"میرے ہم نوا” میری نظر میں
تحریر: سید کفایت بخاری
کبھی خوبروؤں کے لئے مصوری سیکھنا پڑتی تھی مگر سنا ہے اب خاکہ نگاری سے بھی کام چل جاتا ہے۔ یوں بھی خاکہ نگاری مصوری سے کم مشکل نہیں بلکہ اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔ مصوری کا رشتہ کسی حد تک فن آذری سے ملتا ہو گا مگر خاکہ نگاری کار مسیحائی ہے۔ وہاں چند آڑھی ترچھی لکیروں سے تصویر بن جاتی ہے مگر یہاں وہی تصویر لفظوں میں دکھانا ہوتی ہے، پھر اس میں جان ڈال کر اسے چلتے پھرتے، بولتے اور زندگی کے کام کاج کرتے ہوئے سامنے لانا پڑتا ہے۔
شاید سجاد حسین سرمد اٹک کا پہلا صاحب مجموعہ خاکہ نگار ہے۔ زیر نظر کتاب ” میرے ہم نوا” اس کے خاکوں کا دوسرا مجموعہ ہے جس میں آٹھ مرحوم اور چار زندہ شخصیات کے ساتھ ساتھ کچھ مختصر خاکے بھی شامل ہیں۔ یہ مجموعہ ” نقاش نقش ثانی را بہتر کشد ز اول” کے مصداق سرمد کے ترقی کے سفر کی خوشخبری سناتا ہے۔ اس مجموعہ میں شامل خاکوں میں سرمد نے اپنی مضبوط قوت مشاہدہ اور بارک بینی سے خوب کام لیا اور کئی چھوٹی چھوٹی باتوں سے خاکوں کو بڑی چابکدستی سے مکمل کیا ہے۔ ان خاکوں کے کردار سرمد کے ساتھ براہ راست تعلق میں رہے۔ اس لئے سرمد نے انہیں خوب دیکھا اور جو دیکھا اسے ٹھیک ٹھیک بیان کر دیا، زیر قلم شخصیات کی عادات اور خوبیوں خامیوں کا گوشوارہ درست مرتب کیا اور اپنی دیانتداری کا شملہ اونچا کر لیا۔ زندہ شخصیات کے حوالے سے یوں دیانتداری برتنا کبھی مشکل بھی ہو جاتا ہے اور کم از کم ایک خاکے میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی اس مشکل لمحے کی گرفت میں آیا ہوا ہے۔ آخر میں چند مختصر مگر برجستہ اور خوبصورت خاکے دیے گئے ہیں جو گورنمنٹ کالج حضرو میں اس کے بیتے دنوں کی یادگار ہیں۔ ان کی موجودگی نے کتاب کو مزید جاذب بنا دیا ہے۔ مجموعی طور پر اس مجموعہ میں اس نے اپنے آپ کو ایک ماہر خاکہ نگار کے طور پر منوا لیا ہے۔ اللہ کرے اس کا یہ سفر جاری رہے مسافر نواز بہتیرے ان شاء اللہ۔
سید کفایت بخاری
(حضرو)
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔