ڈاکٹر طارق محمود آکاش صاحب
انٹرویو بسلسلہ ادبی شخصیات سیالکوٹ
انٹرویو کنندہ : مقبول ذکی مقبول ، بھکر پنجاب پاکستان
ڈاکٹر طارق محمود آکاش صاحب کا تعلق علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کے شہر سیالکوٹ سے ہے ۔ خاندانی نام طارق محمود جب کہ قلمی نام طارق محمود آکاش ہے ۔ ان کا آبائی گاؤں ترگڑی شریف ہے ۔
ان کے والد صاحب کا نام ڈاکٹر حاجی عبد الرشید ہے ۔ ڈاکٹر طارق محمود آکاش صاحب کی تاریخ پیدائش 5 دسمبر 1980ء ہے ۔
چند روز قبل ڈاکٹر طارق محمود آکاش صاحب سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے جو علمی و ادبی گفتگو ہوئی ہے وہ نذر قارئین ہے ۔
سوال : آپ ادب کی جانب کیسے راغب ہوئے ۔؟
جواب : مجھے ادب کی جانب لانے کا سہرا ۔ جانی پہچانی شخصیت پنجابی ادب کا بہت بڑا نام محترم عاشق علی فیصل کے سر ہے ۔
انہوں نے مجھے اپنے گاؤں کی تاریخ مرتب کرنے کا ٹارگٹ دیا ۔ جیسے میں نے مکمل کیا ۔ بعد میں انہوں نے مجھے ایک لوکل اخبار ” صدائے عام” میں ہفت روزہ کالم لکھنے کا کام سونپا ۔ یہ 1996ء کی بات ہے ۔ پھر میں ” رویل” جنت ” مٹی” کوک "میں لکھتا رہا ۔ اور ڈائجسٹ کی دنیا میں میں نے 2009ء میں قدم رکھا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔
سوال : آپ کا ادبی سفر کن کن مشکلات کا شکار رہا ۔؟
جواب : میں ابھی میٹرک میں تھا تو ادبی شخصیات سے میل ملاقات کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ جس کا فائدہ یہ ہوا کہ میری تحریریں ان کے پاس جمع ہوتی رہیں ۔ جو مختلف جگہوں پر چھپتی رہیں ۔ جس سے میری کافی حوصلہ افزائی ہوتی رہی ۔
سوال : آپ کی تصانیف ۔؟
جواب : 2018ء میں میری کتاب” پیار کی برکھا ” طلوعِ اشک پبلی کیشنز کی طرف سے شائع ہوئی ۔
پھر 2019ء میں” میں پانی ہوں ” اور 2020ء میں "تڑپ اک خواب کی” جیسے افسانوں کے مجموعے شائع ہوئے ۔
سوال : آپ نے سرکاری ملازمت کیوں نہیں کی ۔؟
جواب : 2001ء میں میں نے جیسے ہی میڈیکل کلیئر کیا تو اپنا ذاتی کلینک بنا لیا ۔ میرے والد محترم ایک تجربہ کار سینئر ڈاکٹر ہیں ۔ ان ہی کی گائیڈ لائن کی بدولت آج الحمدللہ میں ایک کامیاب لائف گزار رہا ہوں ۔
سوال : عہد حاضر میں آپ کس سے متاثر ہیں ۔ ؟
جواب : دنیا میں کوئی بھی ہستی سرکار مدینہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے علاوہ مکمل نہیں ہر ایک میں کوئی نہ کوئی کمی ضرور ہے ۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ اللّٰہ پاک اور اس کے رسول پاک صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے بتائے ہوئے اصولوں پر زندگی گزاری جائے ۔ ویسے میں اپنے والد محترم ڈاکٹر حاجی عبد الرشید سے بے حد متاثر ہوں ۔
سوال : آپ ” بزمِ زوق ادب ” کے صدر ہیں ۔ اس بزم کے منشور کیا کیا ہیں ۔؟
جواب : بزمِ ذوق ادب کا یہ مشن ہے کہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ پرانے لکھنے والے ساتھیوں کی بھی قدر کی جائے کیوں کہ ہمارے ملک میں زندہ لوگوں کو بھلا دیا جاتا ہے اور دنیا سے چلے جانے کے بعد انہیں ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے ۔
سوال : آپ عوام کے لئے مسیحا اور افسانہ نگار ہیں ۔ آپ کو زیادہ خوشی کس کام سے ہوئی ۔ ؟
جواب : میرے پاس جب بھی کوئی مریض آتا ہے ۔ میں مالک دو جہاں کے آگے رو رو کر گڑ گڑا کر التجا کرتا ہوں کہ مولا تو ہی اسے شفا دینے والا ہے اور وہ مالک مجھے مایوس نہیں کرتا ۔ مجھے اپنے کام میں بے حد خوشی اور سکون ملتا ہے ۔ اور گرد پھیلی کہانیوں کو لکھ کر دوسروں کو یہ سبق دینا میرا مشن ہے کہ زندگی بہت تھوڑی ہے ۔ آپ کی رنجشیں ختم کر کے پیار کو فروغ دیں ۔
سوال : ادیبوں ، قلم کاروں ، شعراء کی عزت افزائی آپ ایوارڈز کے ذریعے کر رہے ہیں ۔ اس سلسلے کا محرک کیا ہے ۔ ؟
جواب : ایوارڈ رائٹر کیلئے بہت بڑا اعزاز ہوتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک رائٹر کےلئے اس کی حوصلہ افزائی کے لئے ایسا پلیٹ فارم ہونا چاہیے کہ اسے اعزازات کے ساتھ ساتھ مالی سپورٹ بھی ملے ۔ تاکہ وہ بھرے ہوئے پیٹ کے ساتھ ادب کی خدمت کر سکیں ۔ وگرنہ ادب بہت کم پروان چڑھ پائے گا ۔
سوال : آپ کے اعزازات ۔؟
جواب : قارئین کی پسندیدگی اور حوصلہ افزائی ہی میرا سب سے بڑا اعزاز ہے ۔ ویسے مجھے 2012ء سے 2016ء تک مسلسل ریشم ڈائجسٹ کی جانب سے ایوارڈز ملے ہیں ۔
2017ء سچی کہانیاں ، کراچی
2018ء تا 2021ء تک آزاد نقیبی ایوارڈ ، فیصل آباد
2018ء مشتاق قریشی ادبی ایوارڈ ، جڑانوالہ
2019ء تا 2022ء تک بھیل ادبی ایوارڈ ، ننکانہ صاحب
2020ء ایم ایل ایوارڈ ، بورے والا
2021ء حسن کارکردگی ایوارڈ ، گوجرانولہ
2021ء کارخیر ادبی ایوارڈ ، گوجرانولہ
2022ء خوشبوئے نعت ایوارڈ ، سرگودھا
2022ء بزمِ مولا شاہ ایوارڈ ، لاہور
2022ء سائیں حیات پسرور ایوارڈ ، پسرور (سیالکوٹ)
اور الہٰی بخش لیکھی فقیر ادبی ایوارڈ 2023ء
منجانب بزمِ اوج ادب بھکر
سوال : ادب کے حوالے سے آپ کی رائے ۔؟
جواب : ماشاءاللہ اچھا ادب تخلیق ہو رہا ہے کہ ہر دور میں مزاج مختلف ہوتے ہیں ۔ سوشل میڈیا کا دور ہے ۔ لوگوں کے پاس ٹائم کا فقدان ہے ۔ لوگ اپنی فیملی کو زیادہ ٹائم دینے کی بجائے موبائل کے ساتھ وقت گزارتے ہیں ۔ جس سے ایک دوسرے کے احساسات جذبات سمجھنے میں مشکلات آرہی ہیں ۔ اختلافات بڑھ رہے ہیں ۔ آج بھی اچھا لکھنے والے اور کتاب سے محبت کرنے والے موجود ہیں ۔ میں تو کتابی بندہ ہوں ۔ کتاب میرا بہترین ساتھی ہے ۔ میرا زیادہ وقت کتابوں کے ساتھ گزر تا ہے ۔ میرا اور کاغذ قلم کا یہ ساتھ ہمیشہ رہے گا ۔ جب تک سانس چل رہی ہے ۔ قلم چلتا رہے گا
مقبول ذکی مقبول
بھکر، پنجاب، پاکستان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔