گہرا رہتا ہے ہمیشہ تو سمندر کی طرح
اور میں رہتا ہوں تیرے پاس گوہر کی طرح
وقت اس تفریق کی تحقیق کر لے گا کبھی
تو ہے باہر کی طرح اور میں ہوں اندر کی طرح
کیا خبر کس آن تجھ کو ڈھال دوں کس شکل میں
میں ہوں اب بھی عادتوں میں ایک آزر کی طرح
وقت اور حالات نے بدلی ہیں ایسی کروٹیں
گھر میں رہتا ہوں اپنے ایک بے گھر کی طرح
میں مسلسل عزم کا پیغام ہی دیتا رہا
وقت نے سمجھا مجھے بیکار پتھر کی طرح
رات کٹ جاتی ہے غفلت اور گہری نیند میں
دن گزر جاتا ہے کاموں میں کسی شر کی طرح
بے وضو سونے کا شاید تھا نتیجہ خواب میں
وقت تھا میرے مقابل باد صرصر کی طرح
عمر بھر میں تجھ پر فخر و ناز نہیں کرتا پھروں
میرے حصے میں جو تو آجائے جوہر کی طرح طرح
وقت کے ہاتھوں کھلونا بن کے میں ہوں رہ گیا
پیش کرتے ہیں مجھے اب لوگ آفر کی طرح
تیرے ہاتھوں میں اسد شفقتیں ہی شفقتیں
سر برہنہ ہوں جو ان کو ڈھانپ چادر کی طرح
کلام: عمران اسد
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔