غزل
الحاج شفیع اللہ شفیعؔ بہرائچی
روگ الفت کا جسے لگ جائے ہے
لطف جینے کا وہی کچھ پائے ہے
یوں مٹا جاتا ہے راہ عشق میں
خاک پروانہ یہی بتلائےہے
وعدہ آنےکاکیا ہے آئیں گے
اے دِلِ ناداں کیوں گھبرائے ہے
آہ مظلوماں سے سچ ہے ہمنشیں
آسماں کیا عرش بھی تھرائے ہے
آپ نے شاعر کہا شاعر ہوں میں
شاعری ورنہ مجھے کب آئے ہے
ساحل امید پاکر اے شفیع
کشتی امید ڈوبی جائے ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔