کامیابی کے لفظی معنوں سے تو ہم سب واقف ہیں ” اپنی سوچ، خواہشات اور مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ” وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کیا پا لینا ہی اصل کامیابی ہے؟
اکثر اوقات ہمیں اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو کیا ہم اسے مکمل ناکامی سمجھیں یا اس دورانیے میں حاصل ہونے والے اسباق جن سے ہم نے کچھ سیکھا اس کو کسی حد تک مثبت رویے اور سوچ رکھتے ہوئے ایک اور زاوئیے سے کامیابی ہی سمجھیں؟ بحیثیت مسلمان اگر ہم دیکھیں تو دن میں پانچ مرتبہ ہمارا رب ہمیں کامیابی ( حی علی فلاح ) کیطرف بلاتا ہے اور ہم جان کر بھی اکثر انجان بن جاتے ہیں اور یہاں وہاں وقتی اور بے معنی کامیابی ڈھونڈتے بھٹکتے رہتے ہیں۔ کامیابی ہمیشہ ایک سی نہیں ہوتی میرے نزدیک یہ ایک کیفیت ہے جو ہم محسوس کرتے ہیں خود پر طاری کرتے ہیں اس کی کیفیات بدلتی رہتی ہیں اس کے معنی اور مفہوم وقت اور حالات کیساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ بچپن میں بھوک لگے تو دودھ ملنا کامیابی، زرا بڑے ہوے اعزاء میں تقویت آئی تو بیٹھنا اور کھڑے ہونا کامیابی، چلنا شروع کرنا کامیابی، ساہیکل کا پیڈل خود سے گھما لینا کامیابی، گڑیا کی شادی رچا لینا کامیابی، گُلڑ سے پیسے چرا لینا کامیابی، دادی سے لیکر پان کی گلوری کھا لینا کامیابی، امی کی مار سے بچ جانا کامیابی، ابا کے کاندھوں پر بیٹھنا کامیابی، درخت پر چڑھ جانا کامیابی، بارش کے بعد رکے پانی میں کودنا کامیابی، سکول جانا کامیابی، اپنے پسندیدہ کھلونے حاصل کرنا کامیابی، عید پر عیدی اور سالگرہ یا نیا سال یا کرسمس میں تحائف ملنا کامیابی، کھیلوں میں جیتنا سکول میں پاس ہونا کامیابی، ڈگری لینا، ڈرائیونگ لائسنس لینا کامیابی، نوکری ملنا یا کاروبار میں منافع کامیابی، من پسند محبوب کو حاصل کرنا اس سے بڑی تو کوئی کامیابی ہو ہی نہیں سکتی خواہ آپ میدان جنگ میں فتح حاصل کر لیں لیکن جو مزہ محبوب کو حاصل کرنے میں ہے وہ کسی اور کامیابی میں نہیں اس کے سامنے ہماری تمام تر کامیابیاں بے معنی سی لگتی ہیں کچھ لوگ تو عشق میں ناکامی کے بعد عامل بنگالی بابا کے تعویز سے محبوب قدموں میں آجاے اس طرح سے کامیاب ہونا چائتے ہیں۔
پاکستان میں اگر آپ ٹریفک سگنل پر رکیں تو آپ کو بچے غبارے بیچتے ہوئے نظر آہیں آگے ایک بچہ غبارہ بیچ کر کامیابی محسوس کرتا ہے کہ آج کا ٹارگٹ یا مطلوبہ حدف حاصل کرلیا ہے اور ایک بچی وہ غبارہ خرید کر خود کو کامیاب اور فاتح محسوس کرتا ہے کہ آج میرے سب دوست دیکھیں گے کے میں کیا پیارا غبارہ لایا ہوں بڑے ہو کر بھی اسی قسم کی کامیابیوں کے پیچھے دوڑتے ہیں اور وہی غبارہ اب انشورینس پالیسی یا مکان یا زمین یا مال و زر میں یا کسی عہدے میں بدل چکا ہوتا ہے۔
بچپن کی کامیابیوں کا زکر ہوا تو ساتھ ہی مجھے میرے بھائیوں جیسے دوست اور نوجوان نسل کے مقبول و معروف شاعر عزیزم قمر ریاض کا ایک شعر یاد آیا ؛
وہ کچی خواہشوں کے دن بھی کیا تھے ،
کہ جب تتلی کو چھو لینا بہت تھا
اب یہ بھی ہمارے لئیے بچپن اور بھولی بھالی عمر میں حاصل کی گئی ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔
یہاں پاکستان میں خاص طور پر ہمارے شہر اٹک اور جہاں میں رہاہش پزیر ہوں اس علاقے کو اکثر جلال آباد کہتے ہیں وہ اس لئیے کے یہاں بہت سے افغان مہاجرین مقیم ہیں پچھلے دنوں ایک گھر سے افاغنی پلاؤ آیا تو پتا چلا کہ ان کے ہاں خوشی کا موقع ہے ان کا ریفیوجی (یا اس کا درست نام مجھے یاد نہیں) پاکستان گورنمنٹ کا کارڈ بن گیا ہے یہ ان کیلئے ایک بہت بڑی کامیابی تھی اور ہم اپنے اس وطن کو کچھ سمجھتے ہی نہیں یہ تو ان سے پوچھیں جو غریب الوطن ہوں اور ایک طرف میرے ایک جاننے والے کو امریکہ کا گرین کارڈ ملا وہ ان کیلئے کامیابی تھی تو کامیابی کے معانی موقع محل اور وقت کیساتھ حسب ذائقہ بدلتے رہتے ہیں۔ ایک چھوٹے بچے ایک جوان اور ایک عمر رسیدہ شخص کیلئے ان کی عمر اور سوچ کی پختگی کے مطابق کامیابی کے معیار مختلف ہوں گے، ایک گاؤں کا رہنا والا اور ایک شہر میں رہنے والا، ایک بیمار اور ایک صحت مند انسان یہ سب مختلف انداز اور زاویوں سے کامیابی کی پیمائش کرتے ہیں اور یہی مسئلہ ہے کے سب نے کامیابی کے ناپ تول کیلئے الگ الگ پیمانے بنائے ہوئے ہیں پیدل چلنے والا شخص ساہیکل چلانے والے کو دیکھتا ہے سائیکل چلانے والا موٹر سائیکل چلانے والے کو موٹر سائیکل چلانے والا گاڑی چلانے والے کو اور گاڑی چلانے والا کسی ٹریفک سگنل پر رک کر پیدل چلنے والوں کو حسرت سے دیکھتا ہے کہ کاش میرے پاس پیدل چلنے کا وقت ہوتا۔ عزیزان من یہ ایک ایسا خودساختہ سا کامیابی کا دائرہ ہے جسمیں ہم سب گول گول ایک دوسرے کے پیچھے گھوم رہے ہیں کولو کے بیل کیطرح اور کولو کا بیل تو پھر ہمیں اس مشقت کے بعد کچھ مہیا کرتا ہے لیکن ہم جس دائرے میں گھوم رہے ہیں یہ تو ایک لاحاصل کی دوڑ ہے۔ یہاں اب تک میں جس قسم کی دنیاوی معاملات میں کامیابی کا تزکرہ کر چکا ہوں اس کو جزوی کامیابی کہتے ہیں اور ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں کی مطابق کُلی کامیابی حاصل کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے جیسا کے میں نے موضوع کے شروع میں عرض کیا کہ ہمارا رب جو رحیم ہے کریم ہے لطیف ہے ہمیں دن میں پانچ مرتبہ کُلی کامیابی کیطرف بلاتا ہے ” حی علی الفلاح ” لیکن ہم ایسے نادان ہیں کے اس سے غافل ہیں اللہ ہم سب کو کُلی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب کرے آمین اور جیسا کے کتاب لاریب میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى: بیشک جس نے خود کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگا۔
اس آیت میں لفظ ’’ تَزَكّٰى‘‘ سے مراد خود کو کفر و شرک اور گناہوں سے پاک کرنا ہے اور نماز کے لئے طہارت حاصل کرنا ہے۔ یہی آیت صوفیاء کے نزدیک تَزْکِیَہ یعنی کے دل کو برے عقیدے، برے خیالات اور تصور غیر سے پاک کرنا ہے۔ دل کی صفائی یا وہبی ہے یا کسبی یا عطائی۔ وہبی تزکیہ پیدائشی ہوتا ہے، کسبی اپنے اعمال سے جبکہ عطائی کسی کی نظر سے، جیسے بادل اور سورج دور رہتے ہوئے بھی گندی زمین کو پاک کر دیتے ہیں، ایسے ہی اللہ والوں کی نظر دور سےبھی گندے اور دنیاوی میلوں سے اٹے دلوں کو پاک کردیتی ہے۔
اللہ ہم سب کو کُلی کامیابی عطاء کرے، آمین۔
تحریر و تحقیق: شاندار بخاری
مسقط، سلطنت عمان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔