وہ لڑکی جسکا نام سن کر لوگ احتراما اپنے ہیٹ اتار لیتے ہیں
دنیا میں بہت سے کامیاب لوگ گزرے ہیں جو اپنے نامساعد حالات کو آگے بڑھنے کے لئے ایک سیڑھی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ہر انسان منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن باہمت انسان وہ ہے جو اپنی مشکلات کے باوجود کوئی مقصد حاصل کرنے کی ٹھان لے تو وہ اس وقت تک دم نہیں لیتا ہے جب تک وہ اپنی منزل کو نہ پا لے۔ انہی قابل فخر عظیم انسانوں میں سے ایک نام دو بار کی نوبل انعام یافتہ پولینڈ کی سائنس دان میری کیوری کا ہے، جنہوں نے غربت میں آنکھ کھولی مگر انہوں نے اسے اپنی کامیابیوں میں رستے کی رکاوٹ نہیں بننے دیا۔
میڈم میری کیوری نے پولینڈ کے ایک پسماندہ قصبے میں آنکھ کھولی۔ مصائب اور مالی مشکلات میں گھرے ہوئے ماں باپ نے اس کا نام مانیا سکلوڈو وسکا رکھا مگر لوگ اسے صرف مانیا کے نام سے پکارے تھے۔ اس نے ابتداء میں ٹیویشن پڑھا کے گزر بسر کرنی شروع کی۔ جب وہ 19 برس کی ہوئی تو اسے ایک امیر خاندان کی 10سالہ بچی کو پڑھانے کا موقعہ ملا جس کا بڑا بھائی اس میں دلچسپی لینے لگا۔ جب دونوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا تو ایک دن لڑکے کی ماں نے مانیا کو کان سے پکڑا اور کار پورچ میں سارے نوکروں کو جمع کر کے چلاتے ہوئے کہا، "دیکھو! یہ پاگل لڑکی جس کے پاس پہننے کیلئے صرف ایک فراک ہے، جس کے جوتوں کے تلووں میں سوراخ ہیں۔ اور جسے چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک بار اچھا کھانا نصیب ہوتا ہے اور وہ بھی ہمارے گھر سے، یہ میرے بیٹے کی بیوی بننا چاہتی ہے۔” اس پر تمام نوکروں نے بلند آواز میں قہقہہ لگایا اور خاتون ایک دھماکے سے دروازہ بند کر کے اندر چلی گئی۔”
اس دن مانیا کو ایسا محسوس ہوا، جیسے کسی نے اس کے اوپر تیزاب کی بالٹی انڈھیل دی ہو، وہ توہین کے شدید احساس میں گرفتار ہو گئی اور اس نے اسی کار پورچ میں کھڑے کھڑے یہ فیصلہ کیا کہ وہ زندگی میں اتنی عزت اور شہرت کمائے گی کہ ایک دن وہ پورے پولینڈ کی پہچان بن جائے گی۔
یہ 1891ء کا واقعہ ہے جس سے مانیا کو اتنا بڑا جھٹکا لگا کہ وہ پولینڈ چھوڑ کر پیرس آ گئی، اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا، اور فزکس پڑھنا شروع کر دی۔
وہ دن میں بیس بیس گھنٹے پڑھتی تھی۔ اس کی جیب میں اتنی رقم بھی نہیں تھی کہ وہ پیٹ بھر کر ایک وقت کا کھانا کھا سکے۔ وہ ایک دن میں صرف ایک شلنگ خرچ کرتی تھی، سخت سردی میں اس کے کمرے میں بجلی، گیس یا کوئلوں کی انگیٹھی تک نہیں تھی۔ وہ یخ بستہ برفیلے موسم میں راتیں کپکپا کر گزارتی تھی۔ جب سردی اسکی برداشت سے باہر ہو جاتی، تو وہ اپنے سارے کپڑے نکالتی، آدھے بستر پر بچھاتی، اور آدھے اپنے اوپر اوڑھ کے لیٹ جاتی تھی۔ بعض اوقات زیادہ سردی کی وجہ سے وہ اپنی ساری کتابیں حتیٰ کہ اپنی کرسی تک اپنے اوپر گرا لیا کرتی تھی۔
مانیا نے پورے پانچ برس تک ڈبل روٹی کے سوکھے ٹکڑوں کو پانی میں بھگو بھگو کر کھایا مگر انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا، اسکی نقاہت اور کمزوری کا یہ عالم ہوتا تھا کہ وہ بستر پر بیٹھے بیٹھے بے ہوش ہو جایا کرتی تھی، لیکن جب اسے ہوش آتا تھا تو وہ اپنی بے ہوشی کو نیند قرار دے کر خود کو تسلی دینے کی کوشش کیا کرتی تھی۔
وہ ایک روز کلاس روم میں بے ہوش ہو گئی، ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کرنے کے بعد کہا، آپ کو دواء کی بجائے دودھ کے ایک گلاس کی ضرورت ہے۔ مانیا نے اپنے مقصد و منزل کو پانے کے لئے یونیورسٹی ہی میں پائری نام کے ایک سائنس دان سے شادی کر لی:
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو،
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔
ٹھہرو تیوری کو چڑھائے ہوئے جاتے ہو کدھر،
دل کا صدقہ تو ابھی سر سے اتر جانے دو۔
ہم بھی منزل پہ پہنچ جائیں گے مرتے کھپتے،
قافلہ یاروں کا جاتا ہے اگر جانے دو (میاں داد خاں سیاح)۔
پائری کو بھی فزکس میں دلچسپی تو تھی مگر وہ بھی مانیا کی طرح کنگلا اور مفلوک الحال تھا۔ شادی کے وقت دونوں کا کل اثاثہ صرف دو سائیکل تھے۔ مانیا اسی غربت کے عالم کے دوران پی ایچ ڈی تک پہنچ گئی۔ لیکن مانیا نے پی ایچ ڈی کیلئے بڑا دلچسپ موضوع چنا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ دنیا کو بتائے گی کہ یورینیم سے روشنی کیوں نکلتی ہے؟ یہ ایک انتہائی مشکل بلکہ ناممکن کام تھا۔ لیکن وہ اس پر جت گئی۔ بلآخر بے شمار تجربات کے دوران اس نے ایک ایسا عنصر دریافت کر لیا، جو یورینیم کے مقابلے میں 20 لاکھ گنا زیادہ روشنی پیدا کرتا ہے جس کی شعاعیں لکڑی، پتھر، تانبے اور لوہے، غرضیکہ دنیا کی ہر چیز سے گزر جاتی ہیں۔ مانیا نے اس کا نام "ریڈیم” رکھا۔ مانیا کا کارنامہ سائنس کی دنیا میں کسی بہت بڑے دھماکے سے کم نہیں تھا۔ سائنس دانوں نے ریڈیم کا ثبوت مانگا، مانیا اور پائری نے ایک خستہ حال احاطہ لیا، جس کی چھت تک سلامت نہیں تھی اور نہ ہی اس میں فرش تھا۔ دونوں میاں بیوی چار برس تک اس احاطے میں لوہا پگھلاتے رہے۔ انہوں نے 8 ٹن لوہا پگھلایا، اور اس میں سے مٹر کے دانے کے برابر ریڈیم حاصل کیا۔
یہ چار سال ان دونوں نے گرمیاں ہوں یا سردیاں ہوں اپنے اپنے جسموں پر جھیلے، بھٹی کے زہریلے دھوئیں نے مانیا کے پھیپھڑوں میں سوراخ کر دیئے۔ لیکن وہ کام میں جتی رہی، اور اس نے ہار نہیں مانی۔ یہاں تک کہ پوری سائنس اس کے قدموں میں جھک گئی۔
یہ ریڈیم کینسر کے لاکھوں کروڑوں مریضوں کیلئے زندگی کا پیغام لے کر آئی۔
ہم آج جسے ‘شعاعوں کا علاج’ کہتے ہیں، یہ مانیا ہی کی ایجاد ہے۔
اگر وہ لڑکی چار سال تک لوہا نہ پگھلاتی، تو آج کیسنر کے تمام مریض علاج کے بغیر ہی مرتے رہتے۔ یہ لڑکی دنیا کی واحد سائنس دان تھی جسے زندگی میں دوبار نوبل پرائز ملا۔
مانیا کی زندگی پر تیس سے زیادہ فلمیں بنی ہیں اور سینکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں، اور جس کی وجہ سے آج سائنس کے طالب علم پولینڈ کا نام آتے ہی اپنے سر سے ٹوپی اتار کر اس ملک کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں۔ دنیا میں جو انسان بھی انسانیت کے لئے کوئی بڑا کارنامہ انجام دیتا ہے، لوگ اس کی عزت و تکریم مزہب، رنگ و نسل اور علاقے کی تمیز کیئے بغیر کرتے ہیں۔ جیسا کہ مولانا روم اور علامہ اقبال کا مارکس کے نظریات کو خراج تحسین پیش کرنے کے حوالے سے ایک شعر ہے کہ:
"من چه گویم وصف آن عالی جناب،
نیست پیغمبر ولی دارد کتاب۔”
جب دنیا نے مادام کیوری کو اس ایجاد کے بدلے اربوں ڈالر کی پیشکش کی، تو اس نے معلوم ہے کیا کہا تھا؟ اس نے کہا تھا کہ، "میں اس دریافت کا انعام صرف اس کمپنی کو دوں گی، جو پولینڈ کی ایک بوڑھی عورت کا مفت علاج کرے گی۔ جی ہاں! پولینڈ کی وہ امیر مگر بیمار عورت وہی تھی جس نے کبھی کیوری کو کان سے پکڑ کر گھر سے باہر نکالا تھا۔ وہ عورت اس وقت کینسر کے مرض میں مبتلا تھی اور بستر مرگ پر تھی جس کی جان مانیا نے بچائ۔ اب وہ غریب مانیا نہیں تھی وہ مانیا سے "”مادام میری کیوری”” بن چکی تھی جس نے اپنا ماضی بھلا کر صرف انسانیت کو یاد رکھا۔
آپ جس قدر مرضی غربت اور مشکل حالات میں ہوں، آپ کوئی بڑا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، انجینئیر، سائنس دان یا ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں اور یا پھر کسی کاروبار سے ٹائیکون بننا چاہتے ہیں، تو آپ اپنے مقاصد میں ‘انسانیت’ کو مدنظر رکھیں، آپ کبھی بھی ناکام نہیں ہونگے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔