سوہن حلوہ، پتاسے اور ست رنگییاں
چاچا ریاض صاحب ایئر فورس میں تھے۔ ان کا چک لالہ سے جب بھی کراچی کا سرکاری چکر لگتا وہ فیملی کے بچوں کے لئے احمد سوہن حلوہ ضرور لاتے ۔ ہم لوگ مَرُک مَرُک کر کے کھاتے،بقول ہمارے ایک ڈاکٹر دوست ہر بچے کے حصے میں سوہن حلوہ کی بیوپسی ..Biopsy..آتی۔
گاؤں کی دکانیں نقدی اور بارٹر سسٹم دونوں بنیادوں پر چلتی تھیں۔ لوگ دکان پر غلہ لے جاتے تھے ۔غلے کی پیمائش چتھائی (چوتھائی) اور چہا سے کی جاتی تھی۔ قیمت کا حساب لگایا جاتا اور لوگ اپنی ضرورت کی چیز خریدتے۔ کیش باکس کے ساتھ ساتھ دکانوں پر گندم، مکئی اور باجرے کی بوریاں بھی ہوتی تھیں۔ بارٹر ٹریڈ بچوں کے لیے ایک نعمت تھی۔ گھر والے مو جود نہ ہوتے تو وہ گھر سے اناج / دانے لے کر دکان پر بھاگے آتے اور سنگتریاں / پتاسے خریدتے.
پتاسے سب سے اعلیٰ درجے کی مٹھائی تھی. دولہا کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ پتاسے ایسے کھاتا ہے، جس طرح گدھے گھاس کھاتے ہیں۔
مرھاج پتاسے انج کھینا
جنج کھبل کھینیے ان کھوتے
دولہے کے لئے میوے ،کھوپے ، پتاسے کی لڑیاں بنائی جاتیں ان کو چَھٹی ( چے پر زبر) کہتے۔دولہے کی قسمت پہ رشک آتا کہ مزے مزے سے کھائے گا ۔
افغان کالی چائے پیتے ہیں اور اسے سلیمانی چائے کہتے ہیں۔ اس میں دودھ نہیں ملایا جاتا۔ ایک بار ایک افغانی نے تبصرہ کیا کہ دودھ کی چائے زنانہ چائے ہے۔ افغان چائے میں چینی نہیں ڈالتے۔ شوگر کینڈی سنگتری کو منہ میں رکھا جاتا ہے (Buccal cavity) اور چائے کا گھونٹ پیا جاتا ہے۔ میں نے 1981 میں چائے کے ساتھ سنگتری کا ذائقہ چکھا تھا۔ سنگتری کی شکل اور رنگ سنگترے کی پھانک سے ملتا تھا شاید اسی وجہ سے اس کا نام سنگتری تھا۔ سنگتری کو اٹک شہر میں مچهی کہتے تھے۔اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی ۔
دادی جان نے بچوں کو بادشاہ کی کہانی سنائی ۔اس کی ان گنت دولت کا ذکر کیا،کہانی ختم ہوئی تو دیہاتی بچوں نے سوچا کہ بادشاہ اتنے پیسوں کا کیا کرتا ہوگا۔۔ایک بچے نے کوزے کو دریا میں بند کر دیا
بادشاہ نت گڑ کھینا ہو سی
1966 کی بات ہے۔جہانداد صاحب گنڈا کس والے منشی کرم الٰہی کے بزنس پارٹنر تھے ۔ ماسٹر صاحب ہر مہینے دو سیانے بچوں کو جہاں داد صاحب سے سودے لانے کے لئے بھیجتے ۔سودوں کی تفصیل چٹ پر لکھی ہوتی۔ رستے میں بچہ لوگ اس چٹ پر ایک پاؤ گڑ کا اضافہ کر دیتے ، واپسی کا راستہ گڑ کھانے میں گزرتا۔ تین چار ماہ بعد حساب کتاب ہوا تو ہر چٹ پر ایک پاؤ گڑ لکھا ہوا دیکھ کر ماسٹر صاحب نے ہماری چوری پکڑ لی۔ مناسب جسمانی سزا کے ساتھ شریفانہ مالی جرمانہ بھی ہوا۔ ماسٹر صاحب نے فرمایا کہ ہر مجرم ان کے گھر بالن fire wood پہنچا دے۔ جہاں داد صاحب کے ہاتھ کی چھ انگلیاں(Polydactlyly) تھیں۔
دکان میں موجود بچوں کے کھانے کی سب میٹھی میٹھی چیزوں کا آسان نام شے تھا۔۔یہ بڑا جامع لفظ تھا۔ بچے دکان دار کو پیسے دے کر کہتے چاچا شے پھر مطلوبہ شے کی طرف اشارہ کرتے ۔شہری بچے اس کو چیز یا چیجی کہتے اور گوہر مراد پاتے۔بچے جب بھی کوئی سودا لینے جاتے تو شے ضرور مانگتے۔ اس اور پر ان کو جھنگے کے طور پر ایک دو مکھانے یا بوندی مل جاتی۔
بچوں کی کچھ دل پسند چیزیں یہ ہوتی تھیں ۔ مکھانے ، بوندی، نمکین اور میٹھی پھلیاں پھ پر پیش ،دھاریدار سبز اور لال۔۔بنٹے کی شکل کی میٹھی گولیاں۔منٹگمری کے نائیس بسکٹ جن پر چینی کے موٹے موٹے دانے لگے ہوئے ہوتے تھے ۔ ست پودینہ کی گولیاں اور چاول کے مَرُنڈے ۔ گرمی کے موسم میں گرمی دور کرنے کے لئے گلوکوز کا پاؤڈر جس کی چمچ زبان پر رکھتے ھی پورے جسم میں ٹھنڈک کی لہر دوڑ جاتی تھی۔ ملک بچوں کا ایک خاص ، دلربا اسٹائل ہوتا تھا۔ دکان کی طرف جاتے ہوئے جھولی میں دانے واپسی پر جھولی میں سودا / شِے ۔۔۔۔
فبای آلاء ربکما تکذبان
سلسلہ خوراکاں کا گیارھواں مضمون
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔