عاشق مست جلالی
تحریر: محمد فاروق خان
ادب کا میلہ لگے یا کتابوں کاشہر سجےہماری یاداشت کا گوگل جبی شاہ دلاور کا میلہ ڈھونڈ کرسامنے لے آتا ہے۔جبی میلے کئی دہائیوں تک علاقائی تفریح کا واحد ذریعہ رہاجس سےعلاقائی ثقافت کو سہارااور کاروبار ی ترقی کو سنبھالا ملا۔جبی میلے پر کتابوں کے سٹال تو کبھی نہ لگے البتہ کتابی چہرے اور ثقافتی ماڈلز گڑ کی ریوڑیوں کے سٹال پہ ضرور دیکھے جاتےتھے۔نئے ضلع تلہ گنگ کو پاکستان کے نقشے پر نمایاں اور منفرد کرنے کے لئے لٹریری فیسٹیول کا انعقاد خوش آئند ہے۔منتظمین میلہ اور قومی ادب کی نامور شخصیات کو خوش آمدید۔اس میلے کی وساطت سے ہمیں یقین ہو چلا ہے کہ ادب کے سالاراس دھرتی پر بھی ادب کے بیج بوئیں گے تاکہ جب اگلی گلاب رتوں میں وہ دوبارہ آئیں تو انہیں ادب کے سرخ گلابوں کی مہک محسوس ہو۔
تلہ گنگ پروفیشنلزنیٹ ورک کے میلے سے پہلے سعید اختر ملک دڑبٹہ میں قومی سطح کے کامیاب مشاعرے کا انعقاد کر چکے ہیں جسے علاقائی طور پر خوب پذیرائی ملی۔اب تلہ گنگ میں ادبی میلے کا پہلامنفردتجربہ یقینا علاقائی پسندیدگی کا باعث بنے گا۔ مقامی ثقافت بھی اپنا رنگ جمائے گی ڈھول کی تھاپ،شہنائی کی گونج اورلاوہ تلہ گنگ کی لڈی میلہ لوٹ لے جائے گی۔منتظمین میلہ اور ادب کی منفرد شخصیات میں بیوروکریٹک ٹچ نمایاں ہے شاید اسی لئے وہ علاقے سے کسی نامعلوم و بے نام( شاکر شجاع آبادی) کو حالات کے کرب سے نکال کر آسمان ادب تک نہ لا سکے شاید بہت سارا بے نام ٹیلنٹ جسے کھوجنے کی ضرورت تھی محروم اور ما یوس رہ جائے گا۔
ادب کے دائرے سے باہر کھڑے ہم جیسے لوگ جو ادب کی تعریف کرنےسے بھی نا بلد ہیں وہ ادب اور ادبی میلے کا احاطہ کیسے کرسکتے ہیں؟ ادب کو جاننے کے لئے ادب کے درباروں سے فیض یاب ہونے کی ضرورت ہے۔(کارڈینل نیومن )کے بقول انسانی افکار و احساسات کا زبان اور افکار کے ذریعے اظہار ادب کہلاتا ہےجبکہ (میتھیو آرنلڈ )ہر اس علم کو جو کتاب کے ذریعے ہم تک پہنچے ادب قرار دیتا ہے۔(والٹر پیٹر )کا خیال ہے کہ ادب واقعات یا حقائق کو صرف پیش کر دینے کا نام نہیں بلکہ ادب کہلانے کے لئے اظہار بیان کا تنوع ضروری ہے۔ادیب جس میں ادراک کی صلاحیت اور اظہار کی قوت بھی ہوتی ہے۔ادیب کا کردار انفرادی اور ذاتی ہونے کے ساتھ ساتھ آفاقی بھی ہوتا ہے۔ادیب اور ادب معاشرتی ذمہ داریوں سے لا تعلق نہیں رہ سکتے۔
جب سیاست دان طاقت کے تخت پر قبضے کی جنگ میں دست و گریباں ہوں اور جمہوریت صرف تقریروں اور تحریروں میں شرمندہ ہو رہی ہو۔جب حالات کا جبر بے یقینی پیدا کر رہا ہو۔جب سفید پوشوں کو مہنگائی سے عزت نفس کے مجروح ہونے کا یقین پختہ ہو رہا ہو۔قوت خرید دم توڑ رہی ہو۔جب دشت زندگی میں کوئی شجر سایہ دار کم کم میسر ہو۔ جب ظلم کے سامنے حق پیش کرنے والے نا پید ہونے لگیں۔دہلیز پہ سستا اور فوری انصاف والا سلوگن اپنی موت آپ مر جائے تو لازم ہے کہ معاشرتی جمود کو ادبی ارتعاش سے متحرک کیا جائے۔
اہل دانش کوتدبر کرنا ہوگا کہ عہد رفتہ میں ادب نےمعاشرے کو کیا دیا اور مستقبل قریب میں ادب کیا کچھ دینے والا ہے۔ ۔مزاحمتی ادب مزاحمت سے نا آشنا ہورہا ہے ۔ ادیب اور شاعرکی عزت نفس بھی خطرے میں ہے ۔ کتاب بھی اشاعت سے گریزاں ہونے کو ہے۔ادب کو شخصی دائروں میں بند رکھ کر تواصی بالحق سے گریزاں نہیں ہونا چاہئے،ادب جب ظلم و ناانصافی کا ادبی حصار نہ کر سکے اور معاشرے کو تنہا چھوڑ دے تو ادب کے لئےلمحہ فکریہ ہو جاتاہے۔ادب اگر بے لگام سیاستوں کو ویژن نہیں دیتا اور نوجوان کو اقبال کا شاہین نہیں بناتا۔بے یقینی کو یقین کی دولت سے سرفراز نہیں کرتا تو ادب کو نئی تحریک دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ادب کو بے ضرر امن کا خرگوش بھی رہنا چاہئے لیکن کبھی کبھی ادب کے شیر کی دھاڑ بھی سنائی دینی چاہیے تاکہ طاقت اور اختیار کے فرعونوں کو ادب سے بھی خطرہ محسوس ہو۔ادب برگر کی طرح نہیں ہونا چاہئے کہ فوڈ سٹریٹ میں جا کر کھایا جائے اور کولڈ ڈرنک پی کر گھر چلا جائے۔ادب کامعاشرتی کردار ہونا چاہئے ، جسےنظر بھی آنا چاہیے اور انسانیت کو مستفید بھی کرنا چاہیے ۔ادب کی طاقت مصلحت اور مفاد کے طابع نہیں ہونی چاہیے۔ادب پر معاشرتی اعتبار قائم رہنا چاہئے۔ ادب کو اجتماعی طاقت اور حرمت ادب کی طرف بڑھنا ہوگا۔ادب کو بھی عاشق مست جلالی ہونا چاہئے۔
محمد فاروق خان
ٹمن، ملتان
پنجاب، پاکستان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔