14فروری اور بہن نسیم جنجوعہ
(بلا تامل، شاہد اعوان)
14فروری کا تصور موجودہ صدی میں نوجوان نسل نے کیا لے رکھا ہے اور وہ اس دن کو کس انداز سے مناتے ہیں ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ میرے لئے اس روز کی اہمیت تقریباٌ ایک دہائی قبل تب ہوئی جب میری انتہائی محترم بہن نسیم جنجوعہ (مرحومہ ومغفورہ) نے مجھے فون پر راولپنڈی کے ایک ہوٹل میں ڈنر پر مدعو کیا اور بتایا کہ ایک فیملی فنکشن ہے جس میں آپ اور آپ کے گھر والوں کی حاضری بہت ضروری ہے۔ رات کو جلد سونے کے عادی ’نائٹ فنکشنز‘ میں شرکت سے اس لئے گھبراتے ہیں کہ ان کو بقیہ رات بھی آنکھوں میں گزارنی پڑتی ہے۔ مگر ایک بہن کے حکم کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا اور ان کا حکم کسی طور ٹالا نہیں جا سکتا تھا ، چنانچہ جب اس دعوت کا ذکر ان کے محبوب شوہر اور اپنے برادرِ عزیز ملک صفدر علی اعوان سے کیا تو انہوں نے فقط اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ یہ آپ اور آپ کی بہن کا معاملہ ہے ۔۔۔ ساری عمر شہر میں گزار دینے والا پینڈو رہتا پھر بھی پینڈو ہی ہے سو میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ’14فروری‘ کا دن آج تو بچے بچے کو معلوم ہے معصوم بچے بھی پھولوں کی پنکھڑیاں لے کر اپنے اساتذہ کو پیش کر کے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں، اس روز بازاروں میں گلاب کے پھول کی ایک کی ننھی سی ٹہنی بھی پانچ سو روپے سے کم نہیں ملتی بلکہ گل فروشوں کی اس دن کی سیل سارے سال پر بھاری ہوتی ہے۔
خیر وہ دن آ ہی گیا اور فقیر دل میں وسوسے لیے مقررہ مقام پر پہنچا تو کیا دیکھا کہ جیسے ہر طرف رنگ و نور کا سیلاب امڈ آیا ہو، گلاب اور دیگر خوش نما پھولوں کا انبار جابجا لگا ہوا ہے۔ ہوٹل کے داخلی دروازے پر ہماری بہن صاحبہ استقبال کے لئے بنفس نفیس موجود ہیں ان کی صاحبزادیاں شہزادی، کرن اور کنزیٰ بھی اپنی جان سے عزیز والدہ کے ہمراہ مسکراہٹیں بکھیرتی موجود تھیں ان کا محبت و خلوص سے بھرپور پرتپاک استقبال مجھے آج بھی نہیں بھولا۔ یون اس رنگوں اور خوشبوئوں سے مزین خالص فیملی فکنشن کا عقدہ ہم پر یوں کھلا کہ 14فروری ان کی شادی کی سالگرہ اور سب سے بڑی صاحبزادی ’شہزادی‘ کا جنم دن ہے جس کے لئے یہ رونقیں لگائی گئی ہیں اور یہ اہتمام 1993ء سے متواتر ہر سال اسی سج دھج اور دھوم دھام سے کیا جا رہا ہے جس میں فیملی فرینڈز کو مدعو کر کے اپنی خوشیوں میں شریک کیا جاتا ہے ۔ برادرم صفدر اعوان اور بیگم نسیم جنجوعہ 14فروری 1992ء کو نکاح کے بندھن میں بندھے تھے لہٰذا ہر سال اس روز وہ ایک دوسرے کو سونے کی انگوٹھیاں پہنا کر اپنے ازدواجی تعلق کو دوام بخشتے ہیں اور تقریب میں شریک مہمانوں کی رنگ برنگے کھانوں سے خوب تواضع کی جاتی ہے یوں رات گئے یہ خوبصورت یادگار تقریب اس آس اور امید پر اختتام پذیر ہوتی ہے کہ اگلے سال اس سے بڑھ کر رنگ بکھیرتی تقریب میں شرکت کا موقع ملے گا ۔ جون 2020ء میں اس بے مثال جوڑے اور لاجواب گھرانے کو نظرِ بد یوں کھا گئی جب ہماری عزیز بہن کو نامراد بیماری ’کورونا‘ نے آناٌ فاناٌ نگل لیا۔۔۔۔ اور یکدم 28سالہ لازوال رفاقت اور ہنستا مسکراتا یہ گھرانہ آہ و بکا میں بدل گیا ۔۔۔۔ وہ خاتون جو اپنے اہلِ خانہ کو ایک پل کے لئے نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی تھیں اچانک ہمیشہ کے لئے اس دیس سدھار گئیں جہاں سے واپسی ناممکن ہے ۔ اب گزشتہ تین سالوں سے یہ تقریب ایچ الیون قبرستان میں ’’سجتی‘‘ ہے اور پڑوس کی قبریں بھی ’’جگمگاتی‘‘ ہیں۔ آہ یارِ عزیز رئوف امیرؔ یاد آگئے:
اپنی شدت میں سے سب سے جدا عشق ہے
یہ جو ڈھلتی عمر کا عشق ہے
دل کو دولخت کر جائے گا ایک دن
ہم نہ کہتے تھے یہ دوسرا عشق ہے
ذکر تو اس خوش قسمت گھرانے کا کرنا تھا بس یونہی لکھتے لکھتے نہایت پیارے دانشور دوست جناب جبار مرزا یاد آگئے جو آج بھی اپنی مرحومہ بیگم رانی کو سال بعد نہیں گھنٹوں، منٹوں بلکہ سیکنڈوں کے حساب سے یاد رکھے ہوئے ہیں انہوں نے اپنی مرحومہ بیوی کی یادوں کو امر کرتے ہوئے ’’جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں‘‘ جیسی داستانِ عشق رقم کر کے نئے اور پرانے شادی شدہ جوڑوں کے لئے ایک شاہکار مرتب کر دیا ہے۔ وہ آج بھی سفید شلوار قمیض اور میرون کوٹ زیب تن کیے اپنی محبوبہ بیوی کی یادوں کو اپنے ساتھ لیے چلتے پھرتے ہیں جس کا اظہار وہ یوں کرتے ہیں:
جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں وہ میں ہوں، وہ میں ہوں
جو ذہن سے اترا نہیں وہ تُو ہے ، وہ تُو ہے
آج جب کسی مطمئن اور ہشاش بشاش مرد کو دیکھتا ہوں تو باطن میں اس کی خوش بخت اور جنتی بیوی کا ہاتھ دکھتا ہے ۔ 14فروری کا دن تو پاکستان میں ان کامیاب جوڑوں کے طورپر منایا جانا چاہئے جو دل و جان سے ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں جن کے گھروں سے اونچی آوازیں نہیں آتیں جن کے کچن میں برتن نہیں ٹوٹتے ۔ ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال وہ لافانی کردار ہیں جن میں وفا کا پیکر خواتین ہی تھیں جو اپنی جانوں پر کھیل کر اپنے عشق کو امر کر گئیں ان کا عشق قیامت تک زندہ رہے گا۔ دوسری جانب ایک انتہائی دل دکھانے والا پہلو یہ بھی ہے کہ کئی گھرانے ایسے بھی ہیں جہاںبڑے بڑے محلوں میں رہنے والے جہنم کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اگر ان ’’مظلوم‘‘ خاوندوں کا ذکر کروں جو فقط اپنی مردانگی کا بھرم رکھے ہوئیے ہیں جو عورتوں کی طرح آنسو نہیں بہاسکتے وگرنہ خون کے دریا بہتے نظر آتے۔ میاں بیوی کے خوبصورت رشتے کو اللہ نے کتاب مقدس میں ایک دوسرے کے لباس سے تعبیر کیا ہے اس عظیم فلسفے کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہئے۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔