بزم فگار پر اک نظر
مبصر: اشوک کمار خاموش،تھرپارکر
بہ قول فیض احمد فیض:
چشمِ نم جانِ شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشقِ پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پا بہ جولاں چلو
دست افشاں چلو مست و رقصاں چلو
خاک بر سر چلو خوں بداماں چلو
میرے لیے یہ بات باعث صد افتخار ہے کہ میں صوبہ سندھ کے آخری ضلع تھرپارکر کے صحرا میں بیٹھ کر وادئ کشمیر کے محقق، نقاد، شاعر اور انشا پرداز پروفیسر فرہاد احمد فگار کے شاہ کار "بزم فگار” کا مطالعہ کر رہا ہوں۔یہ سب گلوبلائيزيشن کی مہربانی سے ہو رہا ہے۔جس کی وجہ سے میری فرہاد احمد فگار صاحب جیسی ہستی سے شناسائی ہوئی اور پاکستان کے ایک کونے میں بیٹھ کر دوسرے کونے سے فرہاد احمد فگار صاحب کی بزم میں حصہ لے رہا ہوں۔
فرہاد احمد فگار کی یہ تصنیف "بزم فگار” ادبی اور تحقیقی مضامین پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں بیس سے زائد مختلف موضوعات پر مضامین شامل ہیں۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس کی زبان سادہ اور سلیس، نکتہ بہ نکتہ تاریخی حوالوں سے بھرپور، دلائل میں پختگی اور اس کا اندازِ بیان ایک قسم کی مٹھاس سے بھرپور ہے. جس کی وجہ سے قاری کو کسی بھی قسم کی بوریت محسوس نہیں ہوتی۔ حالاں کہ تحقیق، تنقید اور تاریخ بہت ہی خشک سبجیکٹس ہیں۔ ہر کوئی شوق سے نہیں پڑھتا۔ لیکن یہ تخلیق کار یا فن کار کا کمال ہے کہ کسی خشک سبجیکٹ میں قاری کے لیے کشش کیسے پیدا کرے؟ جو ایک بار شروع کرنے کے بعد بیچ میں چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ شیخ ایاز نے کیا خوب کہا:
شاعری ہے چند باذوق لوگوں کا سرمایہ
ہر بانس کی ٹہنی بانسری نہیں ہوتی!
فگار صاحب خود کالج میں پروفیسر ہیں ادب کے شعبے میں طلبہ کے مسائل اچھی طرح سمجھتے ہیں۔اس لیے یہ کتاب خاص طور پہ کالج اور یونی ورسٹی کے طلبہ اور کسی بھی قسم کی ادبی تحقیق اور تنقید میں کار آمد ثابت ہوگی۔ یہ کتاب اساتذہ، طلبہ اور دوسری ادبی شخصیات کو تحقیق اور تنقید کی دعوت دیتی ہے۔ فگار صاحب نے اس کتاب میں خشک موضوع کو خوب صورت بنانے کے لیے بڑے خوب صورت اشعار کا انتخاب کیا ہے جو پڑھنے میں تجسّس پیدا کرتے ہیں۔ سنت کبیر کہتے ہیں:
گُرو گوبند دونوں کھڑے، کا کے لاگوں پائے
بلہاری گُرو آپنے، جس گوبند دیو بتائے
کتاب کا پہلا مضمون بہ عنوان "دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں” ہے۔اس مضمون میں فرماتے ہیں کہ، "ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ہاں تحقیق پر توجہ دی جائے، تحقیق ہی واحد ذریعہ ہے جو سچ اور جھوٹ میں فرق کرتا ہے.” آپ قاری کو اتساہ دیتا ہے اور غلطیوں سے سبق سیکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ، "میں بھی غلطی کر سکتا ہوں لیکن اپنی غلطی مان لینا بڑی بات ہے.”
کتاب میں ایک مضمون ادبی غلطی اور غلط فہمی سے انشا اللہ خان انشا کا ایک شعر اقبال کے نام لکھا گیا ہے۔اس کو ادبی اور تحقیقی دلائل اور حوالہ جات کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ یہ شعر اقبال کا نہیں بلکہ انشا اللہ انشا کا ہے۔ اس کتاب میں وادی لیپا کا ایک مختصر سفرنامہ بھی شامل ہے۔ اس سفر نامےمیں تخلیق کار نے اپنے قلمی فن کا خوب کمال دکھایا ہے۔ یہ سفرنامچہ پڑھنے سے قاری کی بوریت بالکل ہی ختم ہو جاتی اور اک دم تازہ توانا ہو جاتا ہے۔ راستے کی خوب صورت منظر کشی پڑھتے وقت وہ سارا منظر آنکھوں کے آگے مور بن کر ناچنے لگتا ہے۔ منظر کشی کے ساتھ جو تشبیہات استعمال کی گئی ہیں وہ پڑھ کے زبان و دل ق واہ کرنے سے نہیں رکتا۔منظر کشی کی مثال دیکھیے کہ: "کسی نانگن کی مانند بل کھائی سڑک اوپر ہی اوپر چلی جاتی ہے.” کیا کمال کی تشبیہ دی ہے۔ سفر کو مزید جان دار بنانے کے لیے سفر کے دوران میں وہاں کی تاریخی جگہوں، وہاں کی نام ور شخصیات، ان پہاڑوں سے منسوب تاریخی قصے، وہاں ہوئے صنعتی اور ترقیاتی کام، عام لوگوں کی زندگی اور ان کے مسائل سے لے کر حکم رانوں کی عدم توجہ اور نا اہلی تک ہر چیز کی خوب صورت تصویر کھینچی ہے۔یہاں پر مجھے تخلیق کار کی جو عظمت نظر آئی وہ اس بات میں کہ آپ مکمل انسان پرست شخصیت کے مالک ہیں اور ہر کسی کے عقیدے کا احترام کرتے ہیں۔ مثلاً ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ: "اس وادی میں ایک کالج کی تعمیر کے دوران میں کچھ مورتیاں بھی ملیں، جن کو مذہبی تعصب کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے توڑ کر دیوار میں چُن دیا گیا۔” بہ قول خاموش غازی پوری:
عمر جلووں میں بسر ہو یہ ضروری تو نہیں
ہر شب غم کی سحر ہو یہ ضروری تو نہیں
شیخ کرتا تو ہے مسجد میں خدا کو سجدے
اس کے سجدوں میں اثر ہو یہ ضروری تو نہیں
اگلا مضمون بہ عنوان "مشاہیر ادب اردو کے حقیقی نام” ایک کثیر جانب تحقیقات پر مشتمل ہے۔یہ مضمون اردو کے نام ور ادبا، شعرا، محققین، دانش وروں، افسانہ نگاروں، ڈرامانگاروں، ناول نگاروں کے ادبی ناموں یعنی تخلص اور ان کے اصلی ناموں پر مبنی ہے۔ یہ ایک ایسا تحقیقی مقالہ ہے جو شعبہ اردو کے ہر طالب علم اور استاد کے لیے کارآمد ہے۔اس مضمون میں کئی نام ور شخصیات کے اصلی نام، تھوڑا سا شجرہ، تولد اور رحلت کی تاریخ اور ان کی ادبی تصنیفات کا ذکر کیا گیا ہے۔
کچھ ادبی اصناف پر بھی مضمون ہیں اور اردو زبان میں بولے جانے والے الفاظ کے غلط استعمال پر بھی کمال کے مضامین ہیں۔مثال کے طور پر "تدوین اور تدوین متن کی روایت” ، "املا وہ تلفظ کی عمومی اغلاط” ، "غلط العوام الفاظ اور املا” ، "اردو کی خوش بو” اور "اردو ہے میرا نام”. جن میں بہت باریک بینی سے اردو صوتیات و صرفیات کو بیان کیا گیا ہے۔ یہی دو تین مضامین تھے جنھوں نے میرے حواس کھول دیے اور میں نے یہ تبصرہ لکھنے لیے دوبارہ اس کتاب کا مطالعہ کیا.۔ مجھے معلوم ہوا کہ فگار صاحب اردو لفظوں کا تقدس اور حرمت رکھنا خوب جانتے ہیں. فرماتے ہیں کہ: "اردو کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں اکثر سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کبھی کسی کی غلطی سے اور کبھی اپنی غلطی سے۔” فگار صاحب کی اپنی زبان کے بارے میں بے تحاشا محبت دیکھ کر مجھے داغستان کی آوار زبان کا شاعر رسول حمزہ توف یاد آگیا۔رسول حمزہ توف نے لکھا ہے کہ: "ہمارے داغستان کی سب سے بڑی بد دعا یہ ہے کہ ہم کسی کو کہیں کہ آپ کے بچے اپنی زبان بھلا دیں۔” ہماری سندھی زبان کا ایک بڑا نام ہے شیخ ایاز جس نے اردو میں بھی خوب لکھا ہے اور سندھی کے بہت بڑے شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے رسالے کا اردو زبان میں منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔ایاز صاحب کے ایک سندھی شعر کا مطلب ہے کہ: "آپ اگر اپنی زبان میں "اماں” پکاریں تو دنیا کی کسی بھی زبان میں وہ مٹھاس آپ کو نہیں ملے گی۔”
آتے ہیں بزم فگار کی طرف. تو ان کے علاوہ اردو کی مشہور مثنویوں پر بھی ایک کمال کا مضمون ہے۔ جو ایک عمدہ تحقیقی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ کتاب ہم کیوں پڑھیں!! ہم اپنی زندگی میں کئی کتابیں پڑھتے ہیں. ناول، افسانہ، شاعری، عشقیہ قصے وغيره وغيره. یہ سب ہم ذہنی عیاشی، ذہنی سکون اور اپنے آپ کو تازا توانا کرنے لیے پڑھتے ہیں لیکن کوئی تحقیق یا تنقید ہم اپنا ذہن ان لاک یعنی ذہن کھولنے کے ساتھ اور زیادہ تحقیق کے دروازے کھولنے کے لیے بھی پڑھتے ہیں۔اس لیے اپنی ادبی واقفیت بڑھانے کے لیے اور اپنے علم کو وسیع کرنے کے لیے یہ کتاب ضرور پڑھیں. آخر میں میں فیض احمد فیض کے اس شعر کے اجازت چاہوں گا۔
ہم خستہ تنوں سے محتسبو،
کیا مال منال کا پوچھتے ہو،
جو عمر سے ہم نے بھر پایا،
سب سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مشتِ خاکِ جگر،
ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا!
لو جام الٹائے دیتے ہیں!!
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔