سیّد معراج جامی صاحب، کراچی
انٹرویو بسلسلہ ادبی شخصیات، کراچی
انٹرویو کنندہ: مقبول ذکی مقبول، بھکر پنجاب پاکستان
سیّد معراج جامی کراچی سے ہیں۔ان کے آباو اجداد بغداد کے قصبہ جام (عراق) سے ہیں ۔ تجارت کے سلسلہ ہندوستان آیا کرتے تھے ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ہندوستان پاکستان اور بنگلہ دیش ایک ہی ملک ہوا کرتا تھا ۔ ان کے والد کلکتہ میں پیدا ہوئے والدہ بنگالی تھیں ۔ ان کا اصلی نام سید معراج مصطفیٰ حسین ہاشمی ہے قلی نام سید معراج جامی ہے ۔ پیدائش 12 مارچ 1955ء دادو (سندھ) میں ہوئی ہے ۔ تعلیم ایم اے (اردو) ایم اے (مطالعہ اسلامی) ان کے بزرگوں کو ۔ یہاں کی فضا راس آئی۔ تجارت کی برکت سے کاروبار اچھا ہوا۔اور ادھر کے ہی ہو کے رہ گئے ۔ مگر بعد ازاں دادو منتقل ہو گئے۔پھر قسمت پھیر پھرا کر کراچی لے آئی۔جہاں ان کی عمر بسر ہو گئی ۔ گزشتہ دنوں ان کی ملاقات ہوئی، حاصل ِ ملاقات نذر ِ قارئین ہے۔
سوال: شاعری، آپ کو وراثت میں ملی ہے اور آپ کے بھائی بھی شاعر ہیں۔ اس پر کچھ کہنا پسند کریں گے۔؟
جواب : جی ہاں مجھے شاعری وراثت میں ملی ہے ۔ میرے والد محمد حسین دلگیر شاعر تھے اورخاموش فلموں کے اداکار بھی تھے، ہدایت کار بھی ۔ میرے بڑے بھائی فیاض ہاشمی بھی فلمی شاعر تھے ، طلعت محمود جس گانے سے امر ہوا وہ فیاض ہاشمی کا لکھا ہوا تھا جس کے بول تھے ’’تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی‘‘ اور ایس بی جون بھی جس گیت سے امر ہوئے اس کے بول تھے ’’تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے ،یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے ‘‘ نیز حبیب ولی محمد نے بھی ان کے کئی گیت گائے ،ایک گیت’’آج جانے کی ضد نہ کرو ، یوں پہلو میں بیٹھی رہو ‘‘ بہت مشہور ہوا ۔یوں شاعری کا یہ سلسلہ مجھ تک پہنچا ۔ میں داغ اسکول سے تعلق رکھتا ہوں، داغ کے جانشین حضرت بیخود دہلوی تھے اور بیخود کے جانشیں حضرت فداؔ خالدی دہلوی تھے جو تقسیم کے بعد کراچی آ گئے تھے ، میں ان کا 1980ء میں شاگرد بنا ۔
سوال: آپ اپنے سرمایہ ادب جو کہ تخلیقات کی صورت میں وجود میں آیا۔ ان کے نام کیا ہیں۔؟
جواب :میری تخلیقات اب تک سات آ چکی ہیں۔ سات ہی تالیفات ہیں اور آٹھ کتب جو مختلف موضوعات پر ہیں زیر ترتیب ہیں۔ جو شائع ہو چکی ہیں ۔
۱۔ پہلا شعری مجموعہ’’روزن خیال‘‘ 1992ء میں شائع ہوا۔
۲۔ اردو زبان میںسین ریوز پر ان کی پہلی کتاب ’’بیوی سے چھپ کر‘‘2003ء میںآ چکی ہے ۔
۳۔ برطانیہ کے پہلے سفر پر مشتمل سفرنامہ ’’انگلستان …خدا کی شان‘‘2011ء میں شائع ہوئی۔
۴۔ برطانیہ کے ادبی علمی رسالے سہ ماہی ’’سفیر اردو‘‘ لیوٹن کے گیارہ برسوں کے چوالیس (44) اداریوں پر مشتمل کتاب ’’مقالات افتتاحیہ ‘‘2011ء میں منصہ شہود پر آئی۔
۵۔ نعتیہ مجموعہ’’معراجِ عقیدت ‘‘2013ء میں منظر عام پر آیا ۔
۶۔ 17مشاہیر ادب کے خاکوں پر مشتمل کتاب ’’معراجِ محبت ‘‘2021ء شائع ہوئی ۔
۷۔ افسانچوں /مطائبات پر مشتمل مجموعہ’’اور ٹیلی فون بند ہو گیا ‘‘2021ء پر منظر عام پر آیا ۔
میری تالیفیات
۱۔ پہلی کتاب ہشت بہشت (شعری مجموعہ )،از پروفیسر ڈاکٹر خورشید خاور امروہوی، اشاعت دوم 1993ء ،بیت الفیاض ،اے۳۰۸، این ،شمالی ناظم آباد ،کراچی
۲۔ دوسری مرتبہ کتاب ’’مشہور شاعرات کی ۱۰۰ غزلیں ، 1995، ممتاز پبلشرز ،کراچی
۳۔ تیسری مرتبہ کتاب ’’متعلقات ِمشفق خواجہ‘‘ 2008ء میں ۔
۴۔ چوتھی مرتبہ کتاب’’ساون میں دھوپ کا خالق’ودیا ساگر آنند‘‘ 2008ء میں شائع ہوئی ۔
۵۔ پانچویں کتاب ’’ترجمان اردو ’خواجہ طارق محمود ‘ 2012ء میں ۔
۶۔ چھٹی کتاب’’ڈاکٹر جمیل جالبی ،عصری آگہی کا ایک تناظر‘مصنفہ احمد ہمدانی‘2020ء میں۔
۷۔ ساتویں کتاب ’’اردو کے مشہور اشعار ‘‘بعد از ترمیم و اضافہ تیسرا ایڈیشن 2021ء میں آ چکی ہیں۔
میری زیر ترتیب کتب جن میں چار تخلیقات ہیں اور چار تالیفات ،
۱۔ ’ ’ بنام من ‘‘ مشاہیر کے خطوط کا مجموعہ ۔(تین جلدوں میں )
۲۔ ’’معراج ِ خیال ‘‘ دوسرا شعری مجموعہ
۳۔ ’’معراج افکار ‘‘ مضامین کا مجموعہ۔
۴۔ ’’معراج تبسم ‘‘ طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ۔
مرتبہ:
۱۔ ’’مقالات ابتدائیہ ‘‘ماہنامہ ’پرواز‘ لندن کے 2015ء سے مارچ2021ء تک 75 اداریوں کا مجموعہ۔
۲۔ ڈاکٹر حمید اللّٰہ کے خط ڈاکٹر محمد صابر علی کے نام
۳۔ اشاریہ سفیر اردو (سہ ماہی’ سفیر اردو ‘لیوٹن ،برطانیہ کے 74شماروں (جولائی 1997ء تا دسمبر 2009ء ) کا اشاریہ
۴۔ ماہنامہ پرواز لندن کا ساڑھے بیس برس کا اشاریہ دو جلدوں میں پہلی جلد میں دس برس کا اور دوسری جلد میں ساڑھے دس برس کا اشاریہ ۔
سوال: آپ کی شعری اور نثری خدمات بہت ساری ہیں۔ کیا سرکار کی طرف سے بھی کوئی حوصلہ افزائی ہوئی۔؟
جواب : پہلی بات تو یہ کہ ہر تخلیق کار کو کبھی کسی ستائش کی تمنا یا صلہ کی پروا نہیں کرنی چاہیے ۔ اگر وہ صدق دل سے ادب میں مصروف ہے تو وہ سر جھکا کر اپنے کام سے کام رکھے گا۔ دوسری بات اس کی حوصلہ افزائی اگر عوام کرتے ہیں تو یہ اس کا بہت بڑا اعزاز ہے ۔ سرکار کی جانب سے بعض اوقات حوصلہ افزائی یا انعام شرم کا باعث بن جاتا ہے ۔میرے لیے میرے ملک کے پڑھے لکھے باشعور عوام کی حوصلہ افزائی بہت بڑا انعام ہے۔ مجھے سرکار سے کسی اعزاز کی تمنا نہیں ہے ۔
سوال: آپ نے انٹرنیشنل مشاعرے پڑھے ہیں۔ شعراء کا کلام اور رویہ کیسا محسوس کیا۔؟
جواب : مشاعرے پوری دنیا کے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ، چاہے وہ پاکستان ہو، بھارت ہو، برطانیہ ہو، امریکا ہو ۔کیونکہ سب ملکوں کے شاعر بھی ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں منعقدہ مشاعرے میں جائیے لگتا ہی نہیں ہے کہ ہم پاکستان سے باہر کسی مشاعرے میں بیٹھے ہیں۔ تمام شعراء کا رویہ اور ان کا کلام ایک جیسا ہی ہوتا ہے ، اگر فرق ہے تو اتنا سا کہ بیرون پاکستان شعراء اپنے کلام میں ہجرت کا خود ساختہ کرب ڈال کر اپنے کلام میں تھوڑا سا ذائقہ پیدا کر دیتے ہیں۔ باقی رہا شاعروں کے اخلاق، اخلاص اور رویوں کا ذکر تو اس ذکرکو چھیڑنے سے بہتر ہے کہ خاموشی اختیار کی جائے ۔
سوال: انشائیہ اور افسانہ کی روح کیا ہے۔ اس پر تھوڑی روشنی ڈالیں۔؟
ؔؔجواب:انشائیہ کی مختصر تعریف کچھ یوں ہے کہ:
انشائیہ: انشائیہ کے لغوی معنی ”عبارت” کے ہیں۔ انشائیہ نثری ادب کی وہ صنف ہے جو مضمون کی مانند لگتی ہے مگر مضمون سے الگ انداز رکھتی ہے۔ انشائیہ میں انشائیہ نگار آزادانہ طور پر اپنی تحریر پیش کرتا ہے ، جس میں اس کی شخصیت کا پہلو نظر آتا ہے ۔ کسی خاص نتیجہ کے بغیر بات کو ختم کرتا ہے ، یعنی نتیجہ کو قاری پر چھوڑ دیتا ہے۔
اور افسانہ کی تعریف اس طرح ہے کہ
افسانہ ادب کی نثری صنف ہے۔ لغت کے اعتبار سے افسانہ جھوٹی کہانی کو کہتے ہیں لیکن ادبی اصطلاح میں یہ لوک کہانی کی ہی ایک قسم ہے ۔ ناول زندگی کا کل اور افسانہ زندگی کا ایک جز پیش کرتا ہے۔
انشائیہ اور افسانہ کی اس تعریف سے دونوں کی روح بآسانی سمجھ میں آجاتی ہے ۔
سوال: کراچی کی شاعری میں زیادہ تر نمایاں رنگ کون سا نظر آتا ہے۔؟
جواب: شاعری کراچی کی ہو یا لاہور کی یا ملک کے کسی بھی حصے کی ، تقریباً رنگ ایک ہی ہوتا ہے اس لیے کہ ہمارے مسائل بھی ایک جیسے ہیں، شب و روز بھی ۔ کراچی کی شاعری کو پڑھتے وقت یہ انداز لگانا مشکل ہے کہ یہ پاکستان کے کس شہر کی شاعری ہے کیونکہ نئی نسل کے شعراء آج کی تناظر میں ایک طرح ہی سوچتے ہیں، ان کے مسائل بھی ایک جیسے ہیں، ان کے محبوب بھی ایک جیسے اور ان کے ہجر و وصال بھی ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔اس لیے کراچی میں شاعری میں نمایاں رنگ کوئی خاص نہیں ہے اور یہ میرا اپنا خیال ہے ضروری نہیں کہ کراچی کے شعراء میرے اس خیال سے متفق بھی ہوں۔
سوال: کراچی کے سیاسی وسماجی حالات اکثر و بیشتر تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔یہ ادب پر کس حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔؟
جواب : ایک کراچی ہی کیا پورے ملک کے سیاسی و سماجی حالات اکثر وبیشتر تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔ ہاں ماضی میں جب ایک لسانی گروپ کا کراچی پر قبضہ تھا تو حالات بہت ناتفتہ بہ تھے ،اس وقت کہاں کی رباعی اور کہاں کی غزل والی کیفیت تھی ، کچھ نوجوان اور بزرگ شعراء نے بھی اپنی شاعری میں اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی مگر بہت مدہم لہجے میں ۔کراچی کا آشوب بھی لکھا گیا ،مرثیہ بھی اور اس وقت کے ظلم کی داستان بھی مگر دبے دبے لفظوں میں ۔ہاں وہ دور گزر جانے کے بعد سب شعراء کی قوت گویائی بڑھ گئی اور پھر کراچی کی شاعری میں ایک نیا روپ سامنے آیا اور پھر بہت جلد حالات کے ساتھ ختم بھی ہو گیا ۔ ادب پر ایسے واقعات و حادثات کا کوئی بہت بڑا اثر نہیں ہوا کہ اردو شاعری میں کسی نئے اسلوب کا اضافہ ہوا ہو ۔ بالکل ایسی طرح جیسے کسی تھانے میں کسی مجرم پر پولیس کے تشدد پر تھانے کے اندر سے آہ و بقا اور چیخ و پکار کی آوازیں بلند ہوتی ہیں ،تھوڑی دیر کے لیے ماحول خوف زدہ ہوجاتا ہے اور پھر سناٹا چھا جاتا ہے اور حالات میں ٹھہرائو آجاتا ہے۔
سوال: کراچی اور لاہور ادب کے مراکز رہے آج بھی ہیں آنے والے کل بھی ہوں گے مگر……کراچی کی ادبی رونقیں لاہور کے مقابلے میں کچھ ماند پڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔ایسا آخر کیوں۔؟
ؔجواب : کراچی کی رونقیں کبھی ماند نہیں پڑی مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ لاہور کی ادبی و شعر ی فضا ہمیشہ ثمر بار رہی اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ لاہور کے اطراف بے شمار شہر ہیں جہاں کے شعراء و ادبا لاہور آتے جاتے ہیں، لاہورمیں کوئی بھی ادبی محفل منعقد ہو تو اطراف لاہور سے بے شمار شعراء پہنچ جاتے ہیں۔ یوں لاہور کی ادبی محفلوں میں ہمیشہ شباب رہتا ہے اس کے مقابلے میں کراچی کے اطراف میں ایک طرف سمندر ہے، دوسری طرف بلوچستان تیسری طرف ایک شہر ہے حیدرآباد جہاں شعر و ادب کی محفلیں ماضی میں بہت ہوتی تھیں مگر فاصلہ ہونے کی وجہ سے کراچی یا حیدرآباد کے شعراء محفلوں میں بہت کم یکجاہوئے ہیں۔ دونوں شہر کے شعراء اپنے اپنے شہروں ہی میں محفلیں سجا کر اپنا دل بہلا لیتے ہیں۔ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ کراچی کی رونقیں ماند پڑ رہی ہیں جبکہ آج بھی کراچی میں ہفتہ وار ، ماہ وار مشاعرے باقاعدگی سے ہوتے ہیں، ادبی محفلیں سجتی ہیں نظر یوں نہیں آتی کہ کراچی جو ایک میگا سٹی بن چکا ہے ، ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا اب آسان نہیں رہا ، اس لیے وہ محفلیں زیادہ تر اپنے حلقہ تک ہی محدود رہتی ہیں پھر ماضی میں اخبارات کے ذریعے مشاعروں کی تشہیر ہوتی تھی، ہر اخبار میں ایک ادبی صفحہ ہوتا تھا جس میں شعراء کا کلام ، افسانہ ، انٹرویو اور نئی کتابوں کے تعارف کے ساتھ ساتھ شہر بھر میں ہونے والی ادبی تقریبات کی باتصویر خبریں بھی لگتی تھیں، اب اخبارات میں ادبی صفحہ سرے سے ختم ہو چکا ہے تو خود کراچی والوں کو کراچی کے اخبارات سے ان ادبی سرگرمیوں کی کوئی خبر نہیں ملتی ۔
سوال: آج کل کراچی میں شاعری اور نثر میں کن جدید اصناف کو زیادہ برتنے کا رجحان ہے۔؟
ؔجواب : ماضی میں جاپان کونسل نے ہائیکو اور سین ریو کو متعارف کرایا تو کراچی کے شعراء اس پر ٹوٹ پڑے ،ان کا شوق دیکھتے ہوئے جاپان کونسل نے ہر سال کراچی کے بزرگ اور نوجوان شعراء کو اپنے بائیکو اور سین ریو مشاعرے میں مدعو کرنا شروع کیا مگر اب اس پر بھی گرد جم گئی ہے۔ ماہیا ،ٹپہ، ثلاثی ، سانیٹ وغیرہ ملکی اور غیر ملکی اصناف پر ماضی میں کچھ کہا گیا ۔میں نے ماضی میں ہائیکو پر ایک سہ ماہی رسالہ ’’ہائیکو ورلڈ ‘‘ نکالا اور ماہیے پر ایک سہ ماہی’’ماہیا روپ‘‘ مگر صرف دو ،دو شمارے ان رسالوں کے نکلے کیونکہ انہی دونوں شماروں میں دونوں اصناف پر سیر حاصل مضامین تھے بعد میں لکھنے والوں کے پاس بھی لکھنے کے لیے کچھ نہیں رہا تو مجھے بھی رسالے بند کرنے پڑے ۔مگر اب یہ صنف بھی آرام کی نیند سو رہی ہے ۔ جدید اصناف فی الحال کوئی نہیں ہے ، اس لیے سب پرانی اصناف سے ہی کام چلا رہے ہیں۔ نثری نظم کا زور تھا اور ہے ، کیونکہ یہ اتنی آسان صنف ہے کہ ایک میٹرک کا بچہ بھی جس میں اردو کی تھوڑی بہت صلاحیت ہے بے وزن اور بے بحر سطروں پر مشتمل نثری نظم کہہ سکتا ہے اور اس پر داد بھی حاصل کرسکتا ہے ۔ خصوصاً کراچی میں لڑکیاں اور کچھ عورتیں اور کچھ مرد بھی نثری نظموں کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں کہ اس میں کوئی قدغن نہیں ہے اس کی گرفت نہیں ہے اور اس کی حدود نہیں ہے ۔ان کے دھڑا دھڑ مجموعے بھی چھپ رہے ہیں اور ان پر ناقد اور ادیب مضامین بھی لکھ رہے ہیں، ان کی تقریب رونمائی بھی ہو رہی ہے اور ان کے اس ’’احسن عمل‘‘ کو سر محفل سراہا بھی جا رہا ہے ۔
سوال: کراچی کے تخلیقی ادب میں سمندر کو کہاں تک برتاجارہا ہے۔؟
ؔجواب : کہتے ہیں نا کہ گھر کی مرغی دال برابر، یہی حال ان تمام شہروں کا ہے جس شہر میں کوئی قابل ذکر مقام ہے جس کو دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ وہاں آتے ہیں مگر وہاں کے رہنے والے برسوں اس عجوبہ یا مقام کو دیکھنے نہیں جاتے کہ اپنے گھر میں ہے کسی بھی وقت چلے جائیں گے۔ یہی حال کراچی کا ہے ، کراچی کے سمندر کو دیکھنے پورے پاکستان اور آزاد کشمیر سے لوگ ذوق و شوق سے آتے ہیں مگر کراچی والوں کو سمندر دیکھے برسوں گزر گئے ، کراچی کے ساحل پر جو لوگوں کا اژدہام نظر آتا ہے وہ بیرون کراچی کے لوگ ہیں جو یا تو کراچی میں بسلسلہ روزگار مقیم ہیں یا پھر خاص طور پر سمندر دیکھنے آئے ہیں۔ اس لیے کراچی کے تخلیقی ادب میں سمندر کو بطور خاص نہیں برتا جاتا ہے، کسی وجہ سے ان کی تخلیق میں سمندر آجائے تو کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے ۔
سوال: آپ پبلشر بھی ہیں۔ ایک پبلشر کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ قارئین کو آگاہ کریں۔؟
ؔؔجواب : میں پیشہ ور پبلشر نہیں ہوں، یہ کام میں شوقیہ کرتا ہوں کہ اب میرے پاس کرنے کو کچھ بھی نہیں ہے ۔ ابتدا میں میرے چند بزرگ نے اپنی کتابیں مجھے چھاپنے کے لیے دی اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا تو میں پبلشر بن گیا ،چونکہ خود تخلیق کار ہوں اس لیے کتابوں اور رسالوں کی اشاعت میں اپنی تخلیقی صلاحیت بھی استعمال کرتا ہوں اور یوں میرے احباب میرے کام سے بہت خوش ہوتے ہیں،مگر میں باقاعدہ پبلشر نہیں ہوں ۔ پبلشر کی کیا ذمہ داریاں ہیں یہ بہت طویل فہرست ہے جس کے ایک شق پر بھی کوئی پبلشر عمل نہیں کرتا اس لیے اس کا ذکر کر کے میں اپنے دشمنوں میں بے پناہ اضافہ کرنا نہیں چاہتا،یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر پبلشر ہی بُرا ہوتا ہے مگر اچھا پبلشر جس سے مصنف کو ذہنی ، مالی اور جسمانی سکون و راحت ملے ،ہزار میں سے ایک نکلے گا ۔قارئین کو جب کتاب کے چھپنے کے مسائل سے کوئی آگاہی ہی نہیں ہے تو انھیں خوامخواہ میں کیوں اذیت میں مبتلا کیا جائے ۔
سوال: آپ کا کوئی ایسا شعر جو وجہ شہرت بنا ہو۔؟
جواب : 1985ء میں کراچی کے نوجوان شعراء کے درمیان امریکن کلچرل سوسائٹی نے ایک شعری مقابلہ کرایا ،میں بھی اتفاق سے اس میں شریک تھا ، 192شعراء میں میری غزل کو پہلا انعام ملا ۔ اس غزل کا ایک شعر مقابلے کے دو ججوں ڈاکٹر ابوالخیر کشفی صاحب، پروین شاکر کو بے حد پسند آیا وہ یہ ہے جو بعد میں میری شناخت بھی بنا ۔
میرا ہر بچہ آئینہ میرا
کتنے چہروں میں بٹ گیا ہوں میں
سوال: سوشل میڈیا کے ادب پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔؟
جواب : سوشل میڈیا کے ادب پر کیا پوری زندگی پر کوئی خوش گوار اثرات مرتب نہیں ہوئے ہیں کہ سوشل میڈیا اب ہر ایک کی دسترس میں ہے اور اس کی وجہ سے مثبت کم اور منفی ادب کی بہت زیادہ نمائش ہو رہی ہے ۔ اقبال اور احمد فراز کے خود ساختہ اشعار سے سوشل میڈیا بھرا ہوا ہے۔ جھوٹ کو اس قدر طاقت سے سچ ثابت کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ تو انسان گڑبڑا جاتا ہے ۔ ادب میں اب دو نمبری نہیں تین اور چار نمبری تخلیقات سوشل میڈیا کے ذریعے عام ہو رہی ہیں۔تشہیر اس قدر اور اتنی آسانی سے اپنے ہاتھوں سے ہو رہی ہے کہ پتہ نہیں چلتا کہ ہم اپنی تشہیر کر رہے ہیں یا اپنی بدنامی ۔اسی سوشل میڈیا کے ذریعے اب ناقد، تخلیق کار، محقق اور تبصرہ نگار وافر مقدار میں نظر آتے ہیں جن کو ادب کی ایف بے سے بھی واقفیت نہیں ہے ۔ ایسی صورت میں سوشل میڈیا کے ادب پر کیسے اثرات مرتب ہو رہے ہیں ، اس کا اظہار ممکن ہے؟
مقبول ذکی مقبول
بھکر، پنجاب، پاکستان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔