روگ الفت کا جسے لگ جائے ہے

غزل

الحاج شفیع اللہ شفیعؔ بہرائچی

روگ الفت کا جسے لگ جائے ہے
لطف جینے کا وہی کچھ پائے ہے
یوں مٹا جاتا ہے راہ عشق میں
خاک پروانہ  یہی  بتلائےہے
وعدہ  آنےکاکیا ہے آئیں گے
اے دِلِ ناداں کیوں گھبرائے ہے
آہ مظلوماں سے سچ ہے ہمنشیں
آسماں کیا عرش بھی تھرائے ہے
آپ نے شاعر کہا شاعر ہوں میں
شاعری ورنہ مجھے کب آئے  ہے
ساحل  امید  پاکر   اے  شفیع
کشتی  امید  ڈوبی  جائے  ہے



تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Next Post

میجاریٹی

بدھ جون 16 , 2021
میں بت پرستی کے سخت خلاف ہوں، لیکن میں مردوں کی عبادت میں یقین رکھتاہوں اس لیے میں زیادہ اثردار ہوں۔ دوسرے مذہب نے کہا۔
میجاریٹی

مزید دلچسپ تحریریں