شاہد اعوان، بلاتامل
ایک اک کر کے ستاروں کی طرح ٹوٹ گئے
ہائے کیا لوگ میرے حلقہ احباب میں تھے
ہمارے بہت ہی پیارے دوست کفایت علی اعوان جو سیاست کے شاہ سوار تو تھے لیکن ان کا تعلق سخنوروں کی اس کلاس سے تھا جو ہر وقت شعر و ادب میں کچھ نہ کچھ کہتے یا لکھتے رہتے تھے، ہماری درمیان ایک قدرِ مشترک یہ بھی تھی ۔ تین دہائیوں پر مشتمل باہمی دوستی و تعلق کا یہ رشتہ محبت و احترام کی بنیاد پر قائم رہا جس کی ابتدا یوں ہوئی کہ 80ء کی دہائی کے آغاز میں بندہ فقیر ایک سرکاری محکمہ میں ملازمت کے سلسلہ میں شہرِ بے مثال حسن ابدال میں نیا نیا وارد ہوا تھا تو ایک خوبصورت نین و نقش کا مالک گھنے گھنگھریالے سیاہ بالوں والا نوجوان جو اپنے نام کے ساتھ’’اعوان‘‘ لکھتا تھا پہلی ہی نظر میں دل کو بھا گیا۔ عمر میں چھوٹا ہونے کے ناطے انہوں نے ہمیشہ مجھے شفقت اور پیار دیا۔ انہی دنوں جن بلدیاتی سیاسی دوستوں سے رسم ورواہ کا سلسلہ شروع ہوا ان میں کفایت علی اعوان کے علاوہ خواجہ نگر شریف کے صاحبزادہ افتخار الدین مرحوم اور شاویز خان سرفہرست تھے ، صاحبزادہ صاحب شہر کے ممتاز روحانی خاندان کے چشم و چراغ بھی تھے نہایت بھلے انسان دوست شخصیت تھے لیکن کفایت علی اعوان کے ساتھ قربت کی پہلی وجہ ’اعوان کاری‘ جبکہ دوسرا شعر و ادب سے شغف ہماری دوستی کی بنیاد بنا رہا۔ انہوں نے بلدیاتی سیاست میں بڑا عروج کمایا ایک وقت تھا ان کے وارڈ میں کوئی دوسرا ان کے مقابلے میں کھڑا نہیں ہوتا تھا انہوں نے لوگوں کی خدمت میں دن رات ایک کیے رکھا بلدیاتی سیاست میں ان کے لیڈر خالد سجاد اکبر خان بھی صوبر شخصیت کے مالک انسان تھے انہوں نے ان نوجوانوں کو تقریباٌ9سال ایسے رکھا جیسے مرغی چوزوں کو اپنے پروں کے نیچے چھپا کر رکھتی ہے ۔ ان کا دور شہر کے لئے ایک مثالی دور تھا، ان سے قبل سید ارشاد حسین شاہ چیئرمین بلدیہ رہ چکے تھے وہ بھی اپنی مثال آپ تھے انہوں نے بلدیہ میں جناح ہال اور بچوں کے لئے میونسپل سکول بنا کر شہر سے محبت کا ثبوت دیا، یہ یادگاریں آج بھی ان محسنوں کی یاد دلاتی ہیں۔ کفایت علی اعوان سٹی ناظم بھی رہے اس دوران انہوں نے حکومتی فنڈز سے نوجوانوں کی تفریح کے لئے کھیل کے میدان کے لئے100کنال زمین خریدی جس کی پاداش میں انہیں قیدوبند کی صعوبتیں بھی اٹھانا پڑیں اور اپنے دیگر سات ساتھیوں شفقت علی خان طاہرخیلی(مرحوم) ، سید صدا حسین شاہ ، ملک خورشید خان، زبیر اقبال خان، سید فدا حسین گیلانی (مرحوم)، خالد خان TMO،اور پٹواری محمد عارف سمیت اڈیالہ جیل کی ہوا کھانا پڑی ان کی جیل یاترا پر شہر میں ان کے سیاسی مخالفین نے خوشیاں بھی منائیں۔ بندہ عاجز نے ان کے جیل جانے پر اظہارِ یکجہتی کے طور پر کالم بھی لکھا اور کفایت علی اعوان سے ملاقات کے لئے راولپنڈی ہسپتال بھی گیا جہاں وہ بیماری کے باعث داخل تھے، وہ بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے میری آمد پر انہوں نے پائوں سے چادر ہٹا کر میری توجہ اپنے پائوں میں پڑی بیڑیوں کی جانب دلائی اس دوران ان کی بڑی بڑی آنکھوں سے آنسوئوں کے قطرے ان کے گورے گالوں پر لڑھک گئے۔ ان کی شاعرانہ حساس طبیعت اس سلوک کو برداشت نہیں کر پائی ۔ کفایت اعوان اپنی ماں جی سے بے انتہا پیار کرتے تھے وہ اپنی بڑی بہن کی عزت اپنی ماں کے برابر کیا کرتے تھے ۔ انہوں نے دورانِ اسیری اپنی یادداشتوں پر مشتمل ایک کتاب ’’آخر زنجیر ٹوٹ گئی‘‘ مرتب کی جس کی تقریب رونمائی کا اہتمام انہوں نے ایسا کیا جیسے کوئی شادی یا ولیمہ کی تقریب ہو ، فقیر بھی اس تقریب میں مدعو تھا مجھے تقریب کے دن تک کتاب نہ ملی تھی میں نے اپنے تیئں سمجھ رکھا تھا کہ میرا وہ کالم ضرور اس کتاب کی زینت بنا ہو گا جو فقیر نے صاحبِ کتاب کی اسیری کے دنوں میں رقم کیا تھا ۔ میں نے ماہنامہ اعوان کے لئے کفایت علی اعوان کا انٹریو بھی کیا ایف ایم 97ریڈیو، سیون سٹار ٹی وی نیٹ ورک پر ان کے انٹرویو چلائے۔ وہ سراپاخلوص و محبت انسان تھے، 25ستمبر2022ء کو جب ان کی وفات کی خبر شہر میں پھیلی تو یقین نہ آیا ہمارے محلے کی جامعہ مسجد گلزار مدینہ میں ان کا جنازہ بھی ان کی شخصیت کے مطابق ایک عظیم الشان جنازہ تھا، وہ سب کو روتا چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے داعی عدم کو لبیک کہہ گئے ۔ میاں محمد بخش ؒفرماتے ہیں:
میلہ میلہ ہر کوئی آکھے، میں وی آکھاں میلہ
جس میلے وِچ یار نہ ہووے، اوہ کاہدا میلہ!
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔