چند حیرت کدے میکانیات کے!
کوانٹم فزکس کو اردو زبان میں میکانیات یا مقادیر برقیات کہا جاتا ہے۔ یہ سائنس ننگی انسانی آنکھ سے نظر نہ آنے والے مادے کے بنیادی ذرے ایٹم کے نیوکلیئس میں پائے جانے والے زرات مثلا پروٹان، نیوٹران اور الیکٹران وغیرہ کی ساخت، خواص اور ان کے کام کرنے کے طریقہ کار پر بحث کرتی ہے۔ میکانیات اتنی جادوئی اور پیچیدہ مگر حیرت انگیز سائنس ہے کہ جس کا اندازہ آپ مذہبی اسطورہ کے اس پرانے سوال سے لگا سکتے ہیں کہ جس میں عموما پوچھا جاتا تھا کہ سو انڈوں کی پیٹیوں سے لدی ہوئی سو اونٹوں کی ایک قطار سوئی کے ایک چھوٹے سے سوراخ سے سو میل فی سیکنڈ کی رفتار سے گزر رہی ہے اور سارے اونٹوں پر لدے ہوئے انڈوں سے ایک سیکنڈ میں بچے بھی نکل رہے ہیں، وہ جوان بھی ہو رہے ہیں، انڈے بھی دے رہے ہیں اور ان کے انڈوں سے بچے بھی نکل رہے ہیں جبکہ ان کے بچوں کے بچے بھی انڈے دے رہے اور ان سے بھی آگے بچے نکل رہے ہیں، تو زرا سوچ کر بتائیں کہ اس سے اگلے ایک سیکنڈ میں ان سارے اونٹوں کی ساری پیٹیوں کے انڈوں اور ان کے بچوں کے بچوں کے انڈوں سے، کل کتنے بچے نکلیں گے؟
اس نوع کے دماغ خوردہ سوال کے باوجود کوانٹم میکینکس ‘امکانات’ کی ایسی دنیا ہے کہ جو اس سے بھی مشکل سوال کا عین درست جواب دے سکتی ہے، جس میں کوانٹم ذرات کے درمیان کوانٹم انٹینگلمنٹ (یا بندھن) کا مظہر کسی بڑے سے بڑے مذہبی معجزے سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے کہ مذہب کی پوری تاریخ میں اس کے جیسی کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی ہے جس پر عصر حاضر کے سائنس دان کامیابی سے کام کر رہے ہیں، کہ دو کوانٹم ذرات کے درمیان انٹینگلمنٹ کا بندھن قائم ہو جائے اور ان میں سے ایک ذرے کو بے شک آپ کھربوں کھربوں میل چاہے وہ کھربوں نوری سالوں ہی کی مسافت پر کسی دور دراز ستارے پر ہی کیوں نہ لے جائیں، آپ جونہی زمین پر موجود ایک ذرے میں کوئی تبدیلی پیدا کریں گے تو اینٹی وائز (Anti-Wise) اور کلاک وائز (Clock-Wise) وہی تبدیلی دوسرے ذرے میں بھی بیک وقت پیدا ہو جائے گی۔
اس حوالے سے بغیر کوئی فاصلہ طے کئے کائنات کے انتہائی ستاروں تک ٹیلی پورٹیشن Teleportation کے ذریعے سفر کو ممکن بنانے کے لئے تیزی سے کام ہو رہا ہے کہ آپ ہالی وڈ کی فلموں کی طرح ایک ستارے سے دوسرے ستارے تک پلک جھپکنے سے بھی پہلے پہنچ جایا کریں گے!
میکانیات کے نزدیک دنیا و مافیہا کا کوئی ایک سوال بھی الجبرے کے مسئلہ فیثا غورث کی طرح لاینحل نہیں ہے کیونکہ کوانٹم فزکس ذرات کو ایک ہی وقت میں دو مختلف حالتوں میں رہنے کی اجازت دیتی ہے! دوسرے لفظوں میں کائنات کی ہر چیز بشمول ساری دنیا کوانٹم دھن پر ناچ رہی ہے۔ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ ہزاروں میل دور بیٹھے اپنے دوست سے سمارٹ فون پر کیوں اور کیسے بات کرتے ہیں اور اسے دیکھتے بھی ہیں، الیکٹران کس طرح کمپیوٹر چپ کے ذریعے حرکت کرتے ہیں، کس طرح روشنی کے فوٹان شمسی پینل میں برقی رو میں تبدیل ہوتے ہیں یا یہاں تک کہ ستارے کیوں اور کیسے جلتے ہیں اور کھربوں میل دور سے ان کی روشنی ہم تک کیسے پہنچتی ہے تو ان تمام سوالوں کے درست جوابات حاصل کرنے کے لئے آپ کو کوانٹم فزکس سمجھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
کوانٹم انٹینگلمنٹ یا بندھن فطرت کا ایسا مظہر ہے جس کے سامنے انسانی عقل عاجز نظر آتی ہے۔ کوانٹم فزکس عجیب ہے مگر چیشائر کیٹ افیکٹ عجیب ترین ہے۔ کیا کسی شے سے اس کی صفات کو الگ کر کے دیکھا جا سکتا ہیں؟ کوانٹم چیشائر کیٹ کے مطابق اس سوال کا جواب حیرت انگیز حد تک ‘ہاں’ میں ہے۔ گویا یہ ایسی بات ہے جیسے کوئی یہ کہہ دے کہ ایک چیز کے رنگ کو اس چیز سے الگ کر کے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی چیز کے رنگ کو ہمیشہ اس چیز کے ساتھ ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی چیز کے رنگ کو بطور رنگ، کسی چیز سے الگ کر کے دیکھا نہیں جا سکتا ہے مثلا ایک سنگترا پیلا ہے تو پیلے رنگ کو اس سنگترے سے جدا کر کے بطور ایک چیز کے نہیں دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ جب پیلے رنگ کو سنگترے سے مکمل طور پر جدا کریں گے تو نہ پیلا رنگ دیکھائی دے گا اور نہ ہی پیلا سنگترا نظر آئے گا، کیونکہ چیزیں اپنے خواص کی وجہ سے قائم ہوتی ہیں یعنی اگر سنگترے سے اس کا رنگ، شکل اور حجم وغیرہ نکال دیں گے تو ‘نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری’ کے مصداق سنگترا اور رنگ دونوں ہوں گے بھی اور نہیں بھی ہوں گے!
کوانٹم فزکس بھی ساخت، حجم اور خواص کی ایسی دنیا ہے کہ وہ بیک وقت ہے بھی اور نہیں بھی یے جیسا کہ چیشائر کیٹ (بلی) اپنے جسم سے اپنی مسکراہٹ الگ کر لیتی ہے اور جب وہ چلی بھی جاتی ہے تو ونڈر لینڈ کی گڈیا اس مسکراہٹ کو بعد میں بھی دیکھتی رہتی یے! بالکل اسی طرح ایک پارٹیکل بھی اپنی پراپرٹیز یعنی اپنے اوصاف کو خود سے اتار کر الگ کر سکتا ہے۔
کوانٹم فزکس کے ماہر 2013 میں کیلیفورنیا یونیورسٹی میں اس کا کامیاب تجربہ کر چکے ہیں ایک اسرائیلی نژاد پروفیسر ‘یاکِر اہاررونوف’ (Yakir Aharonov) نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک ایسا تجربہ کیا جس کے نتیجے میں انہوں نے دیکھا کہ، ‘ایک فوٹان کو اُس کی قطبیت (پولرائزیشن) سے جدا کیا جا سکتا ہے!’ پولرائزیشن ایک صفت ہے جو ہمیں کسی موج کی سمت بتاتی ہے۔ اہارونوف اور اس کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اسی صفت کو فوٹان سے الگ کیا جانا ممکن ہے۔ اسی سال ’ویانا یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی‘ کے ایک پی ایچ ڈی کے طالب علم ’ٹوبی ایس ڈین کمائر‘ (Tobias Denkmayr) اور اس کے ساتھیوں نے بھی یہی تجربہ دہرایا اور انہوں نے بھی بتایا کہ، ’نیوٹرانوں کو ان کی سپِن یا اس صفت سے جس کی وجہ سے ان میں اینگولر مومینٹم پیدا ہوتا ہے، الگ کیا جا سکتا ہے!’
کوانٹم فزکس اتنی عجب ہے کہ کسی فوٹان یا الیکٹران وغیرہ کے راستے میں ایک خاص قسم کا پیمائش کرنے والا آلہ رکھ دیا جائے تو ان پارٹیکلز (جو زرے اور موج دونوں خواص کے حامل ہوتے ہیں) سے ان کی صفات جُدا ہو کر سفر کرنے لگتی ہیں۔ یہ انسانی علوم کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ سائنس دانوں نے مادی اشیا میں صفات کو شے سے الگ دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے جو اس سے پہلے ایک ناممکن سی بات تھی۔
کوانٹم میکینکس ریاضی کے بنیادی فریم ورک جس کی پہلی بار بنیاد 1920 کی دہائی میں نیلز بوہر، ورنر ہائزنبرگ، ایرون شروڈنگر اور دیگر نے رکھی تھی، کیا دنیا کے بارے میں آخری اور حتمی رائے ہے، یہ ایک ایسا سوال ہے جو تیزی سے جدید سے جدید تر پھیلتے ہوئے سائنسی علوم کے سامنے بذات خود ایک حیرت کدہ ہے۔۔۔!!!
یہ کوانٹم فزکس کی ابتداء ہے اس کو پیدا ہوئے ابھی 100 سال بھی نہیں گزرے۔ کوانٹم فزکس اور کوانٹم کمپیوٹرز وغیرہ آنے والے ادوار میں انسانی زندگی کے ساتھ کیا تماشہ کریں گے یا خود زندگی روئے زمین کے انسانوں کا مستقبل کیا لکھے گے، اس بات کو یقین کے ساتھ کوئی بڑے سے بڑا سائنس دان یا مفکر بھی نہیں بتا سکتا ہے کہ:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں،
محو حیرت ہوں دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی!
اس کے باوجود ہم جس خوبصورت کائنات اور زندگی پر دل و جان سے مرتے ہیں، وہ کوانٹم سائنس ہی کی رو سے اتنی غیر یقینی (اور ناپائیدار) ہے کہ سائنس کا علم حقیقی دنیا سے فرار کا ایک راستہ ہے جس کے بارے میں کوانٹم سائنس کا معتبر ترین ‘قانون غیریقینیت’ کہتا ہے کہ کائنات اور زندگی میں کس وقت کیا سے کیا ہو جائے اس بات کی 100% درست پیش گوئی کرنا 100% تو کیا 100 بلئین% تک بھی ناممکن ہے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔