زمین پر ‘بلیک ہول’ کی آمد اور ہمارے زندہ بچنے کا امکان؟

زمین پر ‘بلیک ہول’ کی آمد اور ہمارے زندہ بچنے کا امکان؟

dubai naama

زمین پر ‘بلیک ہول’ کی آمد، اور ہمارے زندہ بچنے کا امکان؟

انسانی زندگی کے مستقبل کو بچانے کے لئے یہ بات اہم ترین ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں یا اپنی انا اور تعصبات کا شکار ہو کر ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں، ہم دین اسلام کو ترقی کرنے کے لئے ایک نظام کے طور پر اپنا کر سائنس اور ٹیکنالوجی میں اپنی توانائیوں کی سرمایہ کاری کرتے ہیں یا دقیانوسی قسم کی روایات پر خود کو قائم کیئے رکھتے ہیں، ہم سیاسی، معاشی اور معاشرتی ‘نزاعات’ کو مل بیٹھ کر حل کرتے ہیں یا اختلافات اور دشمنی کا شکار ہو کر خود کو غیریقینی اور مایوسی کا شکار کرتے ہیں، ہم زندہ رہنے کے لئے ‘حسن’ اور ‘صحت و تندرستی’ سے بھرپور دوسرے ستاروں کی دریافت کرتے ہیں یا اسی زمین کی بڑھتی ہوئی ‘آلودگی’ میں سسک سسک کر اپنے آخری دم پورے کرتے ہیں، اور ہم ممکنہ حد تک پوری ‘بنی نوع انسانیت’ کو بچانے کے لئے دھن من تن کی بازی لگاتے ہیں یا صرف چند انسانوں کو بچانے کی جدوجہد کرتے ہیں۔

اس ضمن میں ہم نے جن ترجیحات کا تعین اگلے کم و بیش 200 سالوں میں کرنا ہے، انہی نے ایک ‘نوع’ کے طور پر ہماری زندگی کی تقدیر کو بنانے یا تباہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہے۔ کیا ہمارے پاس کوئی موقع ہے کہ ہم ایک سب سے بہترین مخلوق کے طور پر کسی طرح اپنے ‘مستقبل’ کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیں؟ اس سوال کا جواب ہے کہ ‘ممکن ہے’، اور یہ امکان بھی اسی صورت میں ہے کہ ہم زمینی مسائل سے اوپر اٹھ کر سوچیں اور منصوبہ بندی کریں کہ ہم نے متحد ہو کر ‘سماوی آفات’ کے خلاف کیا ردعمل دینا ہے، اور ان کا مقابلہ کیسے کرنا ہے؟ اگر تو ہم زہین، حکمت اور دانش والی نسل ہیں، ہم متحد ہیں اور تخلیقی دماغ رکھتے ہیں تو، انشاءاللہ ہم ‘محفوظ’ ہیں مگر ہم کند زہن، ضدی جاہل اور منقسم ہیں تو ہمارے پاس زمین پر زندہ رہنے کے لئے زیادہ سے زیادہ صرف یہی دو سو سال بچے ہیں۔

سائنس دانوں نے ایک بہت بڑے بلیک ہول (Black Hole) کا مشاہدہ کیا ہے جو بہت تیز رفتاری کے ساتھ زمین کی طرف آ رہا ہے۔بلیک ہولز کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ہر قوی سے قوی مادی چیز کو ہڑپ کر جاتے ہیں۔ حتی کہ 3 لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی تیزی سے سفر کرنے والی روشنی بھی بلیک ہول میں داخل ہو کر واپس نہیں پلٹ سکتی کیونکہ بلیک ہول کی گریوٹی بہت ہی زیادہ ہوتی ہے۔ سائنس دانوں نے پیش گوئی کی ہے کہ اس بلیک ہول کو زمین تک پہنچنے اور اسے اپنے احاطہ اثر (Event Horizon) کی زد میں لانے تک ابھی 200 سال کا وقت پڑا ہے۔ اس بلیک ہول کا زمین کی طرف آنا ‘ایک ڈراو’نا خواب’ (Nightmare) ہے کہ ابھی سائنس دان یہ معلوم نہیں کر سکے کہ اس بلیک ہول کے زمین تک پہنچنے کی صورت میں انواع کے بچنے کا کوئی امکان ہے یا نہیں ہے، مگر ابھی گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ سائنس دانوں نے کچھ ایسے عوامل بھی دریافت کیئے ہیں کہ اس بلیک ہول کی زمین پر پھیلائی گئی ممکنہ تباہی کے باوجود انسانی زندگی کے قائم رہنے کا ‘امکان’ پھر بھی موجود ہے!

230 ارب سال تک ڈائنوسارز زمین پر حکمرانی کرنے کے بعد روئے زمین سے 65 ارب سال قبل اچانک روپوش ہو گئے۔ آثار قدیمہ کی تحقیقات کے مطابق ڈائنوسارز کا زمین سے خاتمہ اسی طرح کے ایک بلیک ہول کی جگہ ایک بڑے شہابے ثاقب (meteoroid) کے زمین سے ٹکرانے کی وجہ سے ہوا۔ ڈائنوسارز کے زمین پر اس انجام کی تھیوری کے حق میں ڈائنوسارز کی زمین کی تہوں سے ملنے والے ڈھانچے اور ان کی ہڈیاں ہیں۔

انسانی بقا کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس بلیک ہول کا سائز کیا ہے اور وہ کتنی تیز رفتاری سے زمین کی جانب آ رہا ہے جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تباہی کتنی مقدار میں پھیلے گی۔ اس سے بچنے کا ہمارے پاس کتنا وقت ہے اور اس دوران تیاری کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اگر یہ بلیک ہول چھوٹی جسامت کا ہے اور اس کی رفتار بھی کم ہے تو ہمیں اس سے بچنے کا زیادہ وقت مل سکتا ہے کہ ہم اس کے زمین تک پہنچنے سے پہلے مادے کے اس قسم کے خوفناک اثرات سے خود کو محفوظ کر لیں، اس بلیک ہول کا جدید اور دانشمندانہ ٹیکنالوجی سے رخ دوسری طرف موڑ دیں یا زمین سے ہجرت کر کے کسی دوسرے ستارے پر جا کر آباد ہو جائیں۔

زمین پر ‘بلیک ہول’ کی آمد اور ہمارے زندہ بچنے کا امکان؟
Image by Peace,love,happiness from Pixabay

یہ بلیک ہول زمین سے کتنی دور ہے اور وہ زمین کے مزید قریب آنے پر ہمارے زمان و مکان (Space-Time) میں کتنا خم (Curve) پیدا کرے گا اور وہ دوسرے آسمانی ستاروں کے مداروں (Orbits) پر کتنا اثرانداز ہو گا؟ ایک نزدیکی بلیک ہول سے ریڈی ایشنز (Radiatons) وغیرہ زیادہ پیدا ہونگی، یہ بلیک ہول ہماری زمین کی کشش ثقل کی لہروں اور سمندری لہروں وغیرہ کو بھی تہس نہس کر کے رکھ دے گا، زمینی فضا (Climate) اور اس کا جغرافیہ وغیرہ تباہ ہو جائے گا جس کی وجہ سے زمین سے زندگی جڑی ہوئی ہے اور ابھی تک قائم ہے، ورنہ ہم انسان دوسری مخلوقات کی طرح روئی کے گالے بن کر خلاو’ں میں اڑ رہے ہوتے۔

اگر تو یہ بلیک ہول زیادہ بڑا ہوا اور اس کی سپیڈ بھی زیادہ ہوئی تو پھر ہمارا بچنا مشکل ہو گا۔ اب ہمیں اس بارے میں کیا کرنا چاہئے؟ اہم چیز یہ ہے کہ زمین پر یا کسی دوسرے ستارے پر ہماری زندگی کی بقا کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم انسان اجتماعی طور پر اس بلیک ہول کے خطرے کے خلاف کیا ردعمل دیتے ہیں؟

خود زمین کے وجود میں آنے کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نظام شمسی کے حصے کے طور پر وجود میں آئی تھی جو اس سے قبل سورج کا حصہ تھی جب ایک ستارہ اپنے مدار سے نکل کر سورج سے ٹکرایا تو یہ اس سے جدا ہو کر گیس اور گرد کے ایک بڑے ہیولے کی شکل میں اس کے گرد گھومنے لگی اور آہستہ ٹھنڈی اور معتدل ہوئی تو اس پر زندگی کے آثار نمودار ہوئے تھے۔ اسی طرح یہ عین ممکن ہے کہ آئندہ کوئی دوسرا ستارا زمین سے بھی ٹکرا جائے۔ لھذا انسانی زندگی کو بچانا اور سائنس میں تحقیق و جستجو کرنا ہر مسلمان پر ‘فرض’ ہے۔

اسی لئے قرآن مجید میں ستاروں کی گردش کے بارے میں غوروفکر کرنے کا بارہا ذکر آیا ہے۔ یہ کام صرف اہل مغرب پر چھوڑ کر ہم اپنے فرض سے بری الزمہ نہیں ہو سکتے کہ وہ کام کریں اور ہم خواب غفلت میں پڑے آرام کریں، بقول مرزا غالب:
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں،
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

سائنس اور مزہب کی رو سے 'دل' اور 'دماغ' کا تعلق!

منگل مئی 23 , 2023
موسیٰؑ نے کہا: اے میرے رب! میرے لئے میرا سینہ کھول دے اور میرے لئے میرا کام آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے
سائنس اور مزہب کی رو سے ‘دل’ اور ‘دماغ’ کا تعلق!

مزید دلچسپ تحریریں