تحریر :سیدزادہ سخاوت بخاری
ہماری نئی نسل تاریخ سے آگاہ نہیں ۔ نصابی کتابوں میں بھی اس بات کی کوشش نہیں کی گئی کہ آنیوالی نسلوں کو حقائق سے روشناس کرایا جاسکے ۔ یہی نہیں بلکہ 1971 کے بعد سے پاکستان میں جس سیاسی طرز عمل اور سوچ نے اودھم مچایا ، اس کے نتیجے میں سچ اور جھوٹ گڈ مڈ ہوکر رہ گیا اور آج کا ہمارا نوجوان یہی سمجھتا ہے کہ جنرل نیازی ڈرپوک تھا ، اس نے ھتھیار ڈال دئے ۔ یحیی خان غدار تھا اس نے ڈھاکہ ڈبو دیا ۔ ہمارے 90 ھزار فوجی قید کرلئے گئے وغیرہ ، جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں ۔
کہانی کو ٹاپ گئیر لگانے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ دسمبر 71 میں جب سقوط ڈھاکہ ( Fall of Dhaka )ہوا تو میں پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کرچکا تھا لھذا بہ قائمی ہوش و حواس اس سارے منظر کا چشم دید گواہ ہوں ۔ میری باتیں کتابی اور سنی سنائی نہیں بلکہ آنکھوں دیکھا حال ہے ۔
آئیے تھوڑا سا پیچھے جاکر تاریخ سے پوچھتے ہیں کہ بنگال کی اصل کہانی ہے کیا ؟ اور وہ اس لئے کہ مغربی اور مشرقی پاکستان تو 1947 میں ، معرض وجود میں آئے جبکہ متحدہ بنگال کا معاشرہ اور سیاست اس سے بہت پہلے سیاسی اتھل پتھل کا شکار ہوچکے تھے ۔
برطانوی ھند میں بنگال سب سے بڑا صوبہ تھا ۔ تقریبا 2 لاکھ مربع میل رقبہ اور ساڑھے آٹھ کروڑ آبادی لھذا اس وقت کے وائسرائے ھند لارڈ کرزن کی سفارش پر اسے 1905 میں ، دو انتظامی حصوں ، یعنی مشرقی اور مغربی بنگال میں تقسیم کردیا گیا کیونکہ اتنے بڑے علاقے اور آبادی کی صحیح طرح سے دیکھ بھال اور کنٹرول مشکل کام تھا ۔ یاد رہے متحدہ بنگال میں عددی اکثریت ھندو ہی کی تھی لیکن مشرق میں مسلمان اکثریت میں آباد تھے لھذا جب مشرقی بنگال ( بعد میں مشرقی پاکستان ) وجود میں آیا تو مغربی بنگال / کلکتہ کا ھندو سٹپٹا اٹھا کیونکہ اس وقت صنعت ، تجارت ، وکالت اور صحافت پر ان کی مکمل اجارہ داری تھی لھذا انہیں خوف محسوس ہوا کہ اب مشرقی حصے کا مسلمان ، جو وھاں اکثریت میں تھا ، ان تمام شعبوں میں آگے آکر ہمارے مالی مفادات کو نقصان پہنچائیگا ۔ ڈھاکہ ھائیکورٹ قائم ہوئی تو کلکتہ کے ھندو وکیل بے روزگار ہونگے ۔ نئے اخبارات شائع ہوئے تو کلکتہ کی صحافت گئی ۔ اسی طرح تجارت اور صنعت بھی الگ ہوگی تو ہم کہاں جائینگے ۔ ان سب عوامل کو لیکر بنگالی ھندو نے واویلہ شروع کردیا اور انگریز کے اس فیصلے کے خلاف باقائدہ تحریک شروع ہوگئی جسے سودیشی تحریک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی تاکہ انگریزوں پر زور ڈال کر تقسیم کا فیصلہ منسوخ کرایا جاسکے ۔ مانچیسٹر چیمبر آف کامرس کو باقائدہ خط لکھ کر کہا گیا کہ اگر بنگال میں تجارت کرنی ہے تو برطانیہ اپنا یہ فیصلہ واپس لے ۔ جب اس پہ بھی بات نہ بنی تو ایک مذھبی کٹر پنتھی گروہ ، دھارمک چورن لیکر میدان میں آگیا کہ بنگال کی تقسیم دراصل ہماری ماں ” کالی ماتا ” کی تقسیم ہے جسے برداشت نہیں کیا جاسکتا ۔ آپ جانتے ہونگے کہ بنگال کا ھندو کالی ماتا ” کالی کلکتے والی ” کا پجاری ہے اور اس کے نزدیک سارا بنگال ماں کی سرزمین ہے ۔ قصہ مختصر مصنوعات کے بائیکاٹ اور ھنگاموں کے خوف سے انگریزوں کو بالآخر 1911 میں تقسیم بنگال کا فیصلہ واپس لینا پڑا ۔ اسی عرصے میں جب مسلمانوں نے ھندووں کا یہ رویہ دیکھا کہ وہ ہمیں خوشحال نہیں دیکھ سکتے تو 1906 میں اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے ، ڈھاکہ میں نواب سلیم اللہ خان کے گھر پر جمع ہوکر مسلم لیگ کے نام سے ایک جماعت قائم کرلی ۔ اس جماعت کے تاسیسی صدر نواب وقار الملک اور باقائدہ صدر سر آغا خان سوئم ( شش امامی ، اسماعیلی شیعہ) منتخب ہوئے ۔
یہاں چند نکات قابل غور ہیں ۔
1. کلکتہ کےھندو نے ، مسلم اکثریتی علاقے مشرقی بنگال کی خود مختاری کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھتے ہوئے قبول نہ کیا ۔
2. مسلم لیگ بنگالیوں نے ڈھاکہ میں بنائی اگرچہ اس میں ملک بھر کے مسلم ذعماء شریک تھے لیکن ان میں قائد اعظم کا نام شامل نہیں کیونکہ وہ بعد میں اس جماعت کے رکن بنے ۔
اوپر بیان کئے گئے تاریخی حقائق اور نکات کو ذھن میں رکھ کر آجائیے یوم آذادی 14 اگست 1947 تک ۔ پاکستان بن گیا لیکن زمینی لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم اور ان دو ٹکڑوں کے درمیان ایک ھزار میل یا 1600 کلومیٹر کا فاصلہ ۔ ایک دوسرے سے کٹے ہوئے ، زبان الگ ، کلچر الگ ، موسم الگ ، خوراک الگ اس کے باوجود اگر کوئی رابطہ یا رشتہ ڈھونڈا جاسکتا ہے تو وہ تھا اسلام ۔ میرے خیال سے یہی سب سے بڑا رشتہ تھا، اور ہے ، لیکن اے کاش ہم سچے مسلمان بھی ہوتے تو وہ دن نہ دیکھنا پڑتا جس کی یاد میں مجھے یہ سطور لکھنا پڑرہی ہیں ۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ تقسیم ھند کے فارمولے کو تسلیم کرتے وقت بعض مسلم ذعماء نے قائد اعظم سے کہا تھا کہ مشرقی بنگال کے بدلے دلی تک کا علاقہ لے لیں کیونکہ بنگال زمینی طور پر اس ٹکڑے سے جڑا ہوا نہیں جو مغرب میں ہمیں دیا جارھا ہے ، لیکن قائد کا جواب تھا کہ تحریک آذادی کی بنیاد بنگالی مسلمانوں نے رکھی انہیں کس طرح چھوڑ دیا جائے ۔
آذادی کے بعد پہلا اختلاف قومی زبان پر اٹھا ۔ جب قائداعظم نے اردو کو واحد قومی زبان قرار دیا تو ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء نے اس پر اعتراض اٹھادیا ۔ یاد رہے ان طلباء کی قیادت اس وقت کے طالب علم راھنماء اور بعد میں بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کررہے تھے ۔
وجہء تناذعہ صرف زبان ہی نہ بنی بلکہ تقریبا پوری کی پوری بیوروکریسی ، تقسیم کے وقت وھاں مہاجر بن کر آنے والے بہاری اور اڑیسہ وغیرہ کے مسلمانوں سے لی جاتی یا مغربی پاکستان سے بھیجی جاتی رہی جن میں اردو اسپیکنگ اور پنجابی شامل ہوتے تھے ۔ اس بات کا برا نہ منایا جائے تو حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کے ابتدائی ایام میں سول افسران کی اکثریت ان ہی لوگوں پر مشتمل تھی جو یو پی ، بھوپال ، بہار ، دلی ، حیدر آباد دکن اور مشرقی پنجاب سے ھجرت کرکے اپنے نئے وطن پاکستان آئے تھے اور یہ رسم آخر تک جاری رہی ۔ اس صورت حال میں بنگالی یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ سفید انگریز گئے اور کالے یا بھورے آگئے ۔ آخر آذادی کہاں ہے ؟ دارالحکومت پہلے کراچی اور پھر اسلام آباد ۔ یہاں اس بات کا بھی ذکر کردوں کہ ہمارے نوجوان جو آج صدیق سالک ، صفدر محمود اور کئی دیگر لکھاریوں کی کتابوں کے حوالے دیکر مشرقی پاکستان کی محرومیوں کا ذکر کرتے ہیں انہیں ان لکھاریوں سے یہ بھی پوچھ لینا چاھئے تھا کہ آپ پنجابی اور اردو اسپیکنگ ہوکر وھاں کیا لینےگئے تھے ۔
پنجابی اور اردو اسپیکنگ افسران کے بارے حقائق پیش کرتے ہوئے مجھے احساس ہے کہ بعض قارئین اس کا غلط مطلب بھی لے سکتے ہیں لیکن میں یہ بات بھی واضع کردینا چاھتا ہوں کہ ان ہی افسران نے اپنی قابلیت ، ذھانت اور تجربے کی بنیاد پر اس نوزائیداہ ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا ۔ یہاں بات بنگال کی ہورہی ہے کیونکہ وہاں معاملہ الگ تھا ۔ ایک مکمل بنگالی معاشرے پر آپ نے سب کے سب یا بھاری اکثریت میں وہ لوگ بٹھا دئیے جو ان کی زبان جانتے ہیں ، ثقافت سے واقف ہیں اور نہ ہی وھاں کے رسم و رواج کا علم رکھتے تھے ۔ اور کیا بنگالی اتنے گئے گزرے تھے کہ سول افسر تک نہ بن سکیں ۔ کیا آج وہی بنگالی بنگلہ دیش کو نہیں چلا رہے ؟
اب آجائیں شروع میں بیان کی گئی تقسیم بنگال کی کہانی کی طرف ۔ جب بنگالیوں میں احساس محرومی بڑھنا شروع ہوا تو کالی ماتا کے پجاری جو انگریز کے زمانے سے تقسیم بنگال کے خلاف تھے ، بنگالیوں کے احساس محرومی کا ھتھیار لیکر پروپیگنڈے کے میدان میں اتر آئے ۔ انہوں نے پاکستانیت کے خلاف بنگالی نیشنل ازم کو ابھارا ، پیسے کے زور پر اپنے ایجنٹ پیدا کئے اور اس طرح علیحدگی پسندی پروان چڑھنا شروع ہوئی لیکن ہمارے سیاست دان خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے ۔ کسی نے بنگالیوں کے دکھوں کا مداوا نہ کیا ۔ یہ کہ دینا تو آسان ہے کہ بنگالی غدار تھے ، شیخ مجیب شروع سے علیحدگی پسند خیال کا حامی تھا لیکن کیا کسی نے ان کو برابر کا پاکستانی بنانے کی بھی کوئی کوشش کی ؟
یہ سچ ہے کہ شیخ مجیب الرحمان شروع سے بنگالی نیشنل ازم کے پرچارک تھے لیکن اگر انہیں قومی دھارے میں لے آیا جاتا تو وہ کبھی بھی علیحدگی کی طرف نہ جاتے ۔ ھندوستان ابتداء سے پاکستان کے وجود کے مخالف تھا اور اب بنگالیوں تئیں ہمارے غیر منصفانہ روئییے نے اس کے ھاتھ میں بنگالی کارڈ تھما دیا ، جسے اس نے خوب خوب کھیلا ۔ اگرچہ ایوب خان کے دور میں ہماری خفیہ ایجنسی نے مغربی بنگال کے شھر اگر تلہ میں ایک پاکستان مخالف تحریک کا سراغ لگالیا جس کے نتیجے میں شیخ مجیب کو اگرتلہ سازش کیس میں گرفتار کرلیا گیا لیکن اس وقت کے تمام سیاست دانوں نے ایوب خان پر پریشر ڈال کر اسے رھائی دلادی ۔ اگر اس وقت شیخ مجیب کو رہا کرانے کی بجائے مشرقی پاکستان میں اصلاحات کی جاتیں , بنگالیوں کو سول سروس اور دیگر ذمہ داریوں پر بٹھا دیا جاتا ، ان کے جائز مطالبات مان لئے جاتے تو شیخ مجیب کے غبارے سے ہوا نکل جاتی اور آگے چل کر صورت حال مختلف ہوسکتی تھی ۔
نہائت اختصار کے ساتھ لکھ رہا ہوں لیکن بات طویل ہوتی چلی جارہی ہے ۔ ایوب خان رخصت ہوئے ، جنرل یحیی خان تشریف لائے اور 1970 کے الیکشن میں شیخ مجیب نے مشرقی پاکستان سے دو کے علاوہ تمام نشستیں جیت لیں ۔ مغربی پاکستان سے ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی بڑی جماعت بن کر ابھری ۔ اب یہاں کل پاکستان کی سطح پر شیخ مجیب کی جماعت پہلے نمبر پر تھی اور پیپلزپارٹی دوسرے نمبر پر لیکن بھٹو مرحوم نے نعرہ لگایا ، ” ادھر ہم ادھر تم ” اور اسی ہم تم نے کام تمام کردیا ۔
اس وقت کے تمام سیاسی تبصرہ نگاروں کا خیال تھا کہ اگر شیخ مجیب کو وزیراعظم بنا دیا جاتا تو سانحہ مشرقی پاکستان سے بچا جا سکتا تھا لیکن ہمارے یہاں کے سیاسی راھنماوں کو اس کے 6 نکات پر اعتراض تھا کہ اس سے فیڈریشن کمزور ہوجائیگی ۔ یہ الگ بات کہ بعد میں ملک ہی ٹوٹ گیا ۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ ہم شیخ مجیب کو ساتھ رکھ کر ایک ڈھیلی ڈھالی کنفیڈریشن بنالیتے تاکہ ہمارے دو قومی نظریئے کا بھرم قائم رھتا ۔ پاکستان ٹوٹنے سے بچ جاتا اور اندرا گاندھی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملتا کہ ،
” آج ہم نے دو قومی نظریئے کو خلیج بنگال میں ڈبودیا ”
قصہ کوتاہ ، فلم ” ادھرہم ادھر تم ” اور ہماری آپسی لڑائی کے منظرنامے پر ھندوستان کی گہری نظر تھی لھذا انہوں نے پہلے سے اپنے زر خرید ھندو و مسلم بنگالیوں پر مشتمل جو خفیہ تنظیم ، ” مکتی باھنی ” یا نجات دھندہ قائم کرکے پاکستان مخالف پروپیگنڈہ شروع کررکھا تھا اسی کے ذریعے گوریلا وار کی ابتداء کردی ۔ ہماری فوج پر حملے ہونے لگے ۔ پلوں کو اڑایا جانے لگا ۔ اور بالآخر جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کی قیادت میں بھارتی فوج مشرقی پاکستان میں داخل ہوگئی کیونکہ وہ زمینی طور پر جڑے ہوئے تھے جبکہ ہم 1000 میل دور بیٹھ کر کچھ بھی کرنے کے قابل نہ تھے ان حالات میں جنرل نیاذی کے پاس ھتھیار پھینکنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا ۔ انہیں بزدل اور ڈرپوک کا طعنہ دینا اس لئے مناسب نہیں کہ ایک تو انڈیا کے مقابلے میں وھاں ہماری فوج بہت کم تھی دوسرا کمک پہنچانے کا کوئی راستہ نہ تھا تیسرا اور اہم عنصر یہ کہ بھٹو مرحوم نے ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگاکر بنگالیوں کو ، جو الیکشن جیت چکے تھے ، یہ پیغام دیدیا کہ تمہارا وزیر اعظم نہیں بن سکتا ۔ بنانا ہے تو وہیں بنالو ۔ اس بات پر بنگالی بپھر گئے ۔
پیپلز پارٹی کے موجودہ جیالے اس بات کی نفی کرتے ہیں لیکن میں (راقم ) اس وقت پیپلز پارٹی کے بانی و متحرک اراکین میں شامل اور عھدیدار تھا اس لئے بھٹو مرحوم کا یہ بیان براہ راست ان کی زبان سے سنا ۔ یہی نہیں بلکہ جب یحیی خان نے منتخب قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں بلانے کا اعلان کیا تو یہ بھٹو صاحب ہی تھے جنہوں نے جلسہء عام میں کہا کہ جو ممبر ڈھاکہ جائیگا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائینگی ۔ رہی یحیی خان کی بات کہ وہ کیا کررہے تھے تو عرض ہے ایک تو سیاست دانوں نے ملکی حالات کو اس مقام پر پہنچادیا تھا کہ جہاں سے واپسی ممکن نہ تھی دوسرا یہ ، کہ ، اس محمد شاہ رنگیلا ثانی کو گجرات کی حسینہ اقلیم اختر رانی عرف جنرل رانی سے فرصت ہی کب تھی کہ اس طرف توجہ دیتے ۔ یہاں آپ کے علم کے لئے یہ بھی بتاتا چلوں کہ آج کا معروف گلوکار و اداکار فخر عالم ، اسی اقلیم اختر رانی کا نواسہ ہے ۔
اس حقیقت کے باوجود کہ یحیی خان ، شراب اور شباب کا رسیا تھا ، ایک فرد کی کوتاہی کو پوری پاک فوج کے کھاتے میں نہیں ڈالا جاسکتا کیونکہ ہمارے بہادر افسروں اور سپاھئیوں نے مشرقی پاکستان کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے اور زندہ بچ جانیوالوں نے دو سال تک بحیثیت جنگی قیدی ، بھارت کے کیمپوں میں گزارے ۔ میرا تعلق فوجی خطے سے ہے اور میں ایسے متعدد فوجیوں کے بارے جانتا ہوں کہ جو مشرقی محاذ سے کبھی واپس نہ لوٹ سکے ۔ ان کی مائیں اپنے بیٹوں کا انتظار کرتے کرتے اس دنیاء سے رخصت ہوگئیں ۔ میرے دو چچا زاد بھائی سرور حسین شاہ اور اصغر علی شاہ جو پاک نیوی میں خدمات انجام دے رہے تھے ۔ مشرقی پاکستان کی فوجی بندرگاہ چاندپور سے گرفتار ہوکر جنگی قیدیوں کی حیثیت سے کیمپ نمبر 94 رام گڑھ بھارت پہنچ گئے ۔ مجھے وہ لمحات یاد ہیں جب ہمارے گھروں میں خواتین آہ و بکا کرتی تھیں ۔
مختصرا یوں سمجھ لیں کہ سانحہ مشرقی پاکستان کی بنیادی وجوھات میں ، بھارت کا روز اول سے پاکستان کو توڑنے کا خواب ، شیخ مجیب کے اندر علیحدگی کے جراثیم ، جنہیں بنگالیوں کے ساتھ ہمارے روئیے نے توانائی بخشی ، اور ذولفقار علی بھٹو کی حوس اقتدار ، اس سانحےکو ، منطقی انجام تک لے گئی ۔ عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان کو توڑنے میں مددگار ثابت ہونے والے یہ تین کردار ، اندرا گاندھی ، شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو میں سے کوئی بھی طبعی موت نہیں مرا ، بلکہ شیخ مجیب کو خود بنگالی میجر ڈالم نے ، ان کی دھان منڈی ڈھاکہ والی ، رھائیش گاہ کے اندر گھس کر ، پورے خاندان سمیت گولیوں سے بھون ڈالا ۔صرف حسینہ واجد بیرون ملک ہونیکی وجہ سے بچ گئیں جو اب شیخ مجیب کی اکلوتی بیٹی اور نشانی ہیں ۔ اندرا گاندھی کو ان کے سکھ باڈی گارڈز نے ، دربار صاحب امرتسر پر فوج کشی کرنے کی پاداش میں ، ان کی رھائیش گاہ صفدر جنگ روڈ دلی کے احاطے میں اسٹین گن سے موت کے گھاٹ اتار دیا اور ذوالفقار علی بھٹو ، نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کا حکم دینے کے الزام میں ، تارا مسیح کے ھاتھوں پنڈی جیل میں سولی پر لٹکا دئے گئے ۔ میں نہیں جانتا کہ ذوالفقار علی بھٹو گنہگار تھے یا بے گناہ لیکن تاریخ اسی طرح رقم ہوئی ۔
یہاں ایک غلط فہمی کا اذالہ بھی کرتا چلوں ، کہ ، مشرقی پاکستان میں ہماری فوج کی تعداد زیادہ نہ تھی . 90 ھزار قیدی ، سویلین افسران ، ان کے اھلخانہ اور دیگر پاکستانیوں کو ملا کر بنتے ہے ، یہ سب لڑاکا فوجی نہ تھے ۔
آخر میں اس طرف اشارہ کرتا چلوں کہ ھندوستان یا کالی ماتا کے پجاری اب بلوچستان میں بھی وہی کھیل کھیل رہے ہیں ۔ ہماری فوج کے خلاف پروپیگنڈہ بھارت ہی کے ایجنڈے کا حصہ ہے ۔ یہی کام انہوں نے مشرقی پاکستان میں کیا جو اب یہاں کیا جارہا ہے ۔ وھاں مکتی باھنی جیسی تنظیم قائم کی گئی اور بلوچستان میں BLA یا بلوچ لبریشن آرمی تشکیل پائی ہے ۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے لیکن ہم نادان بنے ہوئے ہیں ۔ خود ہمارے اپنے لوگ جرنیلوں کے نام لے لے کر عوام کو فوج کے خلاف گمراہ کررہے ہیں ۔ ہمیں جاگ جانا چاھئیے ورنہ کسی اور سانحے کا سامنا ہوسکتا ہے اور پھر ، اللہ نہ کرے ، پوچھتے پھرینگے
” پاکستان کیوں ٹوٹا "
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔