گاہ پوھاڑا اور کھلواڑہ
جب گندم پک جاتی تو اس موسم میں کسان سونے کی بارش بھی نہیں مانگتا کیونکہ اگر بارش ہو گئی تو گندم گیلی ہو جائے گی اب اسکو گاھنے یا تھریشر میں ڈالنے کے لیے مکمل طور پر خشک کرنا ہو گا جسکے لیے پھر کئی دن انتظار کرنا پڑے گا
گاؤں کی آبادی سے باہر گول دائرے کی شکل میں پختہ زمین کو کھلواڑا کہا جاتا تھا ۔جیسے ہی گندم کی فصل نسر جاتی اس کا رنگ بھورا ہونے لگتا ،تو گاؤں کے بزرگ کھلواڑے کو صاف کرنے میں مگن ہو جاتے ۔کھلواڑا بناتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا کہ کھلواڑا ایسی جگہ بنایا جائے جو قدرے اونچی اور هموار جگہ ہو۔
کھلواڑے پر کٹی ہوئی گندم کو ایک مخصوص انداز سے اکٹھا کیا جاتا جسے "پسا” کہا جاتا ۔اس طرح ایک تو بارش کی صورت میں فصل کم سے کم گیلی ہوتی دوسرا فصل جگہ بھی کم گھیرتی۔
گندم گہائی بڑے شوق سے کی جاتی اور چھوٹے بچے بڑی خوشی سے گرد و غبار سے بے نیاز ہو کر حصہ لیتے تھے۔
گاھی کے لئے کسان فصل کو کھلواڑے پر پھیلا دیتے اور اسکے اوپر بیل چلاتے تھے ۔ بیل ایک دائرہ میں چلتے ھوئے کٹی گندم کو روندتے۔ بیلوں کے سموں سے دانے خول سے باہر نکلتے تھے۔
درختوں سے شاخیں ( ڈھنگر)کاٹ کر انکو اکٹھا کرکے باندھ لیتےاب وہ ایک وزنی بنڈل سا بن جاتا تھا اور پھر اسے بیلوں کے پیچھے باندھ کر کٹی ہوئی گندم پر چڑھ دوڑتے ۔ ڈِھنگر کی کارکردگی بڑھانے کے لئے اس پر گندم کی گڈیاں بطور بوجھ رکھ دیتے بیلوں کی جوڑیاں اور کسان بدلتے رہتے اور یہ کام کئی دن جاری رہتا۔
ترینگل کیساتھ اس روندی ہوئ گندم کو ہوا میں اچھالا جاتا۔اس عمل کو دھڑ اُڑانا کہا جاتا تھا۔ گندم بھاری ہوکر سیدھی نیچے گر جاتی اور بھوسہ ہلکا ہونے کے سبب اڑ کر تھوڑی دور گر جاتا۔ دھڑ اڑانے کے لئے مناسب ہوا چلنے کا انتظار کیا جاتا تھا۔
گندم گہائی کے بعد ناپ کا عمل ہوتا ۔اس کے لئے ایک مخصوص پیمانہ ہوتا ہے جسے "چہا ” کہا جاتا ہے جو لگ بھگ تین کلو کے برابرا ہوتا ہے ۔ چار چہا کا ایک ٹوپا اور تیرہ چہا کا ایک من بنایا جاتا ہے ۔بعض علاقوں میں "چھٹ ” کا رواج ہے ۔ایک چھٹ چھے من پر مشتمل ہوتی ہے ۔ ناپ کے وقت اونچی آواز میں بسم اللہ کا ورد ہوتا۔پہلے چہا پر کہتے بسم اللہ برکت ،دوسرے پر کہتے بسم اللہ دوآ ناپ کرنے کے لیے کسی سمجھدار بزرگ کو چنا جاتا ملھوالے اٹک میں ناپنے کو مِننا کہتے ھیں ۔ م کے نیچے زیر
کنک مِن دیو ،گندم ناپ دو۔
اناج گھروں میں لا کر کچھ دن سکھایا جاتا پھر مٹی سے بنے ڈرم نما برتن میں ذخیرہ کر لیا جاتا۔جسے کلوٹی / سکار / بھڑولا کہتے ہیں۔
(Punjabi Haystack)بھوسے کا پوھاڑا ۔..توڑی
ایک دوست کی فیملی جب لاہور موٹر وے پر سفر کرتی تو سینٹرل پنجاب کے کھیتوں میں "اُچّے ڈھیر” کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ ہر کھیت میں نظر آنے والی یہ کوئی بہت بڑی قبر ( نو گزی قبر ) ہے جو یا تو کسی بہت پہنچے ہوئے بابے کی ہے۔
اصل میں یہ گندم کی فصل کو Thresh کرنے (گاہنے) کے بعد جو بھوسا یا تُوڑی یا بَھوں بچ جاتی ہے، اسے مویشیوں کے چارے کے طور پر سارا سال استعمال کے لیے کھیت میں ہی جمع کر کے اوپر گیلی مٹی ڈال دی جاتی ہے۔سنڑل پنجاب اسے "دَھڑ” یا موسل کہا جاتا ہے۔ یا سلیس اردو میں تُوڑی کا ڈھیر۔
ملھوالہ اور اس کے مضافات ( آجو باجو) میں بھوسے کو بڑے سٹائلش انداز کون cone نما اور گنبد نما شکل دی جاتی ھے اور اس کو پوھاڑا کہتے ھیں ۔ چرپائیوں کو چوڑائی میں کھڑا کر کے دائرہ بنا کر اس میں بھوسا بھرا جاتا ھے پھر بھوسے کو لتاڑ کر پرہیس کرتے ھیں۔لڑکے بالے منہ پر ڈھاٹے باندھ کر بھوسہ کو لتاڑتے یہاں تک کہ سارا بھوسہ کمپریس ہو جاتا۔ اس کے بعد چارپائیاں کھڑی کر کےمزید بھوسہ بھرا جاتا ھے پھر اس گول پہاڑ کی کون نما چوٹی بنا کر صرف چوٹی کو مٹی سے لیپ دیتے ھیں ۔اور چارپائی ھٹا دیتے ھیں۔
بھوسے کا وزن اناج کے تقریباً برابر ہوتا ہے ۔ لیکن بھوسے کا volume زیادہ ھوتا ھے۔۔دس من گندم کا دس من بھوسہ ھوتا ھے جسے مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔توڑی کو جانوروں کے چارے، کچے مکانوں کی چھتوں, دیواروں اور صحن کی لپائی کے دوران استعمال کیا جاتا ہے۔ کاشت کار ضرورت کے مطابق بھوسے کو کھیت میں ہی "دھڑ” بنا کر محفوظ کر لیتے ہیں جو سارا سال بالخصوص موسمِ سرما میں چارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
اب توڑی کو کمرشل سکیل پر جدید مشینوں کے ذریعے چھوٹے گٹھوں کی شکل میں باندھا جاتا ہے۔یہ کام ہائیڈرالک پریس مشین سے ہوتا ہے۔ کاریگر بھوسے کو مشین میں ڈالتے ہیں اور مشین دباؤ کے ذریعے اس کی گانٹھ بنا دیتی ہے جنہیں محفوط رکھنے کے لیے ان پر سیلیں چڑھائی جاتی ہیں۔ ایک گانٹھ بیس سے چالیس کلو گرام تک کی ہو سکتی ہے۔
کچھ لوگ بھوسے کے لئے ایک خاص کمرہ بناتے ھیں ۔اس کی چھت کے سنٹر میں سوراخ ھوتا ھے۔کھلوان سے بھوسہ ترنگڑ میں ڈال کر کھوتی پر لادا جاتا ھے ۔ھر کھوتی کے ساتھ ایک اینیمل ٹرانسپورٹ ڈرائیور ھوتا ھے جو ترنگڑ کو سنبھالتا ھے۔
Animal Transport Driver.(AT Driver)
عام طور پر دس بارہ کھوتیوں کا قافلہ ھوتا ھے ۔ اس کے ساتھ ریسکیو 1122 والے دو تین لوگ ھوتے ھیں۔ غیر ہموار راستے کی وجہ سے ترنگڑ کھوتی سے سلپ slip ہوتا رہتا ھے ۔اس صورت میں ڈرائیور 1122 کو آواز دیتا ھے ۔ پہنچو۔۔ وہ بجلی کی تیزی سے بھاگ کر ترنگڑ کی پوزیشن ٹھیک کر دیتے ھیں۔1972 میں چھب نامی کھیت سے خالو اختر قاضی کے گھر تک 1122 میں تھا۔ مسلسل پہنچو کی آوازیں آتی رہیں۔اور میرا ایک کھوتی سے دوسری کی طرف بھاگ بھاگ کر برا حال ہوگیا۔ بھوسے کا ترنگڑ کھینچ کر بھوسے والے کمرے کے اوپر چڑھایا گیا اور چھت کےسوراخ سے اس کو ڈالا گیا۔ ساتھ ساتھ بچہ پارٹی کمرے کے اندر بھوسے پر اچھل کود کر اس کو پریس کرتی رہی۔
جب سارا بھوسا کمرے میں پہنچ گیا تو چھت والے سوراخ پر الٹا گھڑا رکھ کر اس کے اس پاس مٹی کا لیپ کر دیا گیا تاکہ بارش کا پانی کمرے میں نہ جائے۔
منگالی ونگار
گندم کٹائی ، گہائی اور بھوسا کھلیان ( کھلواڑے) سے گھر پہنچانے کےلئے زیادہ بندوں کی ضرورت ہوتی تھی۔اس کے لئے مزدور نہیں ملتے تھے بلکہ امداد باہمی کے اصول کے مطابق ایک دوسرے کا ہاتھ بٹایا جاتا تھا۔
ملھوالہ اٹک میں۔اس رضاکار پارٹی کو منگالی کہتے تھے ۔
منگالی کو چھچھ اٹک میں حشری کہتے ہیں۔
سنٹرل پنجاب میں اس کو ونگار کہتے ھیں۔
بیگار۔ کو ۔اٹک میں وگار کہتے ہیں۔ fatigue کا پنجابی ترجمہ ۔۔فٹیک۔ یا پھٹیک کا بھی یہی مطلب ھے۔۔ بلا اجرت / نہ چاہتے ہوئے کام کرنا (Forced Labor)۔
علاقہ چھچھ اٹک میں لیتر…Lay tar گندم یا کسی فصل کی کٹائی کو کہتے ہیں جو اپنے دوست یا رشتے دار مل فصل کاٹتے ہیں اس دن جس لیتر ھوتا وہ ان لوگوں کا خاص کھانے کا بندو بست کرتے ہیں جس میں دیسی گھی اور شکر ، لسی مکھن سے دوپہر کے وقت تواضع کی جاتی ہے اور رات کے کھانے میں دیسی گھی اور گڑ کا حلوہ پیش کیا جاتا ہے
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را
اس کا مطلب یہ ھے کہ پرانے زمانے میں شاعر حضرات بھی گاہ گاھتے دھڑ اڑاتے ، پہاڑے بناتے اور کنک کھوتیوں پر لاد کر گھر لے جاتے تھے۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔