بندے کا اپنے رب پر توکل
تحریر۔ صالحہ عباس
طالبہ فرسٹ ائیر اقراء پبلک سکول اینڈ کالج چڑالہ
توکل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کوشش و عمل کے ساتھ اللّٰہ پر بھروسا کرنا ، اپنی تدابیر اور مساعی کے نتیجے کو خدا کی کارسازی کے حوالے کرنا۔
توکل کی اِجمالی طور پر تعریف یوں ہے کہ اسباب وتدابیر کو اختیار کرتے ہوئے فقط اللہ تَعَالٰی پر اِعتماد وبھروسا کیاجائے اور تمام کاموں کو اُس کے سپرد کر دیا جائے۔ امام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ نے توکل کی تفصیلی تعریف بھی بیان فرمائی ہے جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے:توکل دراصل علم، کیفیت اور عمل تین چیزوں کے مجموعے کا نام ہے۔یعنی جب بندہ اس بات کو جان لے کہ فاعل حقیقی صرف اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہے، تمام مخلوق، موت وزندگی، تنگدستی ومالداری، ہرشے کو وہ اکیلا ہی پیدا فرمانے والا ہے، بندوں کے کام سنوارنے پر اسے مکمل علم وقدرت ہے، اس کا لطف وکرم اور رحم تمام بندوں پر اجتماعی اعتبار سےاور ہربندے پر انفرادی اعتبارسے ہے، اس کی قدرت سے بڑھ کر کوئی قدرت نہیں، اس کے علم سے زیادہ کسی کا علم نہیں ، اس کا لطف وکرم اور مہربانی بے حساب ہے، اس علم کے نتیجے میں بندے پر یقین کی ایسی کیفیت طاری ہوگی کہ وہ ایک اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی پر بھروسہ کرے گا، کسی دوسرے کی جانب متوجہ نہ ہوگا، اپنی طاقت وقوت اور ذات کی جانب توجہ نہ کرے گا کیوں کہ گناہ سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت فقط اللہ رب العالمین ہی کی طرف سے ہے، تو اس علم ویقین،اس سے پیدا ہونے والی کیفیت اور اس نتیجے میں حاصل ہونے والے بھروسے کی مجموعی کیفیت کا نام ’’توکل‘‘ ہے
توکل ایک ایسا لفظ ہے جو اپنے اندر گہرائیت لیے ہوئے ہے۔ اگر اس لفظ کی گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظ کی بنا پر ہم اپنا سب کچھ دوسرے پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اب بندے کا اپنے رب پر کیا توکل ہے۔۔۔۔ کہ بندہ اپنی ہستی کو اس ذات کے حوالے کر دے جس نے اسے پیدا کیا ہے۔ بندے اور رب کے درمیان گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اگر یہ تعلق مضبوط ہو تو انسان کو لگتا ہے کہ خداوند تعالیٰ صرف اسی کا ہے۔ یہی ایک ایسا تعلق ہے جس کی بدولت توکل کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔
دنیا و مافیہا سے کٹ کر انسان صرف اسی ایک ذات کا ہو جاتا ہے اور یہی توکل علی اللہ کی پہلی سیڑھی ہے۔ اس کے بعد تعلقات کا ایسا لامتناہی سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ بندہ اپنے رب کی طرف ایک قدم بڑھاتا ہے اور رب اپنے بندے کی طرف دس قدم بڑھاتا ہے۔
یہ توکل ہی تھا کہ آتش نمرود کو ابراہیم علیہ السلام کے لیے ٹھنڈا ہونا پڑا اور ابراہیم علیہ السلام اس آگ میں بظاہر چالیس دن تک رہے مگر آگ سے بالکل محفوظ رہے۔۔ رب تو وہ ہے جس نے اپنے بندے کے توکل کا مان رکھا اور بھپرے ہوئے دریا سے اپنے بندے کے لیے راستہ بنایا اور اسی دریا میں فرعون کی فرعونیت کو تہس نیس کر دیا۔ کتنی عظیم ہے وہ ذات جس نے یوسف علیہ السلام کو اسی ملک کی بادشاہت سے نوازا جس میں انھیں قیدی بنایا گیا تھا۔ یوسف علیہ السلام کے توکل علی اللہ کی بہ دولت ہی زلیخا کے چنگل سے برات حاصل ہوئی اور قرآن نے اس موقع پر یوسف علیہ السلام کی پاکیزگی کا اعتراف کیا۔ خدا پر توکل کی ایک طرف سب سے بڑی مثال تو یہ ہے کہ وہ پتھر کے اندر موجود کیڑے کو نہ صرف زندگی عطا کرتا ہے بل کہ اس کی مقرر کردہ غذا بھی باہم مہیا کرتا ہے۔۔ تو دوسری طرف حضرت یونس کو مچھلی کے پیٹ میں زندہ رکھتا ہے۔ جب بندہ توکل علی اللہ کی معراج پر پہنچ جاتا ہے تو خدا بندے سے ہم کلام ہو کر کہتا اے بندے تو میرا ہو کر تو دیکھ سب کو تیرا نہ کر دوں تو کہنا۔۔
اب یہ بندے کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ خود کو کیسے خدا کے حوالے کرتا ہے۔ حضرت انسان بھی انوکھی مخلوق ہے اس کی یہ توقع ہوتی ہے کہ دوسرے اس کے معیار پر پورا اتریں مگر خود اس بات سے راہ فرار ڈھونڈتا رہتا ہے۔ یہ رب العالمین سے مکمل توقع تو رکھتا ہے لیکن یہ بات بھول جاتا ہے کہ وہی رب جس سے اس کی ہر امید ہر توقع وابستہ ہے وہ دن میں پانچ بار اسے اپنی طرف بلاتا ہے مگر انسان غفلت سے کام لیتا ہے اور خدا کی آواز پر لبیک نہیں کہتا۔۔ توکل کی دوسری بڑی نشانی یہ ہے کہ انسان خدا سے بے حد محبت کرے اور اللہ پاک نے خود اس بات کو واضح کیا کہ اگر مجھ تک پہنچنا چاہتے ہو تو میری اور میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرو۔ یہی وہ راستہ ہے جو تمھیں مجھ تک پہنچائے گا اور یہی تمھاری اصل منزل بھی ہے جہاں انسان پہنچ کر صرف انسان نہیں بل کہ اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے۔
الغرض توکل علی اللہ کامیابی کی ضمانت ہے دنیا کے ہر میدان میں اپنے خیالات، افعال و نظریات اور اپنی ذات کو خدا کے سامنے پیش کر دیا جائے اور اس کی تعلیمات پر من و عن عمل کیا جائے تو خدا اپنے بندوں کو ناکامی سے ہم کنار نہیں کرتا بل کہ وہ کامیابیوں کی بلندیوں پر ٹھکانہ عطا کرتا ہے۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔