ن م راشد ۔ یکم اگست 1910ء کو پاکستان کے ضلع گوجرانوالہ کے ایک قصبے اکال گڑھ میں پیدا ہوۓ۔ اس قصبے کو علی پور چٹھہ کہتے ہیں اور یہ دریاۓ چناب سے چار میل کے فاصلے پر جنوب میں واقع ہے۔اس وقت اس قصبے کی آبادی تین ہزار کے لگ بھگ تھی۔اسی قصبے کے گورنمنٹ ہائی سکول سے 1926ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ شعر کہنے کا شوق اسی ابتدائی طالبِ علمی کے زمانے میں پیدا ہوا۔ سب سے پہلی نظم "انسپکٹر” اور ” مکھیاں” تھی جو سات آٹھ برس کی عمر میں لکھی۔یہ ایک انسپکٹر پر طنز تھی جو سکول کا معائنہ کرنے آیا تھا اور جس کے سر پر متواتر مکھیوں کا ایک بڑا سا جھنڈ گھوم رہا تھا۔ انھوں نے اپنا تخلص گلابؔ رکھا تھا ۔ اس نظم پر ان کے والد نے ایک روپیہ انعام دیا تھا ۔ دادا ڈاکٹر غلام رسول غلامی اردو اور فارسی کے شاعر تھے۔ یہ نظم والد نے انھیں بھجوائی اور لکھا کہ آپ کا پوتا آپ کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دادا نے اس پر ایک شعر لکھ کر بھیجا:
میرے میاں گلاب دہن میں گلاب ہو
خوش بوسے تیری بابا ترا فیض یاب ہو
اور ساتھ ہی نصیحت کی کہ شاعر بننے کی کوشش نہ کرنا کسی کام کے نہ رہو گے۔ اور ہمیشہ شعر گوئی سے باز رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔اس نصیحت کے باوجود ن م راشد نے شعر گوئی ترک نہیں کی۔اس پہلی نظم کے بعد انھوں نے کچھ حمدیں ، نعتیں اور غزلیں کہیں ۔ ان میں سے کچھ بعض گم نام رسالوں میں چھپتی رہیں ۔ خاص طور پر ” تفریح” بجنور اور ” کائنات” پانی پت میں ۔ اس وقت قلمی نام متعین نہیں ہوا تھا ۔ ان رسالوں میں اکثر پورا نام چھپتا رہا۔ نذر محمد خضر عمر ( تاریخی نام) اور بعض دفعہ اس کے ساتھ راجپوت جنجوعہ کا اضافہ بھی ہوتا تھا ۔ کچھ عرصے تک راشد وحیدی کے نام سے بھی مضامین اور نظمیں لکھیں ۔ اک آدھ غزل خاطف جبلپوری کے نام سے بھی شائع ہوئی ۔
1926ء مین راشد نے اعلٰی تعلیم کے لۓ گورنمنٹ کالج لائلپور میں داخلہ لیا۔ مضمون تھے انگریزی،تاریخ،فلسفہ،فارسی اور اردو۔ کالج کے رسالے "بیکن” کے طالب علم ایڈیٹر بناۓ گۓ۔ اس زمانے میں انھوں نے انگریزی میں کئی مضمون لکھے۔اس کالج سے انٹرمیڈیٹ پاس کرنے کے بعد 1928ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا ۔ اس کالج کے مشاعروں میں حصہ لیتے رہے۔ کالج کے رسالے ” راوی” کے اردو حصے کے ایڈیٹر رہے اور اس میں ان کی کئی نظمیں اور مزاحیہ مضامین شائع ہوۓ۔1930ء میں بی اے پاس کر کے اقتصادیات کے ایم ۔اے میں داخل ہوۓ۔اسی زمانے میں آئی ۔ سی ۔ ایس کے امتحانوں میں شرکت کی اور فیل ہوۓ۔فرانسیسی زبان کی شبانہ کلاسوں میں شریک ہو کر انٹرمیڈیٹ کے مماثل امتحان کامیاب کی اور بے کاری سے تنگ آ کر منشی فاضل کا امتحان بھی پاس کر ڈالا۔
دسمبر 1934ء میں مولانا تاجور نجیب آبادی کے اصرار پر ان کے رسالے ” شہکار” کی ادارت قبول کی لیکن 1935ء میں مولانا مرحوم کی بدمعالگی کے باععث علیحدگی اختیار کی پھر ملتان میں کمشنر کے دفتر میں کلرک ہو گۓ۔ اس زمانے میں راشد نے کئی اچھی نظمیں لکھیں ۔
دسمبر 1935ء میں شادی ہوئی۔ بیوی ماموں زاد تھیں ۔ ان سے پانچ بچے ہیں ، نسرین ، یاسمین، شاہین،شہریار اور تمزین۔
مئی 1938ء میں پروگرام اسسٹنٹ کی حیثیت سے آل انڈیا ریڈیو میں ان کا تقرر ہوا۔ کوئی تین ہفتے لاہور سٹیشن پر رہے۔ پھر چار سال تک دلی اسٹیشن پر کام کیا اور پروگرام ڈائریکٹر بنا دیۓ گۓ۔
دسمبر 1943ء میں فوج میں عارضی کمیشن پا کر سمندر پار چلے گۓ۔ چھ ماہ عراقمیں ، ڈیڑھ برس ایران میں ، چھ ماہ مصر میں اور سیلون میں چھ ماہ گزارے۔ مئی 1947ء میں فوج سے رخصت ہو کر آل انڈیا ریڈیو میں واپس آ گۓ اور لکھنؤ کے اسٹیشن پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر مقرر ہوۓ۔ تقسیم کے بعد ریڈیو پاکستان کے پشاور اسٹیشن پر اسی حیثیت سے منتقل ہو گۓ۔ ایک سال پشاور میں اور ایک سال چھ ماہ کے قریب لاہور اسٹیشن پر گزارے۔ 1949ء میں ریڈیو پاستان کے ہیڈ کوارٹر کراچی میں ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز رہے۔ 1950ء سے 1952ء تک پشاور اسٹیشن پر ریجنل ڈائریکٹر کی خدمت پر فائز رہے۔ اکتوبر 1952ء میں اقوام متحدہ میں شامل ہوۓ ۔اس دوران اس وقت چار سال نیو یارک میں ، ڈیڑھ سال جکارتا میں ، ساڑھے تین سال کراچی میں پھر چھ سال نیو یارک میں گزارے،تقریباً تین سال تہران میں اقوام متحدہ کے مرکز اطلاعات کے ڈائریکٹر رہے۔
اکتوبر 1961ء میں بیوی انتقال کر گئیں ستمبر 1963ء میں راشد نے دوسری شادی کی۔ یہ بیوی باپ کی طرف سے اطالوی اور ماں کی طرف سے انگریز تھی۔روم کے بین الاقوامی مدرسے میں دس سال اور نیو یارک کے بین الاقوامی مدرسے میں تین سال معلمہ رہ چکی تھیں۔ان سے ایک بچہ عمر ہے۔
اس زمانے میں ن م راشد کے کلام کے تین مجموعے ماورا(1942ء) ایران میں اجنبی (1955ء) اور لا انسان(1969ء) میں شائع ہوۓ تھے۔انھوں نے چند کتابوں کے ترجمے بھی کیے جن میں الگزانڈر کوپرین کے ناول ” یاما” ولیم سیرویں” کے ناول ” ماما آئی لو یو” اور لورین آئزلے کی کتاب ” وقت کا آسمان” کے ترجمے چھپے۔جدید فارسی شاعروں کا مطالعہ بھی کیا ان میں سے بائیس شاعروں کی اسی نظموں کا اردو ترجمہ کیا۔
(بشکریہ اردو کلاسک)
سعدیہ وحید
معاون مدیرہ:
بچے من کے سچے خان پور
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔