سکھوں کا میلہ بیساکھی
(شاہد اعوان)
دنیا بھر کے سکھ اس بات پر متفق ہیں کہ حسن ابدال میں موجود گوردوارہ پنجہ صاحب میں سکھوں کے روحانی پیشوا بابا گورو نانک تشریف لائے اور ’’ پنجہ صاحب ‘‘ کی بھی ایک کہانی ہے جو سکھوں کے بقول کچھ اس طرح ہے کہ حسن ابدال شہر میں واقع بلند ترین پہاڑی مقام پر زمانے کی ایک جلیل القدر ہستی حضرت سید جمال اللہ حیات المیرگیلانیؒ المعروف بابا ولی قندھاری سے بابا گورونانک نے پانی مانگا جب انہوں نے پانی نہ دیا تو بابا گورونانک نے پہاڑ میں ایک سوراخ کر دیا اور سارا پانی نیچے کھنچاچلا آیا ۔ ایک چٹان نما پتھر کے اوپر کندہ گورونانک جی کے ’’پنجہ ‘‘ کے بارے میں سکھوں کا عقیدہ ہے کہ پہاڑکی چوٹی سے ایک چٹان بابا ولی قندھاری نے نیچے لڑھکائی جسے بابا گورونانک نے اپنے ہاتھ سے روکا اور اس طرح اس گوردوارے کا نام ہمیشہ کے لئے ’’ پنجہ صاحب‘‘ پڑگیا۔ دنیا بھر سے آنے والے سکھ یاتریوں کی آمد کا مقصد اس وقت تک پورا نہیںہوتا جب تک وہ بابا ولی قندھاری کی پہاڑی پر ’’متھا ٹیک‘‘ نہ لیں۔ یہ عمل صدیوں سے جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا ۔ اس سے قبل کہ ہم میلہ بیساکھی کی با ت کریں پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ بابا گورونانک کون تھے؟ اوران کی تعلیمات کیا تھیں؟ حضرت فرید الدین گنج شکرؒ کے بعد برصغیر میں جس ہستی کو کلا مِ فریدؒ کی عظمت کا ادراک ہوا وہ بلاشبہ بابا گورونانک کی بلند مرتبت شخصیت تھی جسے سمجھنے کے لئے گورونانک کی تعلیمات اور عملی زندگی کا مطالعہ کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ بابا نانک نے گنج شکرؒ کے جواہر پاروں کو چن چن کر اکٹھا کیا اور زمانے کی دست بردسے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کیونکہ گورو نانک جی نے کلامِ فریدؒکو سکھ مذہب کی مقدس کتاب ’’ گرنتھ صاحب‘‘ کا حصہ بنا ڈالا ور سکھ قوم کے لئے اس کلام کی حفاظت ایک مذہبی فریضہ بن گیا ۔ گورونانک نے اس کلام کو محفوظ کر کے پنجاب پر بالخصوص اورانسانیت پر بالعموم بہت بڑا احسان کیا ہے، گورونانک کا ایک د وسرے مذہب کے صوفی کے کلام کو اکٹھا کرنابلاشبہ ایک قابل تعریف اور بے مثال کام ہے یوں لگتا ہے کہ قدرت نے کلامِ فرید کی نگہبانی اور بقا کے لئے سکھ پنتھ کے حصار کو پسند کیا اگر ایسانہ ہوتاتوگنج شکرؒ کے ورثاء شاید کلامِ فریدکوزمانے کی دست بردسے محفوظ نہ رکھ سکتے جیسے دیگر نوادرات کی حفاظت نہ کر سکے ۔ گورو نانک کے بعد پانچویں گرو ارجن دیو نے 1604ء میں گرنتھ صاحب کی تدوین کی اور کلام فرید کو وہی مقام ا ور درجہ دیا گیا جو بابانانک ، گرو امرد اس یا رام داس جی کے کلام کو میسر آیا ۔ اگر بابا نانک کی تعلیمات کا ذکر کیا جائے تو ان کا نچوڑ توحید ، عمل صالحہ ، تکریمِ آدم ، خدمتِ خلق ، رواداری ، بھائی چارے ، محبت اور فلاحِ انسانیت ہے ۔ بابا گورونانک سے پہلے ہندوستانی معاشرہ کی تقسیم اس وقت ہوئی جب بھیل ، کول ، دراوڑ اور سنتھال اقوام کا قتل عام ہوا اور جوبچ گئے وہ جنگلوں میں جا کر آباد ہوئے۔ جنم ساکھی بھائی بالا میں بابا نانک کے حوالے سے درج ہے کہ چاروں کتابیں الہامی ہیں ۔
چاروں کتبیں اک ہے چاروں قول خدائے
چاروں قدم خواب دے قاضی دل وچ لائے
اس جنم ساکھی میں آگے درج ہے کہ قرآن پڑھنے سے ان چار کتابوں یعنی تورات ، انجیل ، زبور، فرقان اور فرقان کو قرآن میں دیکھا جا سکتاہے :
دیکھ تورات ، انجیل توں زبو ر تے فرقان
ایہوچار کتیب ہن پڑھ کے ویکھ قرآن
یہ تو تھی بابا گورونانک کی خدمات اور تعلیمات کی ایک چھوٹی سی جھلک ۔ اب ہم ’میلہ بیساکھی‘ کے متعلق تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں:
میلہ بیساکھی گوردوارہ سری پنجہ صاحب حسن ابدال میں پانچ صدیوں سے منایا جارہا ہے یکم بیساکھ کو جب پنجاب میں گندم کی کٹائی کا آغاز ہوتا ہے تو سکھ قوم پنجہ صاحب میںا پنے گرو کے اس مقام پر اکٹھے ہوتے ہیں جہاںانہوں نے اپنی زندگی میں چند لمحات آرام کیا اور یہ عمل صدیوں سے جاری ہے۔ اگر ہم نائن الیون سے قبل حسن ا بدال میں میلہ بیساکھی کو یاد کریں تولوگ دور و نزدیک سے میلہ بیساکھی کا لطف اٹھانے یہاں آیاکرتے تھے اور گوردوارہ سے منسلک پنجہ بازار جو سارا سال قدرے ویران اور سنسان رہتا تھا میلہ بیساکھی کے موقع پر ایک بڑا کاروباری سنٹر میں بدل جایاکرتا تھا پنجاب بھر سے کپڑے ، ڈرائی فروٹ اور لنڈے کے تاجر صرف تین دنوںکیلئے ہزاروں روپے کرائے پر دوکانیں حاصل کر لیتے۔ جب میلہ بیساکھی کا آغاز ہوتا تو پنجہ باز ار میں ایسا بازار سجتا کہ گماں ہوتا جیسے ہم دہلی یاامرتسر کے کسی بازار میں گھو م رہے ہوں۔ جس طرح پاکستان کے تاجر اپنی مصنوعات بیچنے یہاں آتے اسی طرح انڈیا سے آنے والے سکھ یاتری اپنے ساتھ ململ کے تھان ، الائچیاں ، کالی مرچیں ، چاندی کے زیوارت ، ساڑھیاں ، گرم کمبل ، چائے کی پتی وغیرہ اپنے ساتھ لاتے اور پاکستانی ان چیزوں کو ہاتھوں ہاتھ خرید لیتے، اسی طرح سکھ یاتری بھی ا تنی خریداری کرتے کہ انہیں واپسی کاسامان لے جانے میں دشواری پیش آتی ۔ حسن ا بدال میں جہاں کاروباری سرگرمیاں عروج پر ہوتیں وہاں منچلے اپنی آنکھوں کی پیاس بجھانے یہاں امڈ آتے اور اکثر اوقات ڈیوٹی پر مامور پولیس سے ’’خاطر تواضع ‘‘ کرانی پڑ جاتی۔ بیٹھک بابا ولی قندھاریؒ پر ’متھا ٹیکنے‘ ر نگ برنگے ملبوسات زیب تن کیے سجی سنوری سکھ خواتین جب پہاڑی پر پہنچتیں تو چار سو قوسِ قزح کے رنگ بکھر جاتے ۔ غرض پاکستانی اور انڈین اس میلے کا سال بھر بڑی شدت سے ا نتظار کیا کرتے ، دوستیاں اور عہد و پیمان کیے جاتے ۔
بابا گورونانک کے جنم دن کے موقع پر ماہ نومبر میں بھی اسی طرح کی رونقیں لگ جاتیں لیکن 2001ء نائن الیون کے امریکی ورلڈ ٹریڈ سنٹر حملوں کے نتیجہ میں عالمی سطح پر رونما ہونے والی دہشت گردی کی فضا نے اس تہوار کو تفریحی میلے کے بجائے مقامی ریائشیوں کے لئے جان کا عذاب بنا دیا ہے ۔ سیکورٹی نافذ کرنے والے اداروں کی اپنی مجبوریاں ہیں اب وہ بازار جہاں میلہ بیساکھی کے موقع پرکھوے سے کھوا چھنتا تھا اب بیساکھی کے دنوں میں ویرانی اور بے بسی کی تصویر بنا نظر آتاہے۔۔۔ مہمان سکھ یاتریوں کو ماضی کی طرح گوردوارہ سے باہر بازاروں اور شہر میں آزادانہ گھومنے کی اجازت نہیں جبکہ ماضی قریب میں انڈین و دیگر غیر ملکی سکھ یاتریوں کو بازاروں میں گھومنا تو ایک طرف انہیں قریبی محلوں میں مقامی لوگوںکے پاس paying guestکے طور پر قیام کرنے میں بھی کوئی روک ٹوک نہ تھی ۔ اتنے برسوں میں کوئی ایساواقعہ بھی رونما نہیں ہوا کہ کسی مسلمان کے ہاتھوں کسی سکھ یاتری کو گزند پہنچانے کی کوشش بھی کی گئی ہو۔ میلہ بیساکھی پر جہاں سکھ یاتریوںکی سرگرمیوں کو انتہائی محدودکر دیا جاتا ہے وہاں حکومتی ہدایات کی روشنی میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے غیر ملکی مہمانوں کو غیر معمولی فول پروف سیکورٹی فراہم کرتے ہوئے گوردوارے کے قریب رہائشیوں کی اپنے گھروں ، دوکانوں اور دفاتر تک رسائی ناممکن ہو جاتی ہے اور کاروباری سرگرمیاں تو نہ ہونے کے برابر ہو جاتی ہیں ۔ ہر سال میلہ بیساکھی کے موقع پر ڈویژن بھر کی پولیس کے اضافی دستے چوبیس گھنٹے ڈیوٹی کیلئے حسن ابدال پہنچ جاتے ہیں، خصوصی کارڈ جاری کئے جاتے ہیں،خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار دن رات متحرک رہتے ہیں۔ امسال بھی سکھ یاتریوں کی محفوظ آمد کے علاوہ ان کی رہائش اور طعام کے لئے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں ۔ متروکہ وقف املاک، مقامی و ضلعی انتظامیہ کے افسران و عملہ گوردوارہ کے اندر اور گوردوارہ کو جانے والے راستوںپر سکھ یاتریوں کی آمد سے قبل انتظامات مکمل کر چکے ہیں اس سلسلہ میں خاتون اسسٹنٹ کمشنر حسن ابدال ڈاکٹر ثناء رام چند میلہ بیساکھی میں دنیا بھر سے آنے والے سکھ یاتریوں کو ہرممکن سہولیات کی فراہمی اور قیام و طعام کو یقینی بنانے کے لئے مصروفِ عمل ہیں ان کی زیر نگرانی انجینئر ذوالفقار علی بٹ دیگر ماتحت ایم سی اہلکاروں کے ہمراہ صفائی، سٹریٹ لائٹس و دیگر انتظامات کو مکمل کرنے میں اپنی تمام تر توانائیاں صف کیے ہوئے ہیں جبکہ محکمہ مال، ایم سی، واپڈا ملازمین کے علاوہ ضلع و ٹریفک پولیس کے اہلکار میلہ بیساکھی کی کامیابی کے لئے اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔ بیساکھی میلہ کے موقع پر گوردوارہ و ملحقہ آبادی میں 24گھنٹے بلا تعطل بجلی کی فراہمی کویقینی بنایا جا رہا ہے۔ میلہ بیساکھی پر دنیا بھر سے گوردوارہ پنجہ صاحب آنے والے سکھ یاتریوں کی آمد پر کی گئی تیاریوں کے معائنہ کے لئے کمشنر و آر پی او راولپنڈی، ڈپٹی کمشنر اٹک رائو عاطف رضا، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (جنرل) عدنان انجم راجہ اور ڈی پی او اٹک سردار غیاث گل خان، ایس پی انویسٹی گیشن جویریہ محمد جمیل، ایس ڈی پی او حسن ابدال سید کاظم عباس نے خصوصی طور پر پنجہ صاحب حسن ابدال کا دورہ کیا اور مہمان سکھ یاتریوں کی آمد پر اعلیٰ انتظامات کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ 12اپریل کو سکھوں کا میلہ بیساکھی شروع ہوتا ہے جو 14 اپریل کوبھوگ کی رسم کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے ۔ اس بار بھارت سے تقریباٌ تین ہزار سکھ یاتریوں کی آمد متوقع ہے جبکہ پاکستان کے علاوہ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور دیگر ممالک سے آمدہ سکھ یاتریوں کی کل تعداد10ہزار سے زائد ہو جائے گی ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔