کانساں، مڑھنیاں اور رنگلے سراہندے

کانساں، مڑھنیاں اور رنگلے سراہندے- سلسلہ مضامین دیہاتی مکان 1

ملہووالے میں کوئی مکان شمال کے رخ نہیں تھا ۔اس رخ کے مکان میں دھوپ کمرے کے اندر نہیں جاتی،اس کو کہتے ہیں ،لیارا ،پچھاواں ۔شمال رخ مکان کو منحوس سمجھاجاتا تھا۔

1965 تک پورے گاؤں میں پندرہ بیس مکان اینٹوں کے بنے ہوئے تھے ۔اینٹیں نیلے کے بھٹوں سے اونٹوں پر جندری رکھ کر لائی جاتیں ۔ چاچے الطاف صاحب کا مکان شاید 1960 سے پہلے بنا۔ نیلے سے اینٹیں نہیں ملیں اس لئے ان کے چھوٹے بھائی ریاض صاحب دندی گجراں (چکری) سے اینٹیں لائے ۔

ان مقامی بھٹوں میں کوئلے کی جگہ کوندر Cattail plant جلاتے تھے۔ملہووالے میں گکھڑ رمتال نے ذاتی ضرورت کے لئے اپنی ڈھوک کے پاس اینٹوں کی بھٹی بنائی تھی۔ انہوں نے اپنی زمین کو دریا سواں کے کٹاؤ سے بچاؤ کے لئے 1965 میں ٹکر  تعمیر کرائی تھی۔ پچھلے دس پندرہ سال سے دریا سواں نے اپنا رخ بدلا ہوا ہے ۔ملہووالے کا کافی سارا رقبہ کٹاؤ کا شکار ہوا ہے ۔ لیکن چاچے گکھڑ رمتال کی ٹکر اب تک سلامت ہے۔

مقامی لوگوں کے خیال میں خواجہ خضر دریاؤں کے محکمے کے وزیر ہیں۔ انکے کارند ے کٹاؤ کے وقت زمین کھود کر دریا میں ڈ التے رہتے ہیں۔

جب کسی کے مالی حالات اجازت دیتے تو وہ   ماہل تراشیدہ پتھروں سے تعمیر کرا لیتا۔کچھ لوگ   ماہل کا فرنٹ  اگال  ہگري سنگل کھڑی اینٹ سے بنوا لیتا۔کھڑی اینٹ کے پیچھے پتھروں کی چنائی ہوتی تھی ۔

کانساں، مڑھنیاں اور رنگلے سراہندے

دیہاتی مکان کے کچے گھروں میں واحد نیم پختہ کمرہ ماہل( محل) کہلاتا تھا ۔اس کی حیثیت ایک مقدس دربار جیسی ہوتی تھی ۔اس میں انٹری Restricted ہوتی تھی اس میں نہ تو بچے دھماچوکڑی مچا سکتے تھے نہ ہر کوئی ایرا غیرا اس میں منہ اٹھا کر داخل ہو سکتا تھا ۔ ماہل میں رنگین پایوں والے بھاری پلنگ بچھے ہوتے ۔ لمبی دیوار پر لکڑی کی خوبصورت کانس بنی ہوتی تھی جس پر پیتل ، تانبے اور چینی کے برتن رکھے ہوتے ۔ کانس کے اوپر لکڑی کی پٹی پر ہکس ( کلیوں) کی لائن پر سرہانے  سراندو رکھے جاتے ،بغلی دیوار پر لکڑی کی میگا شیلف نما  مڑھنی  بنی ہوئی ہوتی۔ مڑھنی کے اوپر بسترے اور مڑھنی کے نیچے پیٹی اور صندوق ہوتے  ماہل  کا دروازہ کنڈی سے بند ہوتا یا اس پر جندرہ لگا ہوتا۔2019 میں لالے قربان کے گھر گنڈاکس جانا ہوا۔ماہل میں باقی لوازمات کے ساتھ بندوق اور موٹر سائیکل بھی موجود تھا۔ صندوقوں کی 1981 میں تلاشی لی تو اباجی کا شادی 1951 والا کُلہKulla برآمد ہوا۔ ابھی کچھ ماہ پہلے اس کُلے کی ٹوپی سٹور میں نظر آئی تھی۔

بیٹھک یا کمرے کی لمبی دیوار کے سنٹر میں مینٹل پیس ہوتا جس کو مقامی زبان میں انگیٹھی کہتے تھے۔آتشدان کے اوپر بنے ہوئے شیلف کو مینٹل پیس  کہتے ہیں ۔اس کا مقصد آتشدان کے دھوئیں کو کمرے میں پھیلنے سے روکنا تھا ۔ دھواں چمنی کے ذریعے چھت سے باہر نکل جاتا تھا ۔ ہمارا اور خالو اختر صاحب کا گھر 1947 میں بنے تھے ۔ان میں چمنیاں موجود تھیں ۔لیکن کمرہ گرم کرتے کے لئے انگیٹھی جلانا مجھے یاد نہیں پڑتا۔ 1962 میں بننے والی بیٹھک اور نانا جی عبدالحق صاحب کے گھر میں چمنی کے بغیر مینٹل پیس ہیں ۔

مینٹل پیس پر زیبائش کی اشیا رکھی جاتی تھیں (جیسے گلدان، فریم میں سجی تصاویر، وغیرہ)، یا پھر روز مرہ استعمال کی ضروری چیزیں جیسے کتب، فائل، ٹائم پیس، وغیرہ۔ خالو اختر صاحب کی بیٹھک میں ہرنوچ مستریوں نے  1964,میں۔سٹیٹ آف دی آرٹ  انگیٹھی بنائی تھی۔ میرے علم کے مطابق پورے ملہووالے میں یہ سب سے زیادہ دلکش مینٹل پیس ہے۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

خالد مصطفیٰ سے گفتگو

اتوار دسمبر 25 , 2022
خالد مصطفیٰ کا اصل نام خالد محمود ہے جب کہ قلمی نام خالد مصطفیٰ ہے جو آپ کے دادا غلام مصطفیٰ کی نسبت سے انھوں نے اختیار کیا ۔
خالد مصطفیٰ سے گفتگو

مزید دلچسپ تحریریں