سہیل احمد صدیقی کی کتاب ”زبان فہمی” کا سرسری تجزیہ
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
(ورلڈ ریکارڈ ہولڈر)
[email protected]
ان دِنوں میں،سہیل احمد صدیقی کی کتاب ”زبان فہمی” مطالعہ کررہا ہوں جو اُردو زبان کی درست ادائی کے لیے کسی مستند استاد سے کم نہیں۔ میری مادری زبان کھوار ہے جو چترال، مٹلتان کلام سوات اور گلگت بلتستان میں بولی جاتی ہے۔ اردو رابطے کی زبان کے طور پر چترال میں بھی بولی جاتی ہے۔ اس تحقیقی کتاب میں اردو زبان و بیان، اس کے ارتقائی پہلوؤں، روزمرہ کے مسائل، اور عوامی و ادبی رویوں کے تناظر میں سہیل احمد صدیقی نے اہم اور دلچسپ تجزیہ پیش کیاہے۔
کتاب پر تبصرے سے پہلے مناسب بلکہ ضروری ہے کہ ناواقفین کو مصنف کے تعارف سے آگاہ کیا جائے۔ سہیل احمدصدیقی عصرِحاضرمیں اُرد و دُنیا کے ایسے منفرد اور نمایاں ستارے ہیں جنھیں بہ یک وقت شعبہ تدریس،شعبہ ادب (نظم ونثروتراجم)، شعبہ صحافت (اردو اور اِنگریزی)، شعبہ نشریات اور شعبہ تشہیرمیں کثیرلسانی صلاحیت کے ماہرانہ اظہار کا طویل تجربہ ہے۔وہ مادری زبان اُردو کے علاوہ انگریزی، فرینچ، فارسی اور سندھی سے واقف ہیں ;چاروں زبانوں سے اردومیں اور اُردو سے انگریزی وفرینچ میں ترجمہ کرچکے ہیں، جبکہ بول چال کی حد تک پنجابی سے شُدھ بُدھ کے علاوہ دنیا کی کئی زبانیں اندازے سے پڑھ سکتے ہیں۔اُن کے کریڈٹ پر گیارہ مطبوعہ کُتب (بشمول انگریزی) اور کوئی ساڑھے آٹھ سو کے لگ بھگ نگارشات ہیں۔سہیل نیشنل لائبریری آف پوئٹری،امریکا کے شایع کردہ، آزاد اِنگریزی شاعری کے تین انتہائی عظیم وضخیم عالمی انتخابات میں شامل ہونے والے واحد پاکستانی اُردو شاعر ہیں، جبکہ ورلڈ ہائیکوکلب، برطانیہ کے عالمی انتخاب ِ ہائیکو (انگریزی) میں شمولیت بھی اُن کا منفرد اعزاز ہے۔انھوں نے ریڈیو اور ٹیلیوژن کی دنیامیں پہلے بطورماہرِ معلومات ِ عامّہ دھوم مچائی، اور پھر بطور محقق ومصنف۔پی ٹی وی کے انتہائی مقبول اسٹیج /کوئز شو ’نیلام گھر‘ میں 1987ء میں کار کا اِنعام جیتا جو اُس وقت پورے ایشیا کا سب سے بڑا انعام تھا،(دیگر انعامات کی تفصیل اُس پر مستزاد)، پھر اُنھوں نے ہر شعبے کی طرح بطور ٹی وی کوئز ماسٹر ’مشعل کوئز‘ پیش کرکے کئی عالمی ریکارڈ اپنے نام کیے۔سہیل صاحب پاکستان ٹیلیوژن سے یکم جنوری 1993ء سے بطور A-categoryمصنف ومحقق منسلک ہیں، جبکہ 2004ء سے ریڈیوپاکستان کے مختلف ایف ایم چینلز سے وابستہ ہیں اور وہاں اُن کا درجہ AAہے۔نجی ٹیلیوژن چینلز میں کام کا تجربہ مستزاد ہے۔
یہ کتاب اردو زبان کے مختلف پہلوؤں پر مصنف کے گہرے تحقیقی مشاہدے کا نتیجہ ہے، جس میں روزمرہ کی گفتگو، ادبی اظہار، اور اردو زبان کی بڑھتی ہوئی وسعت و تغیر کو منفرد انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
اس کتاب میں شامل موضوعات نہایت متنوع اور دلچسپ ہیں مثلاً:
”اردو تو ہے ہی لشکری زبان!” میں اردو کے تاریخی پس منظر اور اس کی ساخت پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
”کیا یہ اردو ہے؟” میں روزمرہ کے محاورات اور تلفظ میں دَر آنے والی غلطیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
”اسلام علیکم، و علیکم السلام” جیسے موضوعات معاشرتی رویوں اور عام گفتگو کی تبدیلیوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ لوگ غلط سلام کرتے ہیں درست تلفظ السلام علیکم ہے۔
یہ مضامین نہ صرف زبان کی موجودہ حالت پر سوال اٹھاتے ہیں بلکہ قاری کو اُردو کے اصل حسن اور تقاضوں کی یاد دہانی بھی کراتے ہیں۔
سہیل احمد صدیقی کے مضامین میں طنز و مزاح کا خاص رنگ بھی جھلکتا ہے، جو قاری کو زبان کے مسائل کی گہرائی کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ محظوظ بھی کرتا ہے۔ مثلاً:
”چلو تیاری پکڑو!” میں مصنف نے زبان کے غیر رسمی اور دلچسپ پہلوؤں کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔
”مردُم شماری” جیسے عنوانات زبان کے حوالے سے معاشرتی رویوں پر طنز ہیں۔
زبان کی جدیدیت کے ساتھ ساتھ روایات کے تصادم پر بھی بات کی گئی ہے۔ مصنف نے کئی مقامات پر زبان کی جدیدیت اور روایتی اردو کے مابین کشمکش پیش کی ہے، جیسے:
”باورچی خانہ یا Kitchen؟” میں زبان میں غیر ملکی الفاظ کے بڑھتے استعمال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
”لاک ڈاؤن، اسموگ اور نواس داماد” میں عالمی رجحانات کا اردو زبان پرہونے والا اثر بیان کیا گیا ہے۔
کتاب میں ادبی زبان اور روزمرہ کی گفتگو کے درمیان موجود فرق اور تضادات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے، مثلاً:
”نام میں کیا رکھا ہے؟” اور ”الف تو ہوتا ہی ٹیڑھا ہے” جیسے مضامین زبان کی لطافت اور نزاکت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
”ما حولی یا ما حولیاتی” میں سائنسی زبان کی اردو میں ترجمے کی مشکلات پر بحث کی گئی ہے۔
کتاب کے کئی مضامین زبان اور معاشرتی رویوں کاباہمی تعلق بیان کرتے ہیں، جیسے:
”محَبَت کہیے، محَبَت” میں محبت جیسا لطیف جذبہ، زبان کے اختلافِ تلفظ کے ذریعے بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
”جگ ہنسائی” میں زبان کے غلط استعمال سے پیدا ہونے والے مسائل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
سہیل احمد صدیقی کا اندازِ تحریر سادہ، دلکش اور قاری کو متأثر کرنے والا ہے۔ ان کے الفاظ کا انتخاب اور جملوں کی ترتیب موضوع کے ساتھ انصاف پر مبنی ہے۔ طنز و مزاح کے ساتھ ساتھ گہرائی اور سنجیدگی کا امتزاج کتاب کو منفرد بناتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ”زبان فہمی” ایک ایسی کتاب ہے جو اردو زبان سے محبت کرنے والوں کے لیے سہیل احمد صدیقی کی طرف سے ایک قیمتی تحفہ ہے۔ یہ کتاب نہ صرف اردو زبان کے مسائل اُجاگر کرتی ہے،بلکہ قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی زبان سے کس حد تک انصاف کر رہا ہے۔ اُردو زبان و ادب کے طلبہ، محققین، ماہرین لسانیات اور عام قارئین کویہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے تاکہ زبان کی اہمیت اور اس کے مختلف پہلوؤں کو بخوبی سمجھا جا سکے
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔