ہے۔ انھوں نے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت میں موضوع، حسن اور اظہار کوفن کی آماجگاہ بنایا ہے۔ یہ فنی حیثیت بھی بعض علاقاں سے صورت پذیر ہوتی ہے چنانچہ ان کی تمام شاعری میں ذمہ دارانہ کیفیت موجود ہے جسے اہلِ دل اور اہلِ نظر خصوصی طور پرمحسوس کریں گے بلکہ وہ لوگ بھی جنھیں رومان پرستی اورموضوع کی سیاسی اور سماجی حالت بہت عزیز ہے۔
ہماری شاعری کاموجودہ عہدبہت سے تجربات کاوارث ہے مگرایک نامحسوس انقلاب بھی دکھائی دے رہا ہے اور یہی ہمارے ذہنی اورشعوری سوالات کامثبت جواب بھی ہے،چنانچہ زندگی کے حقیقی تقاضے اور انفرادیت کااجتماعی پہلوانسانی تصور پرستی کے لیے اُکسارہا ہے۔ سلطان محمودبسمل نے اس عنصرکوفنی اعتبارسے کرب کی صورت دی جو شعری پیکرمیں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ہمارے بعض شعراء نے غم، موت اور دکھ کواس طرح پیش کیاہے کہ پوری شاعری کی کیفیت ’’مرثیے‘‘ کی سن بن گئی ہے مگر سلطان محمودبسمل نے اظہار، رنگ اور اسلوب میں ایک عجیب ساٹھہراؤ پیداکرکے اُردوغزل کوایک نئے ذائقے سے آشناکیا ہے۔ اس بات کی گواہی درج ذیل اشعارکے مطالعے سے بخوبی ہوجاتی ہے:
بکنے لگا ہے پھر کوئی یوسف ستم زدہ
سجنے لگا ہے مصر کا بازار دیکھنا
جینا شبِ تاریک میںآساں تو نہیں ہے
کچھ اس کا مداوا دلِ بیمار کرے گا
اظہارِ حقیقت نہ ہوا آپ سے واعظ
یہ کام تو ہم سا کوئی مے خوار کرے گا
دیکھو تو ہے ایک پھول دنیا
سمجھو تو کھٹکتا خار بھی ہے
معصوم شگوفوں کا لہو چھپ نہیں سکتا
کیوں ہاتھوں کو اب رنگِ حنا دینے لگے ہو
سفینے ڈوب جاتے ہیں کبھی ساحل تلک آکر
کبھی بپھری ہوئی موجوں سے بھی ساحل اُبھرتا ہے
ان اشعارکے ساتھ ایک غزل ایسی بھی ہے جس کی فنی ابتدا باقی صدیقی نے کی تھی لیکن سلطان محمودبسمل نے چھوٹی سے چھوٹی بحرکاتجربہ کچھ اس طرح کیا ہے کہ ان کی پوری غزل میں باقی کے رنگ اور اسلوب کی پرچھائیں موجود نہیں بلکہ یہ کہہ کرانھوںنے ایک اعتراف بھی کیاہے:
بیتے ہوئے دن کتنے رنگیں
جرمِ محبت کتنا سنگیں
ادبی روایت کی پیروی میں ایک خلاق ذہن اپنی راہیں خودتراش سکتاہے اور نئی روایات کوجنم دے سکتا ہے۔ سلطان محمودبسمل کی شاعری کی بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوںنے چھوٹی چھوٹی خوشیوں اوربڑے بڑے دکھوں کوگفتگو کے انداز میں بیان کیا ہے۔ اس سے ان کی وسعتِ نظر اور شعورکی گہرائی کااندازہ ہوتاہے بلکہ غیرجذباتی طورپروطن کے بارے میں سوچنے اور دکھوں سے رہائی حاصل کرنے کاپتہ بھی چلتاہے۔ اُردو شاعری میں یہ انداز شخصی سطح پر بہت سے شعراکے ہاں موجود ہے لیکن علامتوں کی عمومیت اورغیر مبہم گفتگو کااندازسلطان محمودبسمل کی اپنی فکری صلاحیت ہے۔
سلطان محمودبسمل کی شاعری تصورات کی آئینہ داری اورحساس ذہن کی نمائندگی کرتی ہے۔ انھوںنے حقیقی سماجی شعور کوحسن کاری کاپیکربخش دیا ہے اوریہ عنصر ان کی شاعری کاتوانااورجاندارپہلوہے۔ اسی سے شعریت اور فکرکاامتزاج پیداہوتا ہے بلکہ انسان اورکائنات سے محبت کے رجحان کو فروغ ملتاہے۔ سلطان محمودبسمل اس اعتبارسے اپنے زمانے کے رجحانات کے شاعر ہیں اور جب رجحانMYTH کی طرف سفر کاآغاز کردے اور شاعری ادبی قدروقیمت کی آواز بن جائے تواہلِ نظر اسی سے سماجی تاریخ اور تخلیقی آگہی کااندازہ لگاسکتے ہیں۔
مآخذ:
ساغر سم
تحریر : رشیدنثار
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔