ہوس کا ڈول
ایک نوجوان ایک صوفی فقیر کے پاس گیا اور پوچھا کہ میری خواہشات کیسے پوری ہوں گی؟ آپ میری رہنمائی کریں اور اس کا حل بتائیں۔
فقیر نے ایک ڈول اٹھایا اور کہا میں کنویں سے پانی لینے جا رہا ہوں۔ تم میرے ساتھ چلو وہیں تمہیں اس بات کا جواب مل جائیگا۔ وہ نوجوان حیران ہوا اور سوچا یہ کیسی تعلیم ہے جس کے لیے کنویں پر جانا پڑتا ہے۔ بہرحال وہ فقیر کے ساتھ چلنے لگا۔ اُس نے محسوس کیا کہ فقیر کی آنکھیں سرخ اور نشیلی ہیں اور وہ لڑکھڑا رہا ہے۔ وہ ڈرا اور سوچنے لگا یہ فقیر کہیں مجھے کنویں میں دھکا نہ دیدے یا خود ہی نہ کنویں میں گر جائے اور الزام میرے سر آجائے۔ لیکن وہ یہ بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ کنویں پر جواب کیسے ملے گا۔
جب وہ کنویں پر پہنچے تو فقیر نے ڈول کنویں میں ڈالا ، تب نوجوان نے دیکھا کہ ڈول کا پیندا ہی نہیں۔ جب فقیر نے ڈول کنویں میں ڈالا تو شپ کی آواز آئی ، ڈول ڈوبا اور فوراً بھر گیا کیونکہ پیندا جو نہیں تھا۔ فقیر نے باہر کھینچا تو ڈول خالی، فقیر نے کہا اوہو خالی نکل آیا پھر بھرتا ہوں ۔ جب ایسا کئی بار ہوا تو نوجوان نے کہا اے فقیر میں تو آپ سے علم حاصل کرنے آیا تھا لیکن آپ کو خود سیکھنے کی ضرورت ہے یا پھر آپ پاگل ہیں۔ یہ کہہ کر وہ چلنے لگا۔
فقیر نے کہا برخوردار جواب تو سنتے جاؤ۔ جب تم ضروریات کو خواہشات میں بدل دیتے ہو تو پھر وہ ہوس کا روپ دھار لیتی ہیں۔ اور ہوس کے ڈول کا پیندا نہیں ہوتا یہ کبھی بھر نہیں سکتا۔
فارسی ادب سے انتخاب
— سخنان و حکایات عارفانہ
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔