اقبال حسین کے ساتھ گفت گو

اقبال حسین  ، بھکر

انٹرویو بسلسلہ ادبی شخصیات ، بھکر

انٹرویو کنندہ : مقبول ذکی مقبول ، بھکر پنجاب پاکستان

اقبال حسین دنیائے ادب کا ایک معتبر حوالہ ہے جو کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ مگر نئے قارئین کے لیے تعارف کرانا ضروری سمجھتا ہوں ۔۳۱مئی۱۹۵۹ء کو اقبال حسین نے فطری صلاحیتیں لے کر اللّٰہ بخش خان کے گھر بھکر میں آنکھ کھولی ۔ اللّٰہ بخش خان کچھ عرصہ ٹیچنگ سے وابستہ رہنے کے بعد محکمہ مال میں بھرتی ہو گئے اور ترقی کر کے مجسٹریٹ کے عہدے تک پہنچے ۔ اقبال حسین کے آباؤ اجداد صدیوں پہلے عرب سے ہجرت کر کے بلوچستان میں آبسے ۔ پھر پنجاب کے شہر ضلع بھکر کے مضافات میں سکونت اختیار کرلی ۔ اقبال حسین خان بلوچ خاندان کے قبیلہ کُپچانی سے تعلق رکھتے ہیں ۔آپ نے پانچویں جماعت میں قرآنِ کریم ختم کرلیا ۔ میٹرک خانقاہ سراجیہ ضلع میانوالی سے ۱۹۷۵ء میں پاس کیا ۔ بی۔اے سمندری ضلع فیصل آباد سے کیا جہاں آپ کے والد تحصیل دار تھے ۔ سمندری میں ناز خیالوی اور عبدالستار مفتی سے محفلیں رہتی تھیں اور میاں محمود عامر کے پاس گوجرہ مشاعروں کے سلسلے میں اکثر آناجانا رہتا ۔فٹ بال بڑے شوق سے کھیلتے تھے لیکن پندرہ سال کی عمر میں ٹرین ایکسیڈنٹ میں دایاں بازو اور بائیں ٹانگ ضائع ہونے کے بعد یہ شوق ترک کرنا پڑا ۔ اُنہی دنوں شاعری کا آغاز کیا ۔ شروع میں تخلص مجروحؔ  پھر آورؔ اور صادرؔ کے بعد مستقل طور پر حسینؔ تخلص کرنے لگے ۔مختلف ملکی رسائل وجرائد میں کلام کی اشاعت ہوتی رہی ۔ روزنامہ "تھل ٹائمز” بھکر میں ۱۹۹۱ ء سے ۱۹۹۲ء تک کالم لکھتے رہے ۔ جون ۲۰۱۲ء سے روزنامہ "عوام کی عدالت "بھکر میں سیاسی و معاشرتی موضوعات پر ان کا قطعہ روزانہ شائع ہوتا ہے ۔پہلا شعری مجموعہ’’سورج گری ہے فن اپنا‘‘ ۱۹۸۷ء میں شائع ہوا ۔ جبکہ اب تک ان کے ۱۹شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔۱۶فروری۱۹۸۴ء سے اگست ۱۹۸۶ء تک حبیب بینک جھنگ میں ملازمت کی پھر والد صاحب کی وفات کے بعد بھکر ٹرانسفر کروالیا ۔ آپ کی شادی ۱۹۷۸ء میں ہوئی ۔آپ کی اولاد میں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں ۔ حبیب بینک سے اپریل ۲۰۰۵ء میں گولڈن ہینڈشیک لے لیا۔ اس کے بعد خود کو ادب کے لیے وقف کردیا ۔ گذشتہ دنوں ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی ۔ دورانِ ملاقات ہونے والی گفتگو نذرِ قارئین ہے ۔

اقبال حسین کے ساتھ گفت گو

سوال :    آپ کا طبعی میلان نظم کی طرف ہے یا غزل کی طرف ۔؟

جواب :   غزل میری پسندیدہ صنفِ سخن ہے جب کہ چند ایک نظمیں بھی لکھی ہیں جن میں سے زیادہ تر میرے پہلے شعری مجموعہ ’’سورج گری ہے فن اپنا‘‘ میں شامل ہیں ۔

سوال :    آپ کا ذوقِ مطالعہ ۔؟

جواب :   شعر و ادب کے علاوہ تاریخ ، فلسفہ ، نفسیات اور سیاسیات ۔

سوال :    آپ نے جھنگ میں بھی کافی وقت گزارا ہے وہاں کی ادبی فضا کے بارے میں کچھ بتائیں گے ۔؟

جواب :   والد صاحب کی ملازمت کے باعث میرا پہلا قیام جھنگ میں ۱۹۷۱ء سے ۱۹۷۳ء تک رہا ۔ میں نے آٹھویں جماعت اسلامیہ ہائی سکول جھنگ سے پاس کی ۔اس کے بعد فروری۱۹۸۴ء میں مجھے حبیب بینک جھنگ میں ملازمت مل گئی ۔ اُن دنوں میں لاء کالج پنجاب یونیورسٹی میں ایف ۔ ای ۔ایل کا نسٹوڈنٹ تھا ۔ لہٰذا تعلیم ادھوری چھوڑ کر میں نے بینک جوائن کر لیا ۔ملازمت کے سلسلے میں اگست۱۹۸۶ء تک جھنگ میں مقیم رہا ۔ جھنگ ادبی حوالے سے بڑا زرخیز شہر ہے ۔مشاعرے ، ادبی تقاریب اور شعراء کرام سے ملاقاتیں اب بھی یاد آتی ہیں ۔ جھنگ نے مجید امجدؔ جیسے بڑے شاعر پیدا کیے ہیں ۔ جن شاعروں سے میرا ملنا جلنا رہا ان میں شیرافضل جعفریؔ ، معین تابشؔ اور پنجابی شاعر شاربؔ انصاری شامل ہیں ۔ یونس ملک (اُردو اور پنجابی کے شاعر) فیصل آباد سے اکثر جھنگ آتے رہتے تھے ۔

سوال :    آپ ایک سرائیکی ناول بھی لکھ رہے تھے وہ کہاں تک پہنچا ۔؟

جواب :   اُس کا نام’’بَتری دھاراں‘‘ہے ۔ جو  تکمیل کے مراحل میں ہے ۔

سوال :    ادب کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے ۔ ؟

جواب :   ادب کو زندگی کا ترجمان ہونا چاہیے ۔

سوال :    آپ ادبی تقریبات میں بہت کم شرکت کرتے ہیں…کیوں ۔ ؟

جواب :   میں تنہائی پسند واقع ہواہوں ۔ البتہ جوانی میں اس حوالے سے خاصا سرگرم رہا ہوں ۔

سوال :    ادب نے آپ کو کیا دیا اور آپ نے ادب کی کیا خدمت کی ۔؟

جواب :   میں(۱۹)اُنیس شعری مجموعوں کا خالق ہوں ۔ میں نے ادب سے زندگی کرنا سیکھا ہے ۔

سوال :    تخلیق کار تو مجلس پسند ہوتا ہے ۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ۔؟

جواب :   یہ ہر شخص کے مزاج پر منحصر ہے ۔ کچھ تخلیق کار مجلسی اور بہت سوشل ہوتے ہیں جبکہ کچھ مردم  بیزار اور تنہائی پسند

سوال :    بھکر کی ادبی فضا کے حوالے سے کچھ کہنا چاہیں گے ۔؟

جواب :   بھکر کی ادبی فضا شعر و ادب کیلئے ہمیشہ سازگار رہی ہے ۔ اس دھرتی پر ساٹھ ستر سال قبل لگایا جانے والا شعر و ادب کا پودا اب تناوردرخت بن چکا ہے ۔ٹیکسٹائل ملز کے مالک میاں عزیز اے شیخ کے دور میں یہاں ملکی سطح کے مشاعرے برپا ہوا کرتے تھے جن میں پاکستان بھر سے نامور شعراء شرکت کیا کرتے تھے ۔ بھکر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ شکیب جلالی کی شاعری کا بہترین حصہ قیامِ بھکر کے دوران تخلیق ہوا ۔ اس دور کے بھکر کے شعراء میں قاضی فتح محمد فاتح ، خلیل رامپوری ، خلش پیراصحابی ، خلش صہبائی ، شکیب جلالی ، خواجہ قریش علی منشا ء پانی پتی ، ڈاکٹر جی ایم اکمل ، عابد سیمابی، پروفیسر بشیر احمد بشر ، اسد جعفری ، نصرت چوہدری ، باقر بخاری ، اثرترمذی ، شادبخاری ، حیارام پوری ، انجم عابدی ، عارف بخاری ، پروفیسر شہاب صفدر کے والد الطاف صفدر غلام جیلانی انجم ملک ، انور اقبال انور ، کوثر حجازی ، تنویر صہبائی ، شمشاد نظر ، ظفر عباس ملک ، نذیرڈھالہ خیلوی ، اور پروفیسر جاوید عباس ملک شامل ہیں ۔ رثائی شاعری میں غلام سکندرخان غلام ، قیصر بارہوی ، مضطرحیدری ، خلش پیراصحابی ، شعیب جاذب،  موسیٰ کلیم بخاری کے اسماء شامل ہیں ۔ نئی نسل کے شعراء کی بڑی تعداد ادبی سرگرمیوں میں بھر پورحصہ لے رہی ہے اور ان کی کوششوں کے باعث بھکر ادبی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے ۔ کسی کا نام لینا نہیں چاہتا ۔ خدشہ ہے کہ کسی کا نام رہ گیا تو اس کی دل آزاری ہوگی ۔

سوال :    اُردو زبان کے مستقبل سے آپ مطمئن ہیں ۔؟

جواب :   مایوس کن ملکی سیاسی اور معاشی صورتحال کے پیشِ نظر اُردو کے مستقبل کو بھی اُمید افزا قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ  جب تک کوئی زبان سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان نہیں بنتی اُس وقت تک اُس کا survival ممکن نہیں ہوتا ۔صرف شعر و ادب کے سہارے زبانیں زندہ نہیں رہتیں ۔اُردو کی بدقسمتی کہ وہ ابھی تک ہمارے اداروں کا اعتماد حاصل نہیں کرسکی ۔ سپریم کورٹ کے آرڈر کے باوجود اُردو کو اُس کا صحیح مقام نہیں مل سکا ۔ انگریزی کی supremacy ہر جگہ قائم ہے ۔

سوال :    اُنیس(۱۹)شعری مجموعوں پر مشتمل ’’اِتمام‘‘کے نام سے آپ کے تین کلیات شائع ہوچکے ہیں اور اُن

                        پر ایم۔ فل سطح کے تین مقالہ جات بھی لکھے جاچکے ہیں ۔ کیا آپ مقالہ نگاروں کے کام سے مطمئن ہیں ۔؟

جواب :   کچھ زیادہ نہیں…کیونکہ ننانوے فیصد مقالہ نگار بہت جلدی میں ہوتے ہیں ۔ اُنھیں صرف ایم ۔ فل کی ڈگری حاصل کرنا ہوتی ہے ۔ معیار سے اُنھیں کوئی غرض نہیں ہوتی ۔ وہ یہ کام ملازمت کے حصول یا تنخواہ میں اضافے کے لیے کرتے ہیں اور اس بات کا انھیں احساس دلانے والا بھی کوئی نہیں ۔جس کے باعث ہمارا بہت سا ٹیلنٹ ضائع ہو رہا ہے ۔ میں اُن کی ذہانت کا دل سے قائل ہوں لیکن وہ بیچارے کیا کریں؟ ان کی سمت کا صحیح تعین کرنے والاکوئی نہیں ۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں بہت قابل اساتذہ موجود ہیں جو اس ذمہ داری سے کماحقہ‘ عہدہ برآہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ بس اپنے سٹوڈنٹس کے لیے اپنے اندر ذرا سی ہمدردی پیداکرنے کی ضرورت ہے ۔

            ایم ۔ فل candidates کے حوالے سے یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ اُن کی اہلیت جانچنے کے لیے متعلقہ مضمون اورموضوع کے علاوہ انھیں سخت قسم کے نفسیاتی ٹیسٹ سے گزارا جائے اورکسی قسم کی رُو رعایت اور سفارش کے بغیر سلیکشن کا صاف شفاف طریقہ اختیار کیا جائے ۔ تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ کیا اُن کے شوق passion یا ذہنی اُپج کا بھی اُن کی تعلیمی سرگرمیوں میں کچھ دخل ہے یا محض وقتی مفاد یا لالچ  کے تحت وہ یہ فریضہ انجام دینا چاہتے ہیں ۔

            جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے مجھے تو کسی ایسے شخص کی تلاش ہے جو روایت شکن ہو ۔ مجھ پر کام کرتے ہوئے مروجہ قواعدوضوابط یعنی رائج تنقیدی اصولوں سے انحراف کرنے والاہو ۔ میری یہ خواہش میرے ہی ایک شعر میں اِس طرح بیان ہوئی ہے ۔

؎ راستہ بھول کے پا لو گے نئی دنیا اک دن

مجھ سے تم بے خبر اک لغزشِ پا ہونے تک ہو

            جب تک کوئی نقاد راستہ نہیں بھولتا میری شعری دنیا کو دریافت نہیں کرسکتا ۔

سوال :    آپ کو یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ ’’اِتمام‘‘کے نام سے سات شعری مجموعوں پر مشتمل آپ کا کلیاتِ سلام صنفِ سلام میں اُردو کی پہلا کلیات ہے جو ہمارے علاقے کے لیے اعزاز کی بات ہے ۔ اس کے علاوہ بارہ شعری مجموعوں پر مشتمل دو کلیات جن میں سے ’’بلا مبالغہ ‘‘کے نام سے ایک مجموعہ قطعات پر مشتمل ہے باقی سب مجموعے گنتی کی کچھ نظموں کے علاوہ غزلوں پرمبنی ہیں۔’’بلامبالغہ‘‘میں آپ کے وہ قطعات شامل ہیں جوروزنامہ ’’عوام کی عدالت‘‘میں شائع ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ ۲۰۱۲ء سے تاحال جاری ہے ۔

            پوچھنا میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ نے کلیاتِ سلام میں سلام کے حوالے سے جوتجربے کیے ہیں جن کا ذکر ڈاکٹر ہلال نقوی صاحب نے بھی کیا ہے ‘اِس حوالے سے ہمارے قارئین کوکچھ بتائیں ۔ ؟ دوسرے یہ کہ کلیاتِ غزل میں غزلوں میں ترکیب سازی یا زبان کے حوالے سے جو تجربے موجود ہیں اُن کے بارے میں بھی ہمیں آگاہ کریں اورایک سوال یہ بھی پوچھنا چاہوں گا کہ قطعہ نگاری کی طرف آنے کا خیال کیوں آیا ۔؟

جواب : الحمدللہ! اِتمام کے نام سے سات شعری مجموعوں پر مشتمل میرا کلیاتِ سلام صنفِ سلام میں اُردو کا پہلا کلیات ہے ، یہ بات مجھے سب سے پہلے برادرِ عزیز پروفیسر شہاب صفدر نے بتائی کہ آپ کا کلیات صنفِ سلام میں اُردو کا پہلا کلیات ہوگا اور اشاعت کے بعد جب میں نے ڈاکٹر ہلال نقوی صاحب کو اس کا ایک نسخہ بھیجا تو انھوں نے بھی اپنی تحریرمیں میرے کلیاتِ سلام کی اس تاریخی انفرادیت کا ذکر کیا ہے ۔صنفِ سلام کے حوالے سے ڈاکٹرصاحب نے مولاناشبلی کا یہ جملہ بھی نقل کیا

’’سلام غزل ہی کی طرز پر ایجاد کیا گیا ۔اس کی بحریں بھی وہی ہیں ،دردانگیز ، پُرتاثیر ، سادہ و صاف مضمون‘‘ اس کے بعد ڈاکٹر ہلال نقوی صاحب لکھتے ہیں کہ ’’اقبال حسین کے سلام شبلی کے اس دائرہء خیال کو بھی توڑ کر اپنی تہذیبی تعریف خود متعین کرتے ہیں۔‘‘

            جہاں تک نظموں اورغزلوں کا تعلق ہے مَیں نے اس میں ترکیب سازی وغیرہ کے تجر بے کیے ہیں۔’’سورج گری ہے فن اپنا‘‘میرے پہلے شعری مجموعے کا نام ہے ۔ سورج ہندی لفظ ہے اور گری فارسی …ایک نظم ہے ’’مشرق کے باسی‘‘جس میں سورج خیز کی ترکیب استعمال ہوئی ہے ۔اسی شعری مجموعے میں شامل ایک غزل جو کہ اس کے پہلے ایڈیشن میں شامل نہیں تھی کا شعر ملاحظہ ہو

رُکے نہیں مِرا وینڑِ مسلسل ایسے میں

سہولت اتنی میسر ہو مجھ کو نرغے میں

             درج بالا مطلع میں ’’ وینڑِ مسلسل ‘‘ کی ترکیب شامل ہے ۔ اسی طرح اسی غزل کا ایک اور شعر بھی ایسا ہی تجربہ ہے ۔

پھر اُس کی صحّتِ مَت پر نہ کیوں ہو شک سب کو

جو موت لے کے رہا زندگی کے بدلے میں

            درج  بالا اشعار میں ’وینڑِمسلسل‘‘ میں وینڑ سرائیکی زبان کا لفظ ہے جب کہ مسلسل عربی زبان کا۔ اسی طرح دوسرے شعر میں ’صحّتِ مَت‘ میں مَت سرائیکی ، سنسکرت اور پنجابی زبان کا لفظ ہے جبکہ صِحّت عربی زبان کا لفظ ہے ۔شعری مجموعے’’آسماں زیرِ زمیں ‘‘میں درج ذیل شعر میں محاورے کی مستندمروّجہ شکل کو تبدیل کردیا گیا ہے ۔

کون سمجھے مری آواز کا مفہوم حُسینؔ

خَلقتِ شہر میں صحرا بہ صدا پہنچا ہوں

            جہاں تک میری قطعہ نگاری کا تعلق ہے تو اس بارے عرض ہے کہ میرے اندر ایک ایسا شخص ہمیشہ موجود رہا ہے جو سیاست میں عملی کم لیکن سوچنے کی حد تک بے پناہ دلچسپی رکھتا ہے ۔ جس کا سیاست میں بھی حق اور باطل کو پرکھنے کا مخصوص پیمانہ ہے ۔۱۹۷۶ء ۱۹۷۷ء میری شعری بلوغت کی عمر ہے ۔مَیں نے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا بہت اثر لیا تھا اور اُس کا اثر میرے پہلے شعری مجموعے’’ سورج گری ہے فن اپنا‘‘ میں دیکھا جاسکتا ہے ۔لہٰذا اپنے اسی جذبے کی تسکین کے لیے میں نے قطعہ نگاری کاسہارا لیا اور میری خوش قسمتی کہ میرے دوست اور چیف ایڈیٹر روزنامہ’’عوام کی عدالت‘‘رانا انیل چوہان نے بھکر سے اپنے اخبار کا اجراء کیا اور میں نے ان کے اخبار میں قطعہ نگاری کا آغاز کیا‘ سو۲۰۱۲ء سے اب تک سیاسی ومعاشرتی مسائل پر میرا قطعہ روزانہ شائع ہوتا ہے ۔

سوال :    پاکستان کے حالات کیا رُخ اختیار کرتے دیکھ رہے ہیں ۔؟

جواب :

؎          مریضِ عشق پر رحمت خدا کی……   مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

سوال :    اُردو شعر و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے آپ نے جو ادبی تنظیمیں بنائی ہیں اُن کے نام اورکام کے حوالے سے کچھ بتا ئیں ۔؟

جواب :   میں’’بزمِ فکرِ جدید‘‘اور’’صحراب ادبی فورم‘‘کابانی اور صدرہوں ۔۱۹۸۶ء میں مَیں نے ’’بزمِ فکرِ جدید‘‘ کے نام سے ایک ادبی تنظیم بنائی جس کا مقصد ادب میں ترقی پسندانہ نظریات وخیالات کو رواج دینا تھا ۔ میں اِس کا صدر اور کردار صدیقی اس کے جنرل سیکریٹری تھے ۔ میرا پہلا شعری مجموعہ’’سورج گری ہے فن اپنا‘‘ اسی تنظیم کے زیرِ اہتمام شائع ہوا ۔ اب روزنامہ’’عوام کی عدالت ‘‘کے چیف ایڈیٹر رانا انیل چوہان اِس تنظیم کے جنرل سیکریٹری ہیں ۔

            دوسری تنظیم ۱۹۸۷ء میں رانا انیل چوہان اور میں نے ’’صحراب‘‘ ادبی فورم کے نام سے بنائی ۔ واضح رہے کہ لفظ ’’صحراب‘‘ مجھ خاکسار کی اختراع ہے جوکہ دولفظوں صحرا اورآب کامرکب ہے ۔میرے پہلے کلیات ’’اِتمام‘‘ میں میری کچھ غیر مطبوعہ غزلیں صحراب کے عنوان سے شامل ہیں ۔ ہمارا ایک ادبی رسالہ نکالنے کا پروگرام بھی تھا جس کے لیے صحراب پبلی کیشنز کا ادارہ بنایا گیا ۔ ادبی رسالہ نکالنے کا ہمارا خواب تو پورا نہ ہوسکا البتہ رائو سخاوت علی خاں مالی پانی پتی کی دوکتابیں ’’مہتاب رُتیں‘‘(۱۹۹۰ء) جوکہ سہروں پرمشتمل ہے اور دوسرا اُن کا نعتیہ شعری مجموعہ’’سکونِ دل‘‘ (۱۹۹۲ء) اس کے زیرِ اہتمام ہم نے  شائع کیے ۔ یہ وضاحت بھی کرتاچلوں کہ بھکر میں ہمارے ایک دوست ثاقب عابدی ۲۰۰۷ء میں اپنا ایک اخبار نکالنا چاہتے تھے اور اس کانام وہ صحراب رکھنا چاہتے تھے ۔ ان کی اس خواہش کااظہارہمارے مشترکہ دوست شاہد بخاری نے مجھ سے کیا۔جس کی میں نے انھیں اجازت دے دی ۔ لہٰذا دوتین سال صحراب کے نام سے وہ اپنا اخبار نکالتے رہے ہیں ۔

ٖٖسوال :            قارئین کو کیا پیغام دینا چاہیں گے ۔؟

جواب : پاکستان کے ساتھ مخلص رہیں ‘جس شعبے ، جس پیشے سے وابستہ ہیں اس کے ساتھ انصاف کریں ۔دُکھی انسانیت کی بہتری کے لیے کام کریں…آپ اَوروں کے مسئلے حل کریں آپ کے مسئلے خدا حل کر دے گا…اپنی سوچ مثبت رکھیں…

maqbool

مقبول ذکی مقبول

بھکر پنجاب پاکستان

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

پرائمری سکول ملہووالہ ! تاریخ

ہفتہ اپریل 8 , 2023
نہا دھو کر سرمہ لگا کر ۔ تیل سے بال چمکا کر اور ڈِنگا چیر (مانگ) کڈھ کے پیدل چل پڑے ۔گنڈ اكس سے بس پکڑی اور کمڑیال پہنچ گئے۔
پرائمری سکول ملہووالہ ! تاریخ

مزید دلچسپ تحریریں