حضرت اظہارؔ وارثی: تھے جوروحانی وعلمی خانوادےکے چراغ
جنید احمد نور، بہرائچ
9648176721
ایک کمرے میں کرسی رکھی ہوئی ہے جس کے بغل میں ایک ٹہنی رکھی ہوئی ہے اور کرسی پر ایک دبلے پتلے سے بزرگ انسان لنگی اور کرتا پہنے ہوئے ،سر پر کپڑے کی ٹوپی ، آنکھوں پر کبھی سفید چشمہ کبھی کالاچشمہ لگائے ہوئے کرسی کے بغل میں میز پر دوائیں اور کچھ رسالے رکھے ہوئے ساتھ میں ہی ایک سیمسنگ کا اسکرین ٹچ والابہترین جے سیون موبائل رکھا ہوا ہے جس سے آپ دوست احباب کو واٹس اپ اور فون کے ذریعہ رابطہ کرتے۔ کمرے کی ایک دیوار پر کچھ اسناد فریم کی ہوئی لگی ہوئی۔ملنے آنے والوں کے لئے کرسی کا انتظام بھی ہوتا۔یہاں بیٹھنے والے بزرگ شخص کوئی معمولی شخص نہیں بلکہ وہ شہر بہرائچ کے عظیم الشان شاعر حضرت اظہار وارثی صاحب تھے۔
جناب سے ملاقات کا واقعہ بھی کم نہیں ہمارے نانا کے دوست اور مشہور ترجمہ نگار محمد حسنین ؔ صاحب جنہیں ہم حسنین نانا کہتے ہیں۔ ہمارے حسنین نانا نے موصوف کی کتاب ’’بوند بوند شبنم ‘‘ کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا تھا۔ اسی کتاب کو میرے چچا حمیدالدین (بابو)چچا(متوفی ۲۷؍فروری۲۰۱۸ء)کوآپ نے دیاتھا۔اس وقت ہی میں نے اپنا پہلا بلاگwww.faranjunedahmad.blogsppot.com شروع کیا تھا جس پر بہرائچ کے شاعروں کے بارے میں لکھتا ہوں۔ ان سے ہی آپ کے بارے میں پتہ چلا۔ ۲۰۱۵ءمیں جب میرے ماموں فیض ؔ صاحب کی کتاب ’’احساسات فیض ‘‘منظر عام پر آئی تب اس کی ایک کاپی دینے کے لئے آپ کے گھر کا پتہ لگانا بڑا مشکل تھا کیونکہ آپ کی کتاب میں صرف مختصر سا پتہ لکھا تھا جس کی بنا پر دو دن لگے ہمیں۔لیکن جب گھر کا پتہ چل گیا اور آپ سے ملاقات ہوئی ہو حیران رہ گئے جب میں نے اپنا تعارف دیاتو بہت خوش ہوئے اور کہا کہ ہمارا تمہارے خاندان سے پرانا رابطہ ہے تمہارے پردادا حاجی قادر میاں چونے والے روز میرے دادا کے پاس آتے تھے اور میں روز ہی ساغر ؔمہدی مرحوم کے ساتھ تمہارے نانا حاجی شفیع اللہ شفیع ؔ بہرائچی صاحب کے سنگم ہوٹل پر چائے پینے جاتے تھے جہاں شاعروں کی محفل ہوتی تھی۔دو تین گھنٹے بیت جاتے تھے جب کوئی کہتا کہ اب جاؤ تو ساغرؔ مہدی کہتے تھے کہ یہاں ہماری نعال گڑی ہوئی ہے۔تب سے ہمارا تعلق جنا ب اظہار ؔ صاحب سے ہو گیااور اکثر ان کے گھر کی طرف نکلنے پرانکی حیات تک برابر ملاقات کرتا رہا اور آپ اپنی شفقتوں اور دعاؤں سے نوازتے۔اگرکمرے کا دروازہ بند ہو تو میرا دل افسردہ ہوجاتا۔اب کچھ آپ کی حیات اور خدمات پر باتیں ہو جائے۔ محترم اظہار ؔ وارثی مرحوم ضلع بہرائچ کی اس عظیم ہستی کا نام تھا جنکا سلسلہ مشہور صوفی بزرگ حضرت حاجی وارث علی شاہ کے خاندان سے ملتا ہیں۔اظہارؔوارثی کی پیدائش صوبہ اودھ کے تاریخی شہر بہرائچ کے محلہ براہمنی پورہ میں۲۱؍نومبر۱۹۴۰ءکو ہوئی تھی۔ آپ کے والد کا نام حکیم محمد اظہر ؔوارثی اور والدہ کا نام کنیز سکینہ تھا۔ اظہار ؔصاحب کے دادا حکیم مظہر علی کے بڑے بھائی حکیم صفدرعلی وارثی صفاؔاور والد حکیم محمد اظہرؔوارثی شہر کے مشہور معالجین میں شمار ہوتے تھے۔ حکیم صفدر علی صفاؔ صاحب حاجی وارث علی شاہ کے مرید تھے اور حاجی وارث علی شاہؒ پر ایک کتاب لکھی جس کا نام ’جلوۂ وارث ‘ہے۔ یہ کتاب اردو میں ہے اور نایاب ہے۔ اظہار ؔ صاحب کے والد حکیم اظہرؔ استاد شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔ اظہارؔ صاحب سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوئے تھے۔آپ کی ایک خاص بات تھی کہ آپ صرف شعر لکھتے تھے کسی مشاعرہ میں پڑھنے نہیں جاتے۔آپ ایک اعلیٰ درجے کے شاعرتھے۔ آپ اردو شاعری میں نئے نئے تجربات کرنے کے لیے مشہور اور معروف تھے۔ اب آئیں دیکھتے ہیں استاد محترم حضرت اظہارؔ وارثی کے بارے میں آپ کے ہمصعروں اور آپ کےدوستوں ے کیا لکھا ہے۔
پدم شری شمس الرحمٰن فاروقی لکھتے ہیں :
”جناب اظہارؔ وارثی صاحب علاقہ اودھ کے ممتاز شعراکی صف اول میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔انھوں نے غزل اور نظم دونوں میں امتیاز حاصل کیا ہے۔انھوں نے غزل کے میدان میں اپنی تازگی خیال سے نئے نئے گل بوٹے کھلائے ہیں۔اظہارؔ وارثی کے یہاں عشق کا تجربہ بھی ہے اور زندگی کے ان سوالوں کا بھی شعور ہے جو انسان کو جواب کی تلاش میں سرگرداں رکھتے ہیں۔ان کے ذہن میں فکر اورتخیل کی کار فرمائی بہ یک وقت نظر آتی ہے۔اظہارؔ وارثی کی نظموں میں استعارہ یا پیکر کا زیادہ استعمال نہیں ہے ،لیکن انھوں نے اپنے ڈرامائی بیان کی بدولت اکثر پوری نظم کو استعارے کی شکل دے دی ہے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ “(سونچ کی آنچ ،۲۰۰۹ء، ص ۵-۶)
پروفیسر مغنی تبسم اظہارؔ وارثی کے بارے میں لکھتے ہیں :۔
”اظہارؔوارثی جدیددورکے ایک اہم نمائندہ شاعرہیں۔انہوںنے نظم، غزل، رباعی، قطعہ، دوہا،ماہیا،ثلاثی،ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے اور ان میں سے ہر صنف کو کامیابی سے برتا ہے اور اس کا بھی حق ادا کیا ہے۔اظہار وارثی ایک باشعور اور حساس فن کار ہیں۔اپنے ملک کے سماجی اور سیاسی حالات کے علاوہ عالمی مسائل پر ان کی گہری نظر ہے۔ان حالات اور مسائل پر کبھی بہ راہ ِراست اور کبھی استعاروں اور کنایوں میں اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ ‘‘(کِشتِ خیال،۲۰۰۸ء،ص۱۵)
پروفیسر قمر رئیس اظہارؔ وارثی کے بارے میں لکھتے ہیں :۔
”اظہارؔ وارثی کے موضوعات اور سروکارو ں کا دائرہ بہت وسیع ہے۔اس سے اہم بات یہ ہے کہ اظہار وارثی کی تخلیقی سوچ روایتی شاعری کے رموز وعلائم پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ ہر تجربہ کی مناسبت سے نئے شعری اظہارات اور علائم تراشتی ہے اور اس طرح اپنے اسلوب کی ایک نئی پہچان بنانے کا جتن کرتی ہے۔اظہارؔ وارثی کے اشعار میں داخلی اور خارجی حقائق کی ترسیل کا اہم وسیلہ ایک روشن رمزیاتی فضا ہے جس میں ہلکا ساابہام بھی قاری کی تخیل کو متحرک کرکے معنوی گر ہیں کھولنے پر اکساتا ہے۔ان میں بعض جدید ی شعرا کی طرح ایسی تجریدی کیفیت نہیں ہوتی جو شعر کو گورکھ دھندہ دے۔اسی طرح جذبہ واحساس کی پیکرتراشی میں بھی اظہار وارثی کے یہاں ایک خاص تازگی اور طرفگی کا احساس ہوتا ہے۔ “(کِشتِ خیال ، ۲۰۰۸ء،ص۷-۸)
پروفیسر وہاب اشرفی لکھتے ہیں:۔
اظہارؔ وارثی اپنی تخلیقات سے ملک کے طول و عرض میں پہچانے جاتے ہیں۔اور یہ بلاوجہ نہیں ہے، اس لئے کہ ان شاعری جذبات واحساس کی عکاس توہے ہی،انھیں ’’نادیدہ جہانوں کی تلاش بھی ہے‘‘ جو ان کے منفرد رویّے کا احساس دلاتی ہے۔اظہار وارثی کے یہاں عمومیت نہیں ہے۔ان کی شاعری جاندار ہے۔ان کے استعارے اور تشبیہیں گھسی پٹی نہیں۔ان میں انفرادیت ہے۔ (سوچ کی آنچ مطبوعہ ۲۰۰۹ء)
پروفیسر طاہر محمود (سابق صدر قومی اقلیتی کمیشن )لکھتے ہیں :۔
”حضرت اظہارؔ وارثی ہمارے بچپن کے دوست ہیں۔گذشتہ صدی کی چھٹی دہائی میں وہ اور ہم خطّئہ اودھ کے تاریخی شہر بہرائچ میں اسکول کے ساتھی تھے۔ہم عصر ،ہم سبق ،ہم نوالہ و ہم پیالہ۔ہماری پیدائش لکھنؤ میں اپنے ننھیال میں ہوئی تھی مگر بچپن وہیں گزرا تھا۔ہمارے والد (سید محمود حسن علیگ )مرحوم شہر کے ایک نامور وکیل تھے اور ان کے وہاں کے ایک نامی حکیم (حکیم اظہرؔ وارثی)، دونوں گھرانے دینی ماحول اور اعلیٰ ادبی ذوق سے مالامال اور اودھ کی زرّیں روایات کے دلدادہ۔ہم انھیں بزرگوں کے سایہ شفقت میں پلے بڑھے۔“(شبِ تنہائی کا چاند ، ۲۰۱۷ء، ص ۷)
پروفیسر طاہر محمود صاحب اپنے ایک دوسرے مضمون ’’ْقصۂ چہا ر درویش ‘‘میں اظہار ؔ صاحب کا ذکر کرتے ہوئےلکھتے ہیں :۔ ’’بہرائچ کے صدر بازار کے عقب میں برہمنی پورہ نامی ایک گنجان محلّے میں اظہرؔ وارثی نام کے ایک بزرگ رہتے تھے جنھوں نے اپنے والد حکیم صفدروارثی مرحوم کی گدّی سنبھال رکّھی تھی، مطب بھی کرتے تھے اور شاعری بھی۔ انکے ہونہار بیٹے اظہارؔوارثی عمر میں ہم سے تھوڑے سے بڑے اور اسکول میں ہم جماعت تھے۔ ہم دونوں اکثر موقعے کی مناسبت سے اساتذہ کا کلام برملا پڑھا کرتے تھے۔آگے چل کر ساغرؔ مہدی نے دنیا چھوڑی اور شاعرؔ جمالی نے بہرائچ شہر، لیکن میاں اظہارؔ وہیں ڈٹے رہے اور برابر ہمارے ربط میں رہے۔ ایک بار انھوں نے بڑے جذباتی انداز میں ہم دونوں کے زندگی بھر کے ساتھ کا نقشہ ایک طویل نظم میں اس طرح کھینچا تھا :
دو ہم نفس وہ اور میں، میں اور وہ ،بچپن کے دن
آدھی صدی کی دوستی کا عہد زرّیں
روز کا ملنا بچھڑنا ساتھ پڑھنا ساتھ لکھنا
اور اب کچھ بھی نہیں یادوں کی خوشبو کے سوا
آج اسکے زیر پا دنیا کا نقشہ اور میرے سرپہ ان رستوں کی دھول
جن پر بنا کرتے تھے میرے اور اسکے نقش پا شانہ بہ شانہ
اب کہاں وہ میں کہاں محدود میری شخصیت اس کا تشخّص بیکراں
دوچار برسوں میں اس سرزمیں کی طرف
جسکی ہوا میں ہم نے پہلی سانس لی تھی
راہ اسکی رخ بدلتی ہے تو آملتا ہے وہ
اس کا خلوص معتبر زندہ رہا ہر دور میں
جب بھی ملا مجھ کو لگا میرا ہے وہ، اس کا ہوں میں
گزشتہ صدی کے اواخر میں جب وزیر اعظم وقت ایچ ڈی دیوگوڑا کی حکومت نے دہلی میں قومی اقلیتی کمیشن کی سربراہی بالکل غیر متوقع طور پر ہمیں تفویض کی تو یہ بار گراں اٹھانے کیلئے ملک بھر سے قدردانوں نے خیرسگالی اور نیک خواہشات کے پیغامات بھیجے۔ اس موقعے پر ہمارے عزیز دوست اظہارؔ وارثی نے جن جذبات کا اظہار کیا تھا انھیں بعد میں ہم نے اپنی ایک کتاب میں محفوظ کرلیا تھا۔ اقتباس ملاحظہ کریں:
اے ہم نفس اے عہد رفتہ کے شریک معتبر
ذہن کی پرتوں میں اب بھی تہہ بہ تہہ محفوظ ہیں
تیری رفاقت کے درخشندہ نقوش تیری رفاقت کو سلام
اے صاحب ادراک اے ذی فہم اے اہل شعور
آسماں چھونے کو ہے قد آوران ملک و ملّت میں تری قد آوری
تیرا تشخّص آئینہ در آئینہ جلوہ نما، سوچیں تری تزئین کار عہد نو
نظریں تری بارک بین و دور رس
تیرا قلم قانون کا عقدہ کشا، مرحبا صد مرحبا
اظہارؔ وارثی کا پورا کلام ہم نے پڑھا ہے، بار بار پڑھا ہے اور انکی خیال آفرینی کو دل سے سراہا ہے۔ انکے درج ذیل اشعا ر نے جو انھوں نے علّامہ اقبالؔ کے مشہور زمانہ شعر ’’باغ بہشت سے مجھے حکم سفر ہواتھا کیوں، کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر‘‘ کے حوالے سے لکھے تھے ہمیں بے حد متاثر کیا تھا:
کسی سے تم اذن سفر لے کے آئے ہو
کار جہاں کی درازی کو یکسر بھلاکر
نئے دیس میں صرف سانسیں گنواکر کہاں تک رہوگے
تمہیں اپنے ہونے کی توثیق کرنے کی خاطر
زمیں کی تہوں میں اترنا بھی ہے
آسمانوں کو مٹّھی میں بھرنا بھی ہے
اس سے پہلے کہ گھر سے کوئی آکے کہہ دے چلو گھر چلو
زندگی کے مختلف ادوار میں اظہارؔ وارثی نے اپنے مختلف الاصناف کلام کے تین مختصر مجموعے شائع کروائے تھے جن میں ’’کبوتر سبز گنبد کے‘‘ حمدو نعت پر مشتمل ہے، ’’کشت خیال‘‘ میں غزلیں اور نظمیں وغیرہ شامل ہیں اور ’’سوچ کی آننچ ‘‘ میں ثلاثی، ماہئیے اور دوہے۔ اب سے کئی سال پہلے جبکہ وہ متعدّد بیماریوں میں مبتلا ہو چکے تھے انھوں نے ایک دن فون پر ہمیں بتایا کہ انکا باقی ماندہ کلام ’’شب تنہائی کا چاند‘‘ کے عنوان سے مرتّب کیا گیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنے ’’رسوخ ‘‘کا استعمال کرکے اسکی اشاعت کیلئے کسی ادارے سے مالی اعانت کا انتظام کردادیں ۔ اب رسوخ وسوخ ہمارے پاس کہا ں دھرے تھے، مسودہ منگواکے خاموشی سے ایڈیٹ کیا، پیش لفظ لکھا اور اپنی طرف سے چھپوادیا کہ شائد اس طرح نصف صدی سے زائد کی دوستی کا حق کسی قدر ادا ہوجائے۔ کتاب کے نسخے پہونچے تو بے انتہا خوشی کا اظہار کیا اور ہمیں لکھا کہ اسکی بدولت بیماری کی شدّت میں قدرے کمی آنے لگی ہے۔ لیکن انکی یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی اور چند ماہ بعد ہی پرانے عارضوں نے مزید ترقّی کر کے انھیں صاحب فراش کردیا مگر پھر بھی ان سے ہر ہفتے فون پر بات ہوتی رہتی تھی۔ ایک دن چند روز کے بیرونی سفر سے واپس آکر ہم نے فون کیا تو نقاہت بھری آواز میں بولے کہ ’’ہمارا آخری سلام لے لو آئندہ شاید ہم بات کرنے کے قابل نہ رہیں‘‘۔ اسکے دو ہفتے بعد ۲۱؍اگست ۲۰۱۸ء کو اظہارؔ میاں چل دئیے ،وہاں جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آیا۔
اردو اکادمی اترپردیش، انجمن ترقی پسند مصنفین نے آپ کو اعزازات اور اسناد سے سرفراز کیا تھا۔ ڈی۔ایم۔بہرائچ اور دیگر ادبی تنظیموں نے بھی آپ کو اعزازات اور سند سے سرفراز کیا تھا۔اظہارؔ صاحب کاایک جشن بھی منایا گیا،۹؍جون ۱۹۷۹ء کو نگر پالیکا بہرائچ کے ہال میں جس میں ہندوستان کے نامور شعراء نے شرکت کی تھی۔ خاص مہمانوں میں حسرت ؔ جے پوری، غلام ربانی تاباںؔ، خمار ؔ بارہ بنکوی، معین احسن ؔجذبی، ناظر ؔخیامی، ہلالؔ سیوہاروی، ایم.کوٹہوری راہیؔ اور بیگم بانو دراب وفاءؔ وغیرہ شامل تھے۔
اظہار ؔصاحب کے کئی مجموعہ کلام منظرعام پر آ کر مقبول خاص و عام ہوئے۔آپ کے مجموعۂ کلام اس طرح ہیں :۔’’ کبوتر سبز گنبد کے‘‘،’’کشت خیال‘‘،’’شوچ کی آنچ‘‘،’’بوند بوند شبنم‘‘،’’شبِ تنہائی کا چاند‘‘ ۔ا س کےعلاوہ ایک کتاب آپ کی شخصیت پر۲۰۱۷ءمیں’’اظہار ؔ وارثی شخصیت اور فن‘ کے نام سے شائع ہوئی۔
لیکن افسوس اس بات کاہے کہ بہرائچ کی سرزمین پر اس نایاب ہیرے کو وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے۔حضرت اظہار ؔ وارثی صاحب صحت خراب ہونے کے باوجود اپنے گھر پر ہر روز تین گھنٹہ کے لئے گھر کے باہری کمرہ میں بیٹھتے تھیں جہاں آپ ملنے والوں سے ملاقاتے کرتے تھیں۔راقم الحروف وقت وقت پر آپ سے ملنے جاتا رہتا ،جہاں کبھی کبھار جناب اثر ؔ بہرائچی صاحب سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوتا تھا۔۲۱؍اگست۲۰۱۸ءکی شام کو اپنی تویل علالت کے بعد آپ اپنے حصہ کی خدمات انجام دے کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے اور بہرائچ کے اردو ادب نے اپنی ادبی تاریخ کا درخشاں ستارہ ڈوبتے ہوئے دیکھا جس کے ڈوبنے کے بعد کوئی بھی اس کی جگہ نہیں حاصل کر سکتا ۔ دوسرے دن ۱۰؍ذی الحجہ کو بعد نماز عید الضحیٰ تکیہ کرم علی شاہ المعروف خانقاہ چھوٹی تکیہ بہرائچ کے تاریخٰی قبرستان میں آپ کی تدفین عمل آئی۔
آج میں جو کچھ بھی بہرائچ کے ادب میں خدمات انجام دے رہا ہوں وہ حضرت استاذ کی دعاؤں کی کا ہی ثمرہ ہے ان کے ہی کہنے پر میں نے اپنا کام بہرائچ کی تاریخ اور ادب پر شروع کیا اور الحمد للہ اس میں کامیاب رہا ہوں۔اللہ حضرت استاد کی مغفرت اور درجات بلند فرمائے ۔آمین
نمونہ کلام
شاخ شاخ چھم چھم کرے پْروا کی پازیب
پیڑ پیڑ کے سر چڑھا برکھا رْت آسیب
٭ ٭ ٭
میں سمندر ہوں میری سمت ہے ندیوں کا سفر
تم نے دیکھا ہے کہیں مجھ کو بھی آتے جاتے
٭ ٭ ٭
مٹا کے نفرت خلوصِ دل سے ملو تو اظہارؔوارثی سے
بجز دعا کے فقیر کے پاس اور کیا ہے دعا ہی دے گا
ہائیکو
تیری کون مثال
چہرے پر کشمیر فدا
زلفوں پر بنگال
٭ ٭ ٭
ڈولی میں کیا اٹھتی
ارتھی میں ہو گئی وداع
مفلس کی بیٹی
ثلاثی
جس کا زیور کبھی تھیں قندیلیں
اس حویلی کے اب مقدر میں
کچھ کبوتر ہیں ، کچھ ابابیلیں
ماہیے
چاندی کی نہ سونے کہ
چاہ کریں بچے
مٹی کے کھلونے کی
رباعی
یہ رات کی نمناک فضائے بے تپ
رہ رہ کے یہ پیڑوں پہ ہوا کی لپ جھپ
غزل
لمحہ لمحہ دستک دے کر تڑپاتا ہے جانے کون
رات گئے من دروازے پر آجاتا ہے جانے کون
اپنی سانسوں کی خوشبو کو گھول کے میری سانسوں میں
میرا سونا جیون آنگن مہکاتا ہے جانے کون
ان انجانے ہاتھ کو اکثر شانے پر محسوس کروں
مجھ سے دور ہی رہ کر مجھ کو اپناتا ہے جانے کون
آنکھیں تو پربت کے پیچھے چھپتے چاند کو دیکھیں بس
اس منظر کی اوٹ میں لیکن شرماتا ہے جانے کون
دھوپ میں دشت تنہائی کی میرے جلتے ہونٹوں کو
لمس اپنے گلبرگ لب کا دے جاتا ہے جانے کون
اپنے پرائے چھوٹ گئے سب آس کھلونے ٹوٹ گئے
پھر بھی من بالک کو بہلاتا ہے جانے کون
یکساں تیور یکساں چہرے سب ہی دکھ دینے والے
لیکن اس بستی میں بھی اک سکھ داتا ہے جانے کون
جنید احمد نور
بہرائچ، اترپردیش
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔