ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے کیمبل پور کے روایتی کھانوں کے بارے میں خوراکاں کے عنوان سے لکھنا شروع کیا ہے۔ اس سلسلے کو میں مختلف عناوین سے شائع کر رہا ہوں۔
آغاجہانگیربخاری
تنور سے اُتری ہوئی روٹی میں انگلیوں سے کیے گئے گڑھے( ڈگھے) بنائے جاتے، جن میں مکھن رچ بس جاتا تھا ۔ شکر اور گھی سے بھرے ہوئے پیالے لوڈے بچوں کے سامنے رکھے جاتے ۔مکھن دماغ کو تر کرتا ہے I.Q. اور حافظہ بڑھاتا ہے ۔ منہ کے ذریعے کھایا ہوا مکھن دماغ تک دیر سے پہنچتا ہے ۔ دماغ تک۔ مکھن کو جلدی پہنچانے کے لیے (Anterior Fontanelle) کے مقام پر باربر چاچے عباس سے گرمیوں میں استرے کا ٹک لگوایا جاتا تھا ۔ سر کے اوپر ماتھے کے قریب کھوپڑی کی ہڈیوں کے درمیان چھوٹا سا نرم حصہ ہوتا ہے اس کو تالو کہتے ہیں ۔مادر مہربان مکھن کو براہ راست استرا شدہ مقام پر لگاتیں۔ اس اہتمام کا فائدہ یہ ہوا کہ حافظہ اتنا اپ گریڈ ہوا کہ راقم کو اب تک ساری تفصیلات یاد ہیں۔ یہ تعلی نہیں شکران نعمت ہے ۔
1980 میں عارف جدون صاحب بروم ہاسٹل لاہور کے خطیب تھے۔ ایک دن فرمانے لگے ۔مجھے پتہ چلا ہے کہ بابو لوگ انڈے کا میٹھا آملیٹ بھی کھاتے ہیں۔ آئس کریم اور پسٹریاں مزید بر آن لیکن خواہ مخواہ مسجد والوں کو حلوے کے نام سے چھیڑتے ہیں ۔
مکھڈی حلوہ کو کالا باغ کے حوالے سے باغیا‘(باگیا) حلوہ بھی کہتے ہیں۔ کسی کی میزبانی کا اعتراف کرنا ہو تو کہتے ہیں۔
ڈاکٹر زاہد ملک صاحب نے گھار
ککڑ بانگیا بی کھاہدا
تے حلوہ باگیا بی کھاہدا
مکھڈی حلوہ بنوں میں بنوں حلوہ کہلاتا ہے۔1988 میں گمبیلا ندی کے کنارے لکی مروت تبلیغی اجتماع تھا۔کینٹین پر 250 گرام بنوں حلوہ مع کول (bowl) دس روپے کا ملتا تھا ۔ رج رج کے کھایا۔ نمازوں کے لئے وضو گمبیلا ندی میں کرتے تھے ۔ لکی میں سکول جاتے بچوں کو اردو بولتے سن کر حیرانی ہوئی ۔پتہ چلا کہ یہ پنجابی سپیکنگ مقامی باغبان فیملی کے بچے ہیں.
سلسلہ خوراکاں کا پہلا مضمون
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔