سئیں بشیر احمد بیتاب
انٹرویو بسلسلہ ادبی شخصیات ، رحیم یار خان
انٹرویو کنندہ : مقبول ذکی مقبول ، بھکر پنجاب پاکستان
سئیں بشیر احمد بیتاب ، سیاسی ، سماجی ، مذہبی ، ادبی اور تاریخی شخصیت ہیں ۔ خاص طور پر ادبی حوالے سے زیادہ شہرت کے حامل ہیں ۔ زمین دار امانت علی (1909ء ۔2006ء) کے گھر گاؤں نگل جیون تحصیل نکودر ضلع جالندھر (بھارت) میں 27 دسمبر 1935ء کو پیدائش ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم گھر پر شروع کی تھوڑے عرصے بعد لوئر مڈل اسکول گوہیراں جالندھر میں داخل کرا دیا گیا ۔ ابھی کوئی زیادہ وقت نہیں ہوا تھا کہ قیام پاکستان کی بدولت قرابت داروں کے ہمراہ ہجرت کرکے چک نمبر 86/6R ساہیوال اپنے ابو کے خالو محمد اسماعیل کے گھر پہنچ گئے ۔ پاکستان پہنچنے سے پہلے ان کے دادا میاں نور محمد اور چچا چچی فوت ہو گئے تھے ۔ اس کے بعد گوجرانولہ آگئے ۔ سئیں بشیر احمد بیتاب اسلامیہ ہائی اسکول گوجرانولہ مڈل کا امتحان 1949ء کو پاس کیا ۔ گوجرانولہ کو الوداع کہہ کر ضلع تھر پارکر (سندھ) جاپہنچے 1959ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ادیب اردو اور فاضل کا امتحان پاس کیا ۔ چند سال بعد ان کے والد کو کلیمclaim کی زمین صادق آباد ضلع رحیم یار خان میں ملی ۔ ضلع تھر پارکر (سندھ) سے صادق آباد میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آباد ہو گئے ۔ 20 سال کی عمر میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے ۔ اللّٰہ پاک نے چار بیٹے اور چار بیٹیوں سے نوازا ۔ ان کا کلام مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتا رہا ہے اور مقامی و قومی اخبارات کی زینت بھی بنتا رہا ہے ۔ ایک سرائیکی زبان میں شمارہ بھی نکالتے رہے ہیں ۔ جس کا نام”سجان”تھا ۔ ادبی تنظیم تسکین ذوق کے صدر ، مومن ادبی سنگت ، کوٹ سبزل کے سرپرست ، کارواں ادب پنچابی فورم صادق آباد کے صدر اور”رائٹر گلڈ”پاکستان کے ممبر ہیں ۔ سئیں بشیر احمد بیتاب کو حفیظ جالندھری ، پروفیسر یوسف سلیم چشتی اور احسان دانش جیسے مہان ادباء سے محافل اور اچھے تعلقات بھی رہے ہیں ۔ سئیں بشیر احمد بیتاب کےادبی کام پر مختلف یونیورسٹیوں سے طلباء وطالبات نے ایم فل اور بی ایس کے مقالے لکھے ہیں اور کچھ لکھے جارہے ہیں ۔
چند روز قبل علمی و ادبی حوالے سے گفتگو ہوئی ہے وہ نذر قارئین ہے
سوال : آپ کا دنیائے ادب میں ورود کیسے ہوا ۔ ؟
جواب : دنیائے ادب میں کچھ اس طرح ہے کہ ایک دن میرا جاننے والا میرے پاس آیا اور کچھ اشعار سنانے لگا تو میں نے کہا بھائی اس طرح کے اشعار میں خود کہہ سکتا ہوں ۔ میں نے ایک غزل کہہ ڈالی تو اس طرح میرے اندر کا شاعر بیدار ہو گیا اور یہ سلسلہ اب تک جاری و ساری ہے ۔ اصل میں شاعر و ادیب تو پیدائشی ہوتا ہے ۔ شاعری تو وارد ہوتی ہے ۔ میں نے کبھی کوئی شعر کوشش کر کے نہیں کہا ۔ جب بھی آمد ہوتی ہے ۔ لکھ لیتا ہوں ۔ بعض اوقات نیند کی حالت میں شعر نازل ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔ تو بیٹھ کر لکھنا شروع کر دیتا ہوں ۔ پانچ سات منٹ کے بعد یہ کیفیت ختم ہو جاتی ہے ۔ تو پھر نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہوں ۔ کبھی دن کو راہ چلتے شعر وارد ہونے لگتے ہیں ۔
سوال : اگر یاد ہو وہ غزل جس سے آپ نے اشعار کہنے کا آغاز کیا تھا ۔ عنایت کرنا پسند کریں گے ۔؟
جواب : جی ہاں مجھے یاد ہے ۔ وہ غزل تھی ۔ مطلع سنائے دیتا ہوں ۔
کوئی تو مجھ کو سمجھا دے کہ تسلیم و رضا کیا ہے ۔؟
کرم کیا ہے ۔؟ ستم کیا ہے ۔؟ جفا کیا ہے ۔؟ وفا کیا ہے ۔؟
سوال : آپ کے نثری اور شعری مجموعوں کے نام ۔؟
جواب : میں ایک کاشتکار اور دیہاتی آدمی ہوں ۔ اس میں اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے عزت دی مجھے ماہناموں اور اخبارات میں چھپنے کا شوق نہیں ۔ صادق آباد بزمِ اقبال کے تحت ہر پندرہ دن بعد مشاعرہ ہوتا تھا ۔ دوستوں کے بیحد اصرار پر پورے سال میں چار پانچ مرتبہ ہی شامل ہوتا تھا ۔ 1990ء میں مجھے دل کا عارضہ ہوا تو میرے دوست گوہر ملسیانی مزاج پرسی کے لیے آئے ۔ تو مجھے اپنا کلام چھپوانے کے لیے کہا ۔ میں نے جواب دیا کہ میں نے کبھی کوئی کتاب چھپوانے کا نہیں سوچا ۔ نہ ہی مجھے اپنا کلام سنانے کا شوق ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے بعد کلام ضائع ہو جائے گا ۔ بہرحال وہ میرا کچھ کلام لے گئے اور کمپوز کراکر مجھے دے گئے کہ اب آپ اسے چھپوالیں میں نے لاہور میں اپنے دوست تنویر کو کتاب چھپوانے کے لیے بھیج دی ۔ کتاب چھپنے کے بعد اس کی رونمائی کے لئے مجھے بلایا گیا ۔ جس میں منیر نیازی کی صدارت میں ڈاکٹر اجمل نیازی مرحوم ۔ تنویر ظہور ۔ اقبال راہی اور دوسرے نام ور شعراء کرام شامل تھے ۔ ڈاکٹر اجمل نیازی مرحوم نے اسے پورے سال کا بہترین پروگرام کہا تھا ۔ اس کے بعد چار پانچ سال میں تین اردو اور ایک پنجابی کا مجموعہ شائع ہوئے جو کہ اب تک چھ اردو اور دو پنجابی شاعری کے مجموعے چھپ چکے ہیں ۔ ایک کتابچہ خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کی 35 کافیوں کا منظوم ترجمہ شائع ہو چکا ہے ۔ نثری کتب میں میری آپ بیتی ، عمرے کے تاثرات ، میری کہکشاں ، بزمِ خیال ، میری کہانی میرے لوگ ، موج خیال ، حروفِ زر ، جن کے دم سے تھی زندگی اپنی ، یوں بھی گزری ہے زندگی اپنی ۔ اس طرح نظم و نثر کی سولہ کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک کتاب دوستوں کے خطوط پر مبنی چاہتوں کا سفر کے نام سے چھپ چکی ہے ۔
کچھ ابھی اشاعت کی راہ دیکھ رہی ہیں ۔
سوال : ادب معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے ۔ اس پر تھوڑی روشنی ڈالیں ۔ ؟
جواب : شاعر یا ادیب اپنے معاشرے یا پوری دنیا کے جو حالات دیکھتا ہے عام آدمی کی نسبت وہ ان سے زیادہ متاثر ہوتا ہے ۔ ادیب اور شاعر ہی تو ٫٫سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے ،، کی زندہ مثال ہوتا ہے ۔ شاعر جب شعر کہتا ہے تو معاشرے کے حالات کا پرتو خود بخود اس کے اشعار میں ڈھل جاتا ہے ۔ ایک شاعر یا ادیب عام پڑھے لکھے آدمی سے بہت زیادہ حساس ہوتا ہے ۔ اس لئے ان کا کلام یا نثر معاشرے کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں ۔
سوال : کیا ادب وقت کے تقاضے پورے کر رہا ہے ۔؟
جواب : ادب نے تو ہر دور میں وقت کے تقاضے پورے کیئے ہیں ۔ لیکن جب معاشرے ہی علم و ادب کو فراموش کر دے ۔ اور ادیب کی بات سننے کے بجائے ناچ اور ڈانس کا فریفتہ ہو جائے تو ادب یا ادیب اسے پکڑ کر تو راستہ دکھانے سے رہا ۔ ادیب تو آج بھی اپنا فرض ادا کر رہا ہے ۔ لیکن ہمارا معاشرہ ہی گونگا بہرہ ہو چکا ہے ۔ اگر معاشرہ بیدار ہوتا اور اس کی آنکھیں کھلی ہوتیں ۔ تو آج ہماری یہ حالت نہ ہوتی ۔ فیض کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ ہم بھی دیکھیں گے ۔ گویا ادیب تو امن اور شانتی کو دیکھنے کا آرزو مند ہے ۔ مگر معاشرہ جس ڈگر پر چل رہا ہے ۔ اس کے آگے کھائی ہے ۔
سوال : حفیظ جالندھری کے ساتھ آپ کے ادبی تعلق تھے ۔ اس پر کچھ کہنا پسند کریں گے ۔؟
جواب : ادبی تعلق ہی نہیں وہ مجھے اپنا چھوٹا بھائی کہتے تھے ۔ میرے پاس آکر آٹھ دن رہے ۔ ہمارے ضلع کے بہت بڑے جاگیر دار مخدوم الملک نے انہیں کھانے کی دعوت دی تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں بشیر احمد بیتاب کا مہمان ہوں ۔ آپ کے پاس نہیں آ سکتا ۔ وہ زندگی کے باقی دن میرے پاس آکر گزارنا چاہتے تھے ۔ کہ انہیں بلاوا آ گیا اور وہ راہی ملک عدم ہوئے ۔
سوال : آپ نے مشاہیر کے خطوط کو کتابی شکل دی ہے ۔ اس پر کچھ کہیں گے ۔؟
جواب : جی ہاں ذکی صاحب! مشاہیر دوستوں کے خطوط افادہء عام کے لئے ہوئے ہیں ۔ کچھ خطوط یاد گیری کے طور پر دیئے جاتے ہیں ۔ میری اس کتاب کے خطوط دوستوں نے پسند کئے ہیں ۔ یہ میرے لیئے سرمایہء افتخار ہیں ۔
سوال : رحیم یار خان کے چند نمائندہ شاعروں اور ادیبوں کے بارے میں قارئین کو بتائے گا ۔ ؟
جواب : ماضی قریب میں میرے کچھ ہم عصر ادیبوں نے (جو اب اس دنیا میں نہیں رہے ) علم و ادب کے شعبے میں بہت کام کیا ہے ۔ اب بھی کئی ادیب اور شاعر اپنی استعداد اور صلاحیتوں کے مطابق اپنا فرض ادا کر رہے ہیں ۔
سوال : آپ کی شاعری میں رحیم یار خان کی ثقافت پائی جاتی ہے ۔ دو نمائندہ اور منتخب اشعار قارئین کو عنایت کریں ۔؟
جواب :
جو کیف مری روہی کے ہے صبح و سحر میں
وہ لطف تری صبح بنارس میں نہیں ہے
سر پہ دستار فضیلت باندھنے کو ایک شرط
اور تو کچھ بھی نہیں جاگیر ہونی چاہئے
میرے سردار بدلتے ہوئے حالات کو روک
تو مری بدلی ہوئی سوچ پہ پہرے نہ بٹھا
سوال : تخلیق کار و ادیب کو جدت پیدا کرنے کے لئے کیا کرنا ہوگا ۔؟
جواب : صلاحیت اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے ۔ مگر اسے مزید نکھارنے کے لئے دنیائے ادب کا مطالعہ ضروری ہے ۔
مقبول ذکی مقبول
بھکر، پنجاب، پاکستان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔