عاصم بخاری کی شاعری میں مقامیت

عاصم بخاری کی شاعری میں مقامیت

تحریر : مقبول ذکی مقبول ، بھکر پنجاب پاکستان 

ترے اشعار میں عاصم بخاری
میانوالی کی ساری ہے روایت

عاصم بخاری کا تعلق میانوالی سے ہے ۔ تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں ۔ جدید لب و لہجہ کی منفرد پہچان رکھتے ہیں ۔ ہمہ اوقات پڑھنا پڑھانا ہی ان کا مشغلہ ہے ۔ کتاب و قلم دوستی ان کا تعارف ہے ۔ شعر گوئی کا بھی ایک اپنا انداز ہے ۔
بہ قول شاعر

ہر مسافر کی ایک منزل ہے
راستے بے شمار ، ہوتے ہیں

مقامیت کی تعریف استقرائی و استخراجی طریق سے قاری پہ چھوڑتے ہوئے اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں ۔
عاصم بخاری کی شاعری میں محبت کا موضوع ملتا ہے مگر ان کی زیادہ تر پہچان ان کی رویوں سے متعلق شاعری سے ہے ۔ عصری حسیت ان کے ہاں کچھ زیادہ پائی جاتی ہے ۔اپنے گرد و پیش پر ان کی کڑی نظر ہے ۔ ان کا بیدار تخیل اپنی قوت ِ پرواز سے اَن دیکھی اور اَن سنی کو محسوس کر لیتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کا مشاہدہ ء فطرت انہیں اپنے ماحول سے بے خبر نہیں رہنے دیتا ۔
میانوالی کے باسیوں کی حیاداری شرافت ور عورت کے لحاظ و احترام کے حوالے سے ان کا ایک شعر دیکھیۓ ۔

یہاں عورت سے” موٹر وے” سا برتاؤ نہیں ہوتا
میانوالی کی مٹی میں ، وفا بھی ہے حیا بھی ہے

میانوالی کی ثقافت اور روایت میں لوگوں کے اندر منافقت نہیں بلکہ دو بدو دوستی ہوگی تو دوستی اگر دشمنی ہو گی تو دشمی ، کھرے پن اور میانوالی کی جذباتیت کی عکاسی کچھ ایسے کرتے ہیں ۔ سہل ِ ممتنع کی مثال شعر دیکھیۓ

ہوا کرتی ہیں عاصم ، انتہا پر
ہماری دوستی بھی دشمنی بھی

شاعر اپنے وسیب کی ایک اور خوبی کا بیان کچھ اس انداز میں کرتا دکھائی دیتا ہے ۔
شعر ملاحظہ ہو ۔

کھل کے کرتے ہیں اظہار یہ جذبوں کا
خوبی ہے یا خامی میرے لوگوں کی

علاقائیت عاصم بخاری کی شاعری میں حب الوطنی کا روپ دھارتی دکھائی دیتی ہے ۔ شاعر چوں کہ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ حساس ہوتا ہے لہٰذا ایک شعر میں کچھ ایسے اظہار ِ محبت کرتے ہیں

تری آنکھیں چمک اٹھتی ہیں اس کا نام لینے سے
تجھے اپنے علاقے سے بڑی عاصم محبت ہے

معاشرتی اور سماجی روایت سے بغاوت کرتے ہوئے جمود کو توڑتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہمارا دہرا معیار کیوں ہے مردانہ غالب سوچ پہ غور کی دعوت یوں دیتے ہیں۔

بیٹے کو قتل کرتا نہیں کوئی کس لیے ؟
بیٹی ہی قتل ہوتی ہے غیرت کے نام پر

اِسی مزاج کا ایک اور شعر بھی سماج کی فکر کی جھیل کے جمود کو یوں توڑتا دکھائی دیتا ہے

گھر کی عزت کا بیٹی کے جیسے
بیٹے پر بھی خیال ، لازم ہے

میانوالی کے جوانوں کی خوب صورتی کا ذکر اس مصرع میں دیکھیۓ

قد آور و سرخ سفید میانوالی کے گبھرو

علاقہ اور وسیب کی سادگی اور خلوص سے بھی یہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے یہ ان کے گہرے مشاہدے اور ارد گرد سے باخبری کی دلیل ہے ۔شعر میں علاقائی روایات پر کاربندی اور اچھے پہلو کا اپنا انداز دیکھیں ۔

ترا عاصم علاقہ یہ ابھی تک تو نہیں بدلا
وہی ہےسادگی اس میں ، وہی اخلاص ملتا ہے

علاقائیت کی خصوصیات میں اخلاص اور مہمان نوازی کو شعر میں کس خوب صورتی سے بیان کرتے ہیں ۔

ابھی مہمان کی آمد پہ خوش ہوتے ہیں یہ سارے
تمہارے گاؤں میں عاصم ، ابھی اخلاص باقی ہے

مقامی ماحول میں دیہاتی فضا میں پیار محبت خلوص ایک دوسرے کے دکھ سکھ کی باخبری کا نقشہ چھوٹی بحر کے شعر میں یوں کھینچتے ہیں ۔

ابھی لوگ مل ، بیٹھتے ہیں یہاں
ابھی تک ہیں آباد ، یاں بیٹھکیں

اپنے وسیب اور رہتل کی ترقی پر کھ ایسےاظہار ِ مسرت کرتے ہیں ۔

اب کہاں وہ رہی میانوالی
یہ بھی لاہور ، لاڑکانہ ہے

اِسی بات کو ایک اور خوب صورت زاویے سے دیکھیئے کیا خوب انداز میں پیش کرتے ہیں

شہری چادر ہے اوڑھ لی اِس نے
گاؤں ، گاؤں نہیں ، رہا اپنا

اپنے وسیب کی روایات کاتذکرہ کرتے ہوئے اپنے باسیوں کا ذکر کچھ اس ڈھنگ سے کرتے ہیں

ہے تعارف یہ میرے لوگوں کا
بات رکھتے ہیں جان دیتے ہیں

عاصم بخاری کی شاعری میں مقامیت
      ان کی شاعری میں ان کی دھرتی کے قدرتی مناظر کو بھی شعری قالب میں خوب صورتی سے ڈھالا گیا ہے۔

یہاں دریا بھی ہے کہسار بادل بھی نظارے بھی
ہمارے واسطے عاصم ، یہی کشمیر مری ہے

علاقائی مزاج کی نباضی بھی ان کے ہاں مزاج آشنائی کے لیے سنگ ِ میل کا کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہے ۔
شعر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

محبت میں لٹا دیتے ہیں سب کچھ
روایت ہے ، یہی عاصم ، ہماری

میانوالی کی مقامیت ثقافت اور روایت کا احاطہ کرتے بیسیوں ، اچھوتے اور نادر خالات کے حامل اشعار پروفیسر عاصم بخاری صاحب کی شاعری میں ہمیں جابجا مل جاتے ہیں ۔ ان کی شاعری سے ثقافت و روایت کی مکمل تصویر چلتی پھرتی ہمارے سامنے آ جاتی ہے ۔ کسی حد تک اسے ہم تصویر ِ میانوالی کا نام بھی دے سکتے ہیں ۔ مقامیت کے کئی ایک پہلوں کا احاطہ کرتی شاعری بھی موجود ہے ۔ مگر طوالت کے پیش ِ وہ پھر سہی۔۔۔۔
آخر میں میانوالی کی مقامیت کی مناسبت سے مزید چند اشعار قارئین کی نظر کرکے
اجازت

تمہارے شہر میں ہوں کیوں زیادہ
یہ مجھ سے پوچھتی ہے قتل و غارت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈھلکتے آنچلوں کو جوڑتی ہیں اہتمام سے
کہ سن اذاں کو عورتیں ابھی مرے وسیب کی
۔۔۔۔۔۔۔۔
کروں وار چھپ کے بھلا اس پہ کیسے
نہیں دیتی مجھ کو اجازت ، روایت
۔۔۔۔۔۔۔
کسی کی موت پر عاصم ، مرے گاؤں کے ہر اک کو
ابھی افسوس ہوتا ہے، ابھی دکھ درد ہوتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں "پینا ڈال” ان کو عاصم میسر
مرے شہر میں لوگ یوں جی رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرد بھی ڈھانپتے تھے سر اپنا
تم تو عورت کی بات ،کرتے ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تو "کاں” بھی "بنیرے” پر آ کر
خبریں مہمان کی ، نہیں دیتا
۔۔۔۔۔۔۔

maqbool

مقبول ذکی مقبول

بھکر، پنجاب، پاکستان

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ایک شام فرہاد احمد فگار کے نام

پیر اپریل 24 , 2023
اپنے عہد کے باشعور شخص کو پہچاننا، اس کی خدمات کا اعتراف کرنا اور اس کی تعظیم کرنا تہذیب یافتہ معاشروں اور صاحبِ بصیرت اشخاص کا خاصا ہے۔
ایک شام فرہاد احمد فگار کے نام

مزید دلچسپ تحریریں