میرے لیے یہ لکھنا یا کہنا انتہائی مشکل اور تکلیف دہ ہو رہا ہے کہ اہلیانِ اٹک میں ایک منفرد اور عظیم نام، خصوصاً تعلیم و تعلم اور علم و ادب کے میدان میں قیمتی اور نایاب سرمایہ۔ شاندار اور قابلِ فخر شخصیت ریٹائرڈ پروفیسر جنابِ انور جلال ملک اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ جو داعی اجل کو لبیک کہہ چکے۔ یہ خبر آج ہی غم و اندوہ کا پہاڑ بن کر گری
محترم پروفیسر صاحب بلاشبہ ایک نابغہءِ روزگار ہستی تھے , آپ نے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اٹک میں تقریباً 34 سال تک تدریسی فرائض سرانجام دیئے ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے , اور تقریباً تمام ہی شاگرد آپ سے عشق کی حد تک محبت کرتے ہیں , مجھے گو کہ اُن کی شاگردی کا شرف حاصل نہ ہوا مگر 1994 سے علمی و ادبی ملاقاتوں کا اعزاز حاصل رہا , آپ کی شرفِ معیت میں یہ جانا کہ آپ کی شخصیت ایک پھول کی مانند تھی اور عاشقانِ علم مگس کی مانند اُن سے علمی رس حاصل کرتے رہے اور وہ بخُوشی یہ رس انہیں چوسنے کی اجازت دیتے رہے , میں نے یہ جانا کہ وہ غیر محسوس طریقے سے اپنا علم اپنی گفتگو کے ذریعے سے اپنے مُخاطِب کو منتقل کر دیتے ہیں ۔ اُنہوں نے ہمارے ادارے گورنمنٹ پائیلٹ ہائیر سیکنڈری اسکول سے ہی میٹرک کیا تھا, اور اس ادارے سے خصوصی اُنس رکھتے تھے اکثر میرے پاس تشریف لاتے اور گھنٹوں خُوبصُورت گفتگو سے محظوظ فرماتے۔ اور پھر بچوں کی مجبوریاں اُنہیں لاہور لے گئیں۔ یہ مرحلہ اُن کی زندگی کے مشکل ترین مراحل میں سے ایک تھا۔ ملک صاحب نے ہمیشہ اپنے شہر کا نام کیمبل پور ہی لیا۔ اپنے شہر اور اس کے باسیوں سے عشق کی حد تک پیار کرتے تھے اُنہوں نے اپنوں سے اس دوری کو ہمیشہ شدت سے محسوس کیا۔ اکثر مجھ سمیت بعض دوستوں سے فون پر لمبی گپ شپ کرتے تھے وہ کم از کم سال میں ایک مرتبہ ضرور اٹک تشریف لاتے اور کمال شفقت و محبت کے ساتھ مجھ سے ملنے سکول تشریف لاتے ہمارے سکول کے اساتذہ کی اکثریت اُن کے شاگردوں میں شامل تھی۔ اور سبھی اُن کی شاگردی پر نازاں و فرحاں دکھائی دیتے تھے۔ جو بھی اُن کی سکول آمد کے بارے میں سنتا شرفِ ملاقات کے لیے کھنچا چلا آتا تھا۔
محترم انور جلال ملک صاحب کی ایک بڑی خُوبی یہ بھی تھی کہ اُنہیں اپنے شاگردوں کے نام اور فیملی بیک گراؤنڈ تک یاد رہتے تھے اکثر فون پر آواز سے بھی پہچان لیا کرتے تھے
یہ ایک مسلمہ حقیقت کہ کسی بھی معاشرے میں اُستاد کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ استاد اپنے شاگردوں کے لیے عملی نمونہ ہوتا ہے۔ اور وہ فطری مگر غیر محسوس طور پر اپنے پسندیدہ استاد جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے۔ میرے اس بیانیئے کی بہترین مثال آنجہانی جنت مکانی مرحوم و مغفور پروفیسر انور جلال ملک تھے۔
میرے مطالعے اور ذاتی خیال میں ایک اُستاد کو ممکن حد تک تمام انسانی خوبیوں کا مرقع ہونا چاہیے۔ مگر تین بنیادی خصوصیات کا ہونا تو از بس لازم ہے
۱۔ علم خصوصاً اپنے شعبے کا وسیع تر علم
۲۔ آواز و اندازِ بیاں جو شاگرد دل و ذہن پر اثر انداز ہو۔
۳۔ اُستاد کی شخصیت یعنی personality میں بلا خوفِ تردید بجا طور پر کہہ سکتا ہوں کہ ان تمام خُوبیوں کا مرقع تھے مُحترم پروفیسر انور جلال ملک صاحب ! اُن کا علم , اندازِ بیاں , کھنک دار آواز و گفتگو کا جادو سامع پر سحر طاری کر دیتا تھا ۔ اُن کا حافظہ اور شعر پڑھنے کا انداز ایسا کہ شعر کو تشریح کی ضرورت نہ رہتی۔ اور شخصیت , خُوش لباسی , رہن سہن ,نشست و برخواست کا سلیقہ تو بس قابلِ تقلید حد تک مثالی تھی۔ ہے اور رہے گی۔ اٹک کے ادبی اُفق پر بہت سے تابناک ستارے اُن کی شاگردی کا شرف رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے شاگرد اور چاہنے والے آج بھی اُن سے والہانہ محبت و عقیدت رکھتے ہیں اور رکھیں گے
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
سیّد مونس رضا
معلم،مدبر،مصنف
ریٹائرڈ او رینٹل ٹیچر
گورنمنٹ پائیلیٹ ہائر سیکنڈری اسکول
اٹک شہر
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔