آج رمضانُ الکریم کی 10 تایخ ہے ۔بعثت یعنی اعلانِ رسالت کے دسویں برس حضور نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پہلی زوجہ ، پہلی اُمُّ المومنین ، اور اپنے دور کی ملیکةُ العرب خاتون حضرتِ خدیجة سلامُ اللہِ علیھا کا یومِ وفات حسرت آیات ہے ۔ جنابِ خدیجہ سلام اللہ علیہا اپنے دور میں عرب کی سب سے زیادہ مالدار خاتون تھیں؛ آج کے دور کے مطابق اگر کہا جائے کہ آپ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی مالکہ تھیں تو یہ کہنا بالکل بجا ہو گا آپ کا مالِ تجارت مختلف ملکوں میں لے جانے والے تاجروں اور ملکیتی اونٹوں کی تعداد ہزاروں میں تھی، جنابِ رسولِ خُدا صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم بھی آپ کا مالِ تجارت لے کر ملکِ شام گئے، اس سفر میں حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا خاص غلام میسرہ بھی ہمراہ تھا جس نے اس سفر میں محمد مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم میں مافوق الفطرت خوبیاں دیکھیں اور واپسی پر حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سے بیان کر دیں حضرت خدیجة سلام اللہ علیہا نے حضورﷺ کی شخصیت ، صداقت امانت سے متآثر ہو کر آپؐ کی خدمتِ اقدس میں شادی کا پیغام بھیجا جسے سرکارِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابو طالبؑ سے مشاورت کے بعد قبول فرما لیا ۔حضرتِ خدیجہ سلام اللہ علیہا نہ صرف سب سے پہلے محمد مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان لائیں بلکہ اپنی تمام تر دولت اسلام پر خرچ کر دی اسی بات کو قُرآن نے یُوں بیان فرمایا؛
وَ وَجَدَکَ عَآئِلاً فَاَغنی’ اور ہم نے تُم کو تنگدست پایا تو غنی کر دیا (سُورۃ والضُحی’ آیت 8)
اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْماً فَاٰوٰی ۰ (سورۃ والضُحیٰ آیت 6)
اور کیا اللہ نے آپؐ کو یتیم پا کر آپؐ کو پناہ نہیں دی تاریخ گواہ ہے کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم یتیم پیدا ہوئے تھے اور ابتدائی 6 سال آپ کے دادا حضرت عبد المطلب علیہ السلام نے اور پھر اس کے بعد اعلانِ رسالت تک اور اس کے بعد آنے والے تمام آلام و مصائب میں مرتے دم تک آپ کے چچا حضرت ابوطالب علیہ السلام نے آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کو پناہ دی، اور سب سے اہم نقطہ یہ کہ آج بھی اور اُس زمانے میں بھی عرب معاشرے کا دستور تھا کہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھتے تھے ۔ اور اسے بڑائ کی علامت تصور کرتے تھے ۔ مگر قربان جائیے جنابِ خدیجة کی عظمت و وفاداری کے کہ جب تک آپ زندہ رہیں حضورﷺ نے دوسری شادی نہ کی ۔ اعلانِ نبوّت کے بعد کفارِ مکہ کے ہر طرح کے مظالم میں بی بی خدیجہ سلام اللہ علیہا نے اور حضرت ابو طالب علیہ السلام نے آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کا مکمل ساتھ دیا یہاں تک کہ خاندانِ رسالت کو شِعبِ ابی طالب میں محصور ہونا پڑا ان تکلیف دہ ترین حالات اور بھوک و پیاس کی وجہ سے یہ دونوں بزرگ ہستیاں یعنی حضرت ابوطالب علیہ السلام اور حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا بہت کمزور ہو گئیں اور دونوں کی رحلت یکے بعد دیگرے ہوئی، بات زیادہ طویل نہ ہو جائے ۔ جس سال حضورﷺ کے چچا حضرت ابو طالب علیہ السلام اور حضرت خدیجة سلام اللہ علیھا کی وفات ہوئ حضورﷺ نے اس کو عامُ الحُزن یعنی غم کا سال قرار دیا ۔ اور صحابہؓ کی محفل میں حضرت خدیجة کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ۔یاد رکھنا میرے صحابہ ، خدیجہ اُس وقت مجھ پر ایمان لائیں جب لوگ مجھے جُھٹلاتے تھے ،، انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگ میرا انکار کرتے تھے ، اور خدیجة نے اس وقت اپنے مال سے میری مدد کی جب لوگ مجھے محروم رکھتے تھے ، اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے خدیجة کی کوکھ سے مجھے اولاد کی نعمت عطا کی جب لوگ مجھے ابتر کا طعنہ دیتے تھے ۔ اور حضورﷺ حضرت خدیجة سلام اللہ علیہا کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ، میں ان کو جنت کی ایک نہر کے کنارے بانس کی لکڑی سے بنے گھر میں دیکھتا ہوں جہاں نہ شوروغُل ہے نہ کوئ دکھ اور مصیبت ۔ اور اللہ کے نبی صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم اپنی زبانِ وحی ترجمان سے ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان چار خواتین کو دنیا میں جنت کی بشارت دے دی ہے، ایک حضرت آسیہ زنِ فرعون دوسری حضرت مریمؑ والدہ حضرت عیسٰی علیہ السلام تیسری حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا اور چوتھی حضرت فاطمہ بنتِ محمد صلواۃ اللہ علیہم. اللہ تعالٰی ہماری خواتین کو ان محترم خواتین کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو اُسوہءِ رسولﷺ کی پیروی کی توفیق مرحمت فرمائے ، اور اس دنیا کو ہر طرح کی وبائے ناگہانی اَرضی و سماوی سے خصوصاً کرونا کی وباء سے اپنی پناہ اور حفظ و امان میں رکھے ، آمین ثم آمین یا رب العالمین
سیّد مونس رضا
ریٹائرڈ او رینٹل ٹیچر
گورنمنٹ پائیلیٹ ہائر سیکنڈری اسکول
اٹک شہر
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔