مدحِ شاہِ زمن پر ایک نظر
تبصرہ نگار:۔ داود تابش
قادر مطلق کی تقسیم کا ہر ذی شعور اور بخت ور معترف ہے خالق ارض و سما نے انسان کی رشد و ہدایت کے لیے انبیا و رسل کا انتخاب فرمایا اپنے محبوب پیمبر کو جملہ انبیا کی امامت کے لیے منتخب فرمایا پھر اپنے حبیب کی تعریف و توصیف کا قلمدان جناب ابو طالب کو سونپا اور یہ سلسلہ چلتے چلتے جناب حسان تک پہنچا مجھے جب سید حبدار قاٸم کا نعتیہ مجموعہ مدحِ شاہِ زمن پڑھنے کی سعادت حاصل ہوٸ تو یہ احساس مزید تقویت پکڑ گیا کہ خالق نے اپنے محبوب کی تعریف و توصیف کے انتخاب کا دروازہ حضرت حسان تک بند نہیں فرمایا بلکہ یہ قیامت تک کے لیے کھلا ہوا ہے سید حبدار قاٸم بھی وہ بخت ور نعت گو ہیں جن کا انتخاب بھی مشیت ایزدی سے روز اٶل سے ہوا
سید حبدار قاٸم کے اشعار میں جو مودت برجستگی تازہ کاری تلمیحات شعر کی بنت تراکیب و خیالات و بحور کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملا وہ بہت کم شعرا کے ہاں دیکھنے کو ملتا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سید حبدار قاٸم نے نعت کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے یہ کمال شب و روز کی محنت شاقہ کے بعد نصیب ہوتا ہے مدح شاہ زمن کا مطالعہ کرنے کے بعد محسوس ہوا کہ شاہ صاحب پر محمد و آل محمد کا کتنا کرم اور عطا ہے
نمونے کے طور پر یہ اشعار دیکھیں
مہک مدینے کی لاۓ بہار اب کے برس
تو میرے دل کو بھی آۓ قرار اب کے برس
دل میں نہیں ہے جس کے مدینے کی آرزو
مدحت وہ لکھ نہ پاۓ گا قاٸم گداز سے
لحد میں کاش مجھ سے شاہ دوعالم یہ فرماٸیں
سنا دے نعت مجھ کو اے مرے حبدار بسم اللہ
جب قلم کو میں اٹھاتا ہوں براۓ مدحت
لفظ الہام کے دیوان میں آ جاتے ہیں
جب ارادہ ہو غزل کا تو رقم ہو مدحت
ایسا سرکار کی مدحت کا ہنر مانگتے ہیں
مجھ کو سخن وری کا سلیقہ بھی ہو عطا
کر لوں میں اپنے درد کا اظہار یا نبی
طوالت کا خوف آڑے رہا ہے ورنہ بیسوں اشعار ایسے ہیں جنھیں یہاں رقم کیا جا سکتا تھا آخر میں اتنا کہوں گا کہ
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔