دیہاتی مکان، کنویں اور باڑے
سٹینڈرڈ سائز کے کمرے میں ستون / تھم ضرورت نہیں آئی۔ لاہنی مسجد کا ہال بڑا تھا اس میں ستون تھے ۔اسی مسجد کے پاس والے سکول کے کمرے میں بھی شاید ستون تھے ۔ بعض اوقات شہتیر میں کریک آجاتا تو ایمرجنسی میں کریک کے بالکل نیچے عارضي ستون لگا دیتے تھے ۔اس کا نام تھا۔۔۔تُل ۔۔ ت پر پیش۔ اور ۔۔ل۔۔مشدد۔۔
مکان کے اوپر کا وہ کمرہ جس کے چار دروازے یا چاروں طرف کھڑکیاں ہوتی ہیں اسے چوبارہ کہتے ہیں ۔ شروع میں صرف دو چوبارے تھے ۔ ان کے مالکان تھے، یعقوب کھیڑا صاحب اور حافظ محمد خان صاحب وڑے ۔
1970 تک پورے گاؤں میں صرف دس بارہ بیٹھکیں تھیں۔ ان کی حیثیت ڈرائنگ روم سے زیادہ مردان خانے/ حجرے کی تھی ۔ان میں سارے محلے کے بچے بوڑھے گر میوں میں دس سے دو بجے تک چار گھنٹے گزارتے تھے ۔ منشی کرم الٰہی صاحب کی بیٹھک چوبیس گھنٹے آباد رہتی تھی ۔ 1970 میں منشی صاحب کی تین حاضر سروس بیگمات تھیں۔ منشی صاحب کا گاؤں والے گھر کے علاوہ نلی والے کھوہ پر فارم ہاؤس بھی تھا ۔منشی صاحب کی بیٹھک کا رقبہ بہت زیادہ تھا ۔اس میں ایک کمرے کا اضافہ کرکے ریٹائرمنٹ کے بعد دکان بھی ڈالی تھی ۔ محمد جان صاحب کی بیٹھک میں ان کے بھانجے مہر خان نے خوبصورتی کے لئے چارٹ لگائے ہوئے تھے۔ یہ چارٹ میٹرک کے معاشرتی علوم ( Social Studies) کے بارے میں تھے ۔مثال کے طور پر منگلا ڈیم کا کثیرالمقاصد منصوبہ وغیرہ۔
عام لوگ گرمیوں میں مویشی واڑے/ باڑے میں باندھتے ۔ کانٹے دار شاخوں/ دھوڑوں کی باڑ سے بنے ہوئے احاطے کو باڑہ کہا جاتا ہے ۔سردیوں میں جانوروں کو گڑھے ( گاف کے اوپر پیش) میں باندھا جاتا ۔کھاتے پیتے لوگ ڈنگروں کے لئے علیحدہ حویلی بناتے ۔اس میں بھوسے کا کمرہ بھی ہوتا تھا اور واش روم بھی۔ خالو اختر صاحب کی بھینس والی حویلی گلی کے پار تھی ۔اس لئے اس کا نام ہی پار پڑ گیا تھا ۔ واش روم جو پرانے زمانے میں چھرچھوبی کہتے تھے ۔بھوسے کے کمرے کا ایک خاص ڈیزائین تھا۔ اس کی چھت کے سنٹر میں بڑا سوراخ ہوتا تھا ۔ کھلیان سے لایا ہوا بھوسا چھت پر چڑھاتِے اور سوراخ کے ذریعے کمرے میں ڈال دیتے ۔ پھرکمرے میں جا کر بھوسے کو لتاڑتے/ پریس کرتے۔یہ عمل بار بار دہرایا جاتا یہاں تک کہ کمرہ بھوسے کی مناسب مقدار سے بھر جاتا،اس کے بعد سوراخ پر الٹا گھڑا رکھ کر مٹی کا لیپ کر دیتے ۔
نانا جی عبدالحق 55 سال کی عمر پوری ہونے پر 1962 میں ریٹائر ہو گئے ۔ مڈھے کھوہ کے ساتھ انکی زرعی زمین تھی اس پر انہوں نے نیا مکان بنایا جو ان کے جمالیاتی ذوق کا مظہر ہے۔ شمال میں تین کمرے جن میں سے ایک ایکسٹرا لارج سائز کا ہے۔تینوں کمروں اور کچن کے دروازے برامدے میں کھلتے ہیں ۔کچن کے اوپر لکڑیوں/ بالنّ کا سٹور روم۔ یہ سہولت کسی اور گھر میں نہیں دیکھی۔ میگا روم میں ایک سائڈ پر ایک پڑچھتی ڈال کر غلے کا سٹور بنا دیا گیا ۔ اسی کمرے کے ساتھ اٹیچ باتھ تھا۔ اس وقت یہ بھی نئی چیز تھی۔
کشادہ صحن کی جنوبی سائڈ پر پانچ کمروں کی لائن ہے۔ان میں بیٹھک ، مہمان خانہ، سٹور اور بھینس کا کمرہ ہے ۔بیٹھک کے سامنے وسیع صحن اور پارکنگ ہے ۔مکان کے مین گیٹ پر ماموں عرفان نے یہ شعر لکھوایا تھا۔
ہر کہ آمد عمارت نو ساخت
رفت منزل بدیگرے پرداخت
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔