از قلم
بینش احمد پاکستان(اٹک)
ٹیکنالوجی زندگی کے دیگر شعبوں کے لیے ہی آسانیاں نہیں لائی، بلکہ اس نے محبتوں کو بھی بہت آسان کردیا ہے لیکن محبتوں کی یہ آسانی کسی کے لیے جان کا عذاب بن کر نازل ہوئی تھی-اِسی عذاب کا شکار حنا بھی ہوئی تھی- محبت کے اِس ڈیجیٹل دور میں وہ بھی ایک لڑکے کے پیار میں گرفتار ہو گئی تھی-علی اُس کی دوست کا کزن تھا جس سے حنا کی دوستی فیس بُک پر ہوئی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ دوستی محبت میں بدل گئی- پھر ایک ایسا دِن آیا جب محبت ہار گئی تھی-
” حنا آج رات مجھے ریسٹورنٹ میں ملو ایڈریس میسیج کر دوں گا-“ علی حنا کو کال پرتحکمانہ لہجے میں بولا-”لیکن میں کیسے آ سکتی ہوں علی وہ بھی رات کے وقت اور اکیلے، میں ایسا ہرگز نہیں کر سکتی -“ حنا التجائیہ لہجے میں بولی- علی اُس کی بات سُن کر غصے سے بولا:
” میرا دماغ پہلے ہی آج بہت خراب ہے مزید خراب نہ کرو چپ چاپ آ جانا ورنہ تمہاری ساری تصویریں سوشل میڈیا پہ اپلوڈ کر دوں گا نتائج کی ذمہ دار تم خود ہو گی-“اِس کے ساتھ ہی کال کٹ گئی اور حنا کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح زمین پر گری تھی وہ ایک دم خاموش ہو گئی تھی جیسے اُس کے بولنے کی صلاحیت ہی مفلوج ہو گئی ہو- اُس کی نظریں بالکل ساکت تھی- وہ زمین پہ پڑے اپنے فون کو دیکھے جا رہی تھی وہ فون جو اُس کے ابو نے اُس کو پڑھائی کے لئے خرید کر دیا تھا لیکن اُس نے کیا ِکیا، اُس نے فون کا غلط استعمال کیا تھا- وہ بیچاری محبت کے جھانسے میں پھنس گئی تھی-
عصر کا وقت ہو رہا تھا- حنا نماز کی نیت سے اُٹھی وضو کر کے آئی اور جائے نماز بچھا کر نماز ادا کرنے لگی- دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا ئے تو پھر سے گود میں گرا دیے، اُس کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا دُعا مانگے بس اُس کے آنسو تھے جو بہتے ہی چلے جا رہے تھے- اچانک اُس کا فون بجا- دوسری جانب اُس کی دوست تھی-
حنا! علی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے- گاڑی میں آگ لگنے کی وجہ سے علی اور اُس کی گاڑی جل کر راکھ ہو گئے ہیں-حنا “یہ خبر” سنتے ہی ایک بار پھر سے زمین پہ گری تھی- اب کی بار وہ دھاڑیں مار مار کر روئی تھی- جانے یہ آنسو اپنی عزت کے بچ جانے کی خوشی میں تھے یا اپنی محبت کے ماتم پر تھے- لیکن جو بھی تھا زندگی کے اِک تلخ باب کا اختتام ہو چکا تھا-
ختم شد۔۔۔۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔