برے بندے کی روح کا آسمان کی طرف سفر

نیک اور پارسا بندے کے بعد رسولؐ اللہ  نے فرمایا کہ کافر بندہ جب دنیا سے تعلقات کو ختم کرنے والا اور آخرت کی جانب متوجہ ہونے والا ہوتا ہے تو سیاہ چہروں والے عذاب کے فرشتے اس کے آس پاس آتے ہیں اور جہنمی ٹاٹ ان کے پاس ہوتے ہیں وہ اتنی دور جا بیٹھتے ہیں ۔ جہاں تک نگاہ جاتی ہے پھر موت کا فرشتہ آتا ہے اور اس کے سرہانے بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے اے خبیث و ناپاک روح خدا کے غضب کی طرف چل ۔

آنحضرتؐ نے فرمایا کہ کافر کی روح (یہ سن کر) بدن میں دوڑتی پھرتی ہے ۔ اور جسم سے باہر نکلنے سے ڈرتی ہے پس فرشتہء موت روح کو کھینچتا جاتا ہے اور اس کو بہت سختی سے جسم سے باہر نکالتا ہے اور وہ پلک جھپکنے کی دیر میں ملک الموت سے اس روح کو دوسرے فرشتے چھین لیتے ہیں ۔ تو اس سے سخت بدبو نکلتی ہے۔ جیسے کسی مردار کی بدبو ہو جو کہیں زمین پر پائی جاتی ہے۔ پھر فرشتے اس روح کو آسمان کی طرف لے جاتے ہیں۔ اور فرشتوں کی جس جماعت کے قریب سے یہ روح گزرتی ہے وہ یہی کہتی ہے کہ یہ کس ناپاک کی روح ہے ؟

فرشتے جواب دیتے ہیں کہ یہ فلاں شخص کا بیٹا ہے اور  اس کے ان تمام برے ناموں اور القاب کا ذکر کریں گے جن سے دنیا میں اُس کو مخاطب کیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کو لے کر فرشتے آسمانی دنیا پر پہنچیں گے اور دروازہ کھلوائیں گے لیکن دروازہ نہ کھولا جائے گا اس کے بعد رسولؐ اللہ نے یہ آیت پڑھی۔

لا تفتح لھم ابواب السماء ولا یدخلون الجنة حتی یلج الجمل فی سم الخیاط

(یعنی نہیں کھولے جاتے کافروں کے لیے دروازے آسمانوں کے اور نہ وہ داخل ہوں جنت میں جب تک داخل نہ ہو اونٹ سوئی کے ناک میں (یعنی ان کا جنت میں جانا ناممکن ہے) پھر خدا وند تعالٰی حکم دے گا کہ اس کے نامہ اعمال کو سجین میں رکھو جو ایک ایسی جگہ کا نام ہے جو ساتویں زمین کے اندر ہے پھر اسکی روح پھینک دی جائے گی۔ اس کے بعد رسولؐ اللہ نے یہ آیت پڑھی۔

ومن یشرک باللہ فکانما خر من السماء فتخطفہ الطیر اوتھوی بہ الریح فی مکان سحیق۔ (سورہ حج)

(جس کسی نے خدا کے ساتھ کسی کو شریک کیا۔ وہ گویا آسمان سے منہ کے بل گرا پس اچک لیتے ہیں اسکو پرندے یا پھینک دیتی ہے اسکو ہوا دور دراز جگہ میں) اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ پھر ڈالی جاتی ہے روح جسم میں اور وہ فرشتے آ کر بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے؟

وہ کہے گا ہائے ہائے میں نہیں جانتا پھر اس سے پوچھا  جائے گا وہ شخص کون تھا جو تم میں بھیجا گیا ؟

وہ کہے گا ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔ ایک پکارنے والا خدا کی طرف سے پکار کر کہے گا ۔ یہ جھوٹا ہے ۔اس کے لیے آگ کا فرش اور ایک دروازہ دوزخ کی طرف کھول دیا جائے گا اور دوزخ کی گرمی اور گرم ہوا اسکو پہنچے گی اور اسکی قبر کو تنگ کر دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ادھر سے ادھر ہو جائیں گی پھر ایک بد صورت شخص میلے کچیلے کپڑے پہنے اس کے پاس آئے گا جس سے سخت بد بو آرہی ہو گی۔ وہ اس سے کہے گا خوشخبری ہو تجھ کو اس چیز کی جو تجھ کو بری معلوم ہوگی۔ یہ وہ دن ہے جسکا تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا میت اس سے پوچھے گی تو کون ہے؟

 تیرا چہرہ نہایت برا ہے اور برائی کو ساتھ لایا ہے وہ کہے گا میں تیرا برا عمل ہوں ۔ یہ سن کر میت کہے گی ۔ اے میرے پروردگار !تو قیامت کو نہ کر۔۔۔۔۔۔۔

مشکوة شریف کی اس مذکورہ حدیث میں متقی اور گناہگار انسان کے متعلق بتایا گیا ہے کہ ان کی روحوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا ۔ان کو ایسا اذیت ناک عذاب دیا جائے گا ۔ عذاب الٰہی سے بچنا ہے تو تقوٰی کی راہ اختیار کیجیے۔ اور تقوی کی راہ کی طرف پہلا قدم عاجزی و انکساری ہے اور عاجزی و انکساری کا اظہار کرنا مقصود ہو تو نماز شب پڑھیے ۔ اس میں خدا وند کریم کی رحمت کا عالم دیکھیے جو ذرے کو آفتاب کن کہہ کر بنا دیتا ہے۔

بقول شاعر:

گناہ گن کے میں کیوں اپنے دل کو چھوٹا کروں

سنا ہے تیرے کرم کا کوئی حساب نہیں

اس غفور و رحیم کے رحم و کرم کی کوئی انتہا نہیں ہے لیکن یہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جب اسوہ رسولؐ پر چلنے کی کوشش کریں۔ اور اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کریں اور گناہوں کا کفارہ ہی نماز شب ہے۔

حدیث نبویؐ ہے:

عن ابی امامة قال قال رسول اللہؐ علیکم بقیام اللیل فانہ راب الصلحین قبلکم وھو قربتةلکم الی ربکم و مکفرة للسیات ومنھاة عن الاثم۔(رواہ ترمذی) 

حضرت ابو امامہ کہتے ییں رسولؐ نے فرمایا کہ لازم کرلو تم اپنے آپ پر رات کے قیام کو (یعنی تہجد کی نماز پڑھنے کو) کہ یہ طریقہ ان نیک لوگوں کا ہے جو تم سے پہلے تھےاور رات کا قیام تمہارے لیے اللہ کی نزدیکی کا سبب ہے گناہوں کا کفارہ ہے ،اور گناہوں سے روکنے والا ہے ۔ اسوہ رسولؐ ہمیں شب بیداری کی ترغیب دلاتا ہے۔ اور شب بیداری تقوٰی و پرہیزگاری سے ہی ممکن ہے ۔ آنحضورؐ نے اپنے عمل سے ہمیں شب بیداری کی ترغیب دلائی۔ اگر ہم آج  بھی اسوہ رسولؐ پر عمل پیرا ہوں تو” آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا” کے مصداق ہم بھی جنت کے حقدار بن سکتے ہیں لیکن اس کے لیے اسوہ رسولؐ پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے سیرت آئمہ معصومین پر گامزن ہونے کی ضرورت ہے ۔ اسی لیے تو علامہ اقبال نے بھی اپنے اس شعر میں آنحضورؐ کے فرامین پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دلائی ہے:۔

بہ مصطفٰیؐ برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست

اگر  بہ او نہ رسیدی تمام بولہبیست

یعنی اپنی زندگی حضورؐ کے احکامات کے مطابق گزارو کہ دین اسی کا نام ہے اگر اپنی زندگی میں یہ مطابقت پیدا نہ کی تو یہ تمام ابو لہب کا سا کام ہوگا۔

hubdar qaim

سیّد حبدار قائم

کتاب ‘ نماز شب ‘ کی سلسلہ وار اشاعت

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

خبردار!   آگے خطرناک موڑ ہے

جمعہ جون 24 , 2022
سیاست میں دشمنی ، انتقام ، خودغرضی اور مفاد پرستی کی بھرمار نے قوم کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے ۔
خبردار!   آگے خطرناک موڑ ہے

مزید دلچسپ تحریریں