"چوروں قطب”
ایک ادھیڑ عمر چور کو سن لگا کر چوری کرنے کی پرانی عادت تھی۔ جب وہ بوڑھا ہونے لگا تو اسے اپنی اولاد کے روزگار کی فکر لاحق ہوئی۔ ایک دن اس نے اپنے جواں سال بیٹے کو ساتھ لیا اور چوری کرنے کی غرض سے آدھی رات کو اپنے گھر سے باہر نکل آیا۔ سن لگا کر چوری کرنے کا طریقہء واردات یہ ہے کہ اس میں چور کسی گھر کے ایک کمرے (جس میں اسکی معلومات کے مطابق نقدی اور قیمتی زیورات وغیرہ رکھے ہوتے ہیں) کی دیوار کو توڑ کر اندر داخل ہوتا یے اور چوری کا سامان اٹھا کر اسی چور دروازے سے باہر نکل جاتا یے۔ پرانے زمانے میں دیہاتوں کے گھر کچی دیواروں کے ہوا کرتے تھے یا جن گھروں کی دیواریں پکی اینٹوں کی بنی ہوتی تھیں ان کی چنوائ (تعمیر) بھی مٹی کے کچے گارے سے ہوا کرتی تھی۔ تب سیمنٹ عام نہیں ہوا تھا۔ چوروں کے پاس دیواروں کو بے آواز طریقے سے توڑنے کے لئے لوہے کے راڈ سے بنی ہوئی تیزدھار سبلیں، رینچ اور کدالیں وغیرہ ہوا کرتی تھیں۔ اس رات رنگا کواڈی (چور کا فرضی نام ہے) بڑا خوش تھا کہ آج اس کا بیٹا بھی اس کے پیشے کو قائم رکھنے کے لئے اس کے ساتھ تھا۔ رنگا نے اپنے گھر سے نکلنے کے ساتھ ہی بیٹے کو سن لگانے کا طریقہ دوبارہ سمجھایا اور کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد باپ بیٹے کو ایک بستی کے کسی گھر کے باہر ایک جلتا ہوا دیاء نظر آیا۔ رنگا نے دیئے کی روشنی میں جونہی دور سے اس گھر کو دیکھا تو اس کا چہرہ چمک اٹھا، اس نے پہچان لیا تھا کہ یہ وہی گھر ہے، اور اپنے تئی اسے یقین ہو گیا کہ آج اسے پہلے سے زیادہ اچھا مال لوٹنے کا موقع ملے گا۔
"وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے”
رنگا اس گھر میں پہلے بھی کچھ چوریاں کر چکا تھا، اس نے اپنی یاداشت پر زور دیا اور فخر کے انداز میں اس گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیٹے سے کہا، "وہ جس گھر میں دیا جل رہا ہے آج میں اسے چوتھی بار لوٹنے جا رہا ہوں۔”
رنگا کواڑی کے بیٹے نے جونہی یہ بات سنی وہ کچھ سوچتے ہوئے فورا رک گیا۔ رنگا کچھ پریشان سا ہو گیا اور بیٹے سے پوچھا "کیوں رکے ہو؟” تو بیٹے نے کہا، "بابا چوری نہیں کرتے آو’ واپس لوٹ جاتے ہیں”، "آخر کیوں”، باپ بڑبڑایا۔ اس پر بیٹے نے ایک بڑا سیانا اور تاریخ ساز جواب دیا، اور کہا، "بابا جس گھر کو آپ نے تین بار لوٹا تھا اس کا دیا جل رہا ہے، مگر اس گھر کو اتنی دفعہ لوٹنے کے باوجود ہمارے گھر میں تو آج بھی اندھیرا یے۔”
شائد یہ کہانی آپ نے بھی سنی ہو مگر یہ کہانی نہیں ایک حقیقت یے، بلکہ یہ کہانی "پاکستان” ہے جسے مقتدر چوروں نے بارہا لوٹا ہے، وہ چور تو باری باری لڑھکتے نظر آ رہے ہیں مگر الحمدللہ پاکستان آج بھی قائم ہے۔ ایک تو پہلے پہل چوریاں واقعی زیادہ تر اسی طرح سن لگا کر ہوا کرتی تھیں اور دوسرا وہ زمانے بھلے تھے کچھ چوروں کو ہدائت بھی آ جایا کرتی تھی۔ "چوروں قطب”، کا محاورہ اسی پس منظر کی عکاسی کرتا ہے۔ اللہ کریم کو توبہ بہت پسند ہے۔ جب انسان بددیانتی، چوری، جھوٹ اور منافقت وغیرہ کی انتہاء تک پہنچتا ہے تو ایک بار، کم از کم ایک بار، اس کا ضمیر ضرور جاگتا ہے۔ انسان اس موقع پر رجوع کر لے تو اس کا کردار جتنا گھٹیا ہو توبہ کرنے پر اس کا درجہ بھی اتنا ہی سوا ہو جاتا ہے۔
یہ کہانی ایک فرد سے لے کر عام معاشرے اور ہماری اشرافیہ تک ہم سب پر کسی نہ کسی حوالے سے صادق آتی ہے۔ بات صرف اپنے کردار کی کیفیات اور ان کو سمجھنے کے فرق کی ہے۔ ہر بار اپنی غلطیوں پر انجان بنے رہنے سے جو نقصان ہوتا ہے اس کا ازالہ اتنا ہی مشکل ہوتا چلا جاتا ہے، کیونکہ گنا جتنا بڑا ہو آزمائش اور عذاب اتنا ہی سخت ہوتا ہے۔ اب بحیثیت قوم ہمیں سمجھنا چایئے کہ ہم توبہ کے دروازے بند ہونے سے پہلے ہی رجوع کر لیں۔ برائی کے اندر درپردہ اچھائی ایسے ہی مواقع پر ظاہر ہوتی ہے کہ ہر سیاہ بادل کے ساتھ ایک سلور لائننگ ہوتی ہے۔کائنات میں اندھیرے اور روشنی کی مقدار برابر ہے۔ انسان کے اندر جتنی منفی قوتیں ہیں اسی برابر مقدار میں مثبت قوتیں بھی ہیں۔ جس طرح ہماری اشرافیہ سن لگا کر چور دروازوں سے ہمارے ملک کے ذرائع کو لوٹتی چلی آ رہی ہے، اب تک اس کو توبہ تائب ہو جانا چایئے تھا مگر وہ نہیں ہو رہی۔ بے شک اللہ انسانوں کی رسی ڈھیلی کرتا ہے مگر ہر چیز اور ہر برائی کی ایک حد ہوتی ہے۔ اب ہم میں منفیت ہے تو ہمارے پاس یہ موقع بھی ہے کہ ہم اپنی مثبتیت کو بیدار ہونے دیں۔ وگرنہ حالات یونہی چلتے رہے تو ہمارا انجام مخدوش ہو جائے گا؟ اس سوال سے قطع نظر ہم اب بھی اپنی خرابیوں کو خوبیوں میں بدل سکتے ہیں اور انعام کے حق دار ٹھہر سکتے ہیں۔
امیر مینائی کی ایک غزل کے یہ چند اشعار سنتے جایئے:
اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے،
ہم مرے جاتے ہیں تم کہتے ہو حال اچھا ہے۔
تجھ سے مانگوں میں تجھی کو کہ سبھی کچھ مل جائے،
سو سوالوں سے یہی ایک سوال اچھا ہے۔
آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب،
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔