تحریر : آصف جہانگیر خان فتح جنگ
مارچ 1962ء کو رتہ سکول فتح جنگ میں ہیڈ ماسٹر جناب قاضی محمد دین صاحب نے سکول کا 31 واں سالانہ نتیجہ سنایا۔ صرف پاس ہونے والے طلباء کے نام پکارے گئے۔ ان میں میرا نام شامل نہیں تھا ۔میں گھر آکر خوش ہورہا تھا کہ فیل ہوگیا ہوں۔ نئی کتابیں نہیں پڑھنی پڑیں گی۔ بعد میں پتہ چلا کہ ہم تو کچّی جماعت والے ہیں اور کچّی جماعت والے بغیر امتحا ن کے ہی پّکی جماعت میں چلے جاتے ہیں۔اُس زمانے میں پلے گروپ، نرسری اور مانٹیسوری نہیں ہوا کرتے تھے۔ ہمارا پہلی جماعت کا کمرہ جنوبی دیوار کے ساتھ تھا اور جہازی سایٗز تھا۔
ہمارے اوّلین مدّرس محترم طالب حسین بھٹی صاحب تھے۔ وہ ہمارے مُرشد اوّل ہیں۔جنہو ں نے ہمیں قلم پکڑنا اور الف، ب اور پ لکھنا سکھایا۔آج ہم جو بھی حرف و حکایت یہاں بیان کررہے ہیں وہ انہی کی دین ہے۔ہنسی خوشی کے دن تھے۔لیکن سکول کے ماحول نے اوّلین عمر سے ہی سنجیدہ کردیا۔سکول سے عجب طرح کا خوف آنے لگا۔مگر کلاس کے اندر جب قاعدہ پڑھنا شروع کرتے تو ساری کُلفت دُور ہوجاتی۔وہ دور تختی لکھنے کا تھا۔گاچی مٹی کے ساتھ تختی پر لیپ کیا جاتا۔کانے کے قلم کے ساتھ تاج روشنایٗ والی سیاہ سیاہی کے ساتھ لکھا جاتا۔الف انار، ب بکری، پ پنکھا اور ت تتلی لکھنے شروع کیے۔یہ گویا ہماری انشاء پردازی کی ابتداء تھی۔اور ساتھ اُردو گنتی کے حروف ۱،۲ اور ۳ بھی لکھنا شروع کیے۔ تختی پر پنسل سے لایٗن لگانا اور دوسری طرف خانے بناکر اعداد لکھنا ایک خوبصورت مشق تھی۔
اُس زمانے میں طالب بھٹی صاحب، بہت دلفریب انداز میں قاعدہ پڑھاتے اُن کی پڑھاییٗ ہوییٗ نظمیں ابھی تک یاد ہیں۔جن میں ایک مشہور زمانہ نظم یہ تھی
چُو چوُ چاچا
گھڑی پہ چوہا ناچا
گھڑی نے ایک بجایا
چوہا نیچے آیا
میری تو طالب حسین بھٹی صاحب کے قاعدہ پڑھانے کے انداز کی وجہ سے قاعدہ میں ہی جان اٹک گیٗ تھی۔تختی لکھنے کا اپنا مزا تھا۔
طالب حسین بھٹی صاحب بہت مشفق استاد تھے۔اس زمانے میں ان کے پاس چاقو رکھتے تھے۔جس سے وہ بچوں کو کانے کی قلمیں گھڑ کر دیتے۔اور درمیان میں ٹک لگاتے۔پھر اس قلم سے تاج روشنائی میں ڈبو کر تختی لکھی جاتی۔
ایک دفعہ مجھ سے کوئی غلطی ہوگی تو کہنے لگے کہ ہاتھ نکالو۔میں نے نکال دیا اب انہوں نے ایک فٹا زور سے مارا۔تب مجھے احساس ہوا اچھا اس طرح بھی ہوتا ہے۔ان بزرگوں نے حرف کے ساتھ جو رشتہ جوڑا وہ ابھی بھی قائم ہے۔ان کا بیٹا افتخار میرا کلاس فیلو تھا۔تختی پر گاچی مٹی ملنے کے بعد لڑکے گھماگھما کر سکھایا کرتے تھے۔افتخار تختی گھمارہا تھا۔تختی میرے اونٹ پر آکر لگی اور خون نکلنے لگا۔گھر آیا تو والدہ بہت ناراض ہویں۔گلی میں ہی ماسٹر صاحب اور افتخار کو روک لیا۔ماسٹر صاحب نے بیٹے کو آگے کر دیااور کہا بہن بدلہ لے لو۔بس پھر کیا تھا معافی تلافی ہوگی۔
ان دنوں ایسی ہی باتیں ہوا کرتی تھیں۔بھٹی صاحب سے محبت کا رشتہ میں بعد بھی قائم رہا۔پھر ماڑی والے سکول کے بانی اور پرنسپل بنے۔پھر ان کی ریٹائیر منٹ ہوئی۔پھر اچانک ان پر فالج کا حملہ ہوا۔ہنستا مسکراتا شخص چار پائی کی زینت بن گیا۔وقت گزرتا گیا ۔پھر طالب حسین بھٹی ویل چیئر پر آگے۔اور ایک دن ملک عدم کے سفر کوروانہ ہوگئے۔اس عرصے میں بھی ان سے ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ا نہیں لیٹا دیکھتا تو ان کا خوبصورت ماضی یاد آجاتا۔خوبصورت قد کاٹھ،گھیرے دار شیروانی پہنے اورسر پہ جناح کیپ ہوتی۔بڑی بڑی پر اثر آنکھیں۔میں ان کو دیکھتا تو مجھے "دلا بھٹی "فلم کا ہیرو یاد آجاتا۔بچپن میں ہی دُلّا بھٹی کی فلم دیکھی اور اس کے دل فریب نغمے ریڈیو پر سنتے تھے۔
میرے ان محترم استاد کا تعلق راجپوت بھٹی خاندان سے تھا۔وہ دریائے راوی اور چناب کی درمیانی وادی کا ذکر کرتے جوکہ ساندل بار کہلاتی ہے۔ساندل دُلّا بھٹی کا داداتھا جس کا دارالحکومت "پنڈں بھٹیاں ” تھا۔
جب سکول میں تھوڑا دِل لگ گیا تو کلاس کے باقی ساتھیوں کی طرف بھی متوجہ ہونے لگا۔ سکول کے ابتداییٗ دوستوں میں سرِ فہرست جاوید اقبال بھٹی تھا۔اُس کے بعد اقبال دانتوں والا اور ندیم تھے ۔جاوید بھٹی بہت دِلکش شخصیت کا مالک تھا۔تمتماتے رُخسار جِن پر فرط ِ جذبات سے پسینہ آیا ہوتا۔ چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ بکھری ہوتی۔سکول کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا بنہوڑہ( تالاب) تھ ،ہم اس سے تختیاں دھوتے۔ اگرچہ سکول میں چھوٹے بچوں کے لیے پانی والا ٹب بھی تھا۔ اب جب کہ میں یہ لایٗنیں لکھ رہا ہوں تو مجھے جاوید بھٹی کا مسکراتا چہرہ نظر آرہاہے۔
۔جاوید قبال کے ساتھ 1962ء دوستی کا ابتداییٗ دور تھا۔پھر وہ اپنے آباییٗ گاوٗں کوٹ فتح خان چلا گیا۔ لیکن دِل میں اُس کی یاد کی جوت جلتی رہی۔جاوید بھٹی دوبارہ 1967ء میں چھٹی جماعت میں داخل ہوا اور وہی مُسکراتا چہرہ لیے ہمارے ساتھ آن ملا۔ وہی تمتماتے رُخسار اور پسینے کے قطرے ماتھے پر چمک رہے ہوتے۔اور اُس نے اپنی دلفریب مسکراہٹ لیے دوبارہ اپنی دوستی کو وہیں سے جوڑا جہاں وہ کوٹ فتح خان جانے سے پہلے چھوڑ گیا تھا۔
1967ء کے جاوید بھٹی سے تعلق کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ حقیقت میں ہنسنے مسکرانے کے دن وہی تھے۔جاوید بہت صحت مند لڑکا تھا۔اُس نے اُسی زمانے میں فٹ بال کھیلنا شروع کیا۔عجیب دلفریب کسرتی جسم اور صحت مند جسم والا نوجوان تھا جاوید بھٹی۔اُ س کا صحت مند جسم فٹ بال کِٹ میں نمایاں ہوتا۔اور لوگ اسُے رشک بھری نظروں سے دیکھتے۔اُس زمانے میں ظفر اللہ نیازی، مولوی سعید اور مسعود ہمارے دوستوں میں شامل ہوتے تھے۔ہنستے مسکراتے ہم نویں جماعت میں آگےٗ۔اب اپنے ہونے کا شعور آنے لگا۔ نویں جماعت میں ہم فزیالوجی پڑھا کرتے۔ خان اقبال خان صاحب نوٹس لکھانے کی ذمہ داری مجھے سُونپ دیتے تھے۔ہم سردیوں میں کمرہ جماعت سے باہر دھوپ میں سیڑھیوں پر بیٹھ کر پڑھتے تھے
میں جاوید بھتی کے ساتھ مسجد بی بی اناراں کے محلہ کی تنگ گلیوں میں جایا کرتا۔اسی گلی میں ہمارا کلاس فیلوریاض بھی رہتا تھا۔جاوید بھٹی اُس زمانے میں نےٗ مکان بنوا رہے تھے۔پہروں بیٹھ کر باتیں کیا کرتے۔اُن کی والدہ بہت شفقت سے پیار کرتیں۔البتہ اُن کے والد بہت خاموش طبع انسان تھے۔میں اور جاوید بھٹی سکول سے چُھٹی کے بعد شہر کے باہر دور تک چہل قدمی کیا کرتے۔ریلوے سٹیشن سے جہازوں والے گراوٗنڈ تک کا فاصلہ طے کرتے لیکن باتوں کا سلسلہ ختم نہ ہوتا۔ پھر وقت تیزی سے گذر گیا۔19 اپریل 1972ء کو میٹرک کا امتحان شروع ہوا۔15 مئی کو فزیالوجی کا آخری پریٹیکل دیا۔ اُس دِن ہم شام تک گھومتے رہے۔ پہلے ایٗرپورٹ گےٗ ۔پھر ڈھوکڑی روڈ سے ہوتے ہوےٗ بابا سایٗیں نور خان کے ڈیرہ پر گےٗ اور وہاں سے پنڈی روڈ پر اعجاز کے والد چوہدری غلام محمد مرحوم کے فارم تک آےٗ۔ شاید یہ ہماری لمبی واک کا آخری دِن تھا۔
اُس کے بعد ہماری راہیں جُدا ہوگیٗیں۔ جاوید بھٹی نیوی میں چلا گیا۔ اسے قسمت ملکوں مُلکوں پھراتی رہی۔اول عمر میں حج مبارک کی سعادت حاصل کرلی۔عرصے کے بعد کبھی ملاقات ہوجاتی تو جی بھر کر باتیں کیا کرتے۔ اور جاوید بھی دِل کھول کر ہنستا۔میں اُس کے بیرون ملک سفر کے تذکرے سنتا۔پھر وہ ریٹایٗرڈ ہوکر متحدہ عرب امارات چلا گیا۔واپس آیا تو جاوید پہلے والا جاوید بھٹی نہیں رہا۔ بلکہ ایک مسکین طبع۔ لاغر وجود والا جاوید بن چکا تھا۔چہرے پر داڑھی سجا لی۔اللہ سے لو لگا لی۔ تبلیغی جماعت کے ساتھ دوروں پر جانے لگا۔ واپس آیا تو میری ملاقات ہوییٗ وہ آخری ملاقات تھی۔اُس کے بعد مَلاقات ہوییٗ تو جاوید بھٹی کا وجود کفن میں لپٹا ہوا ہی دیکھنے کو مِلا۔
ہمارا ایک کلاس فیلو اقبال تھا۔ جس کا باپ دندان ساز تھا۔ اُسی حوالے سے اسے سب بالا دندوں والا کہتے تھے۔وہ انتہاییٗ خوبصورتی سے ا، ب ، پ اور اعداد ۱،۲ اور ۳ لکھا کرتا۔ اُس کی لکھنے والی سیا ہی انتہاییٗ روشن ہوتی۔میری نظروں کے سامنے اُس کی لکھی تختی ابھی تک گھوم رہی ہے۔میری دّلی خواہش تھی کہ کاش میں بھی اُسی طرح سے لکھ سکوں۔ وہ ابتداییٗ تعلیمی رشک تھا جبکہ یہ تشنگی تو مرتے دَم تک ختم نہیں ہوتی۔ ندیم ہماری کلاس کا صاف ستھرا لڑکا تھا۔وہ اُجلے کپڑے پہنا کرتا تھا۔ سکول یونیفارم ملیشیاء سوٹ ہواکرتا تھا۔ سکول میں ہر سوموار کو ہیڈ ماسٹر صاحب صبح اسمبلی میں لڑکوں کا معایٗنہ کرتے تھے اور سب سے زیادہ صاف ستھرے لڑکے کو ٹرافی انعام میں دی جاتی تھی اور وہ ٹرافی ہمیشہ ندیم ہی جیتا کرتا تھا۔ندیم ابتداییٗ دور میں ہی راولپنڈی چلا گیا۔پھر اُس سے ملاقات نہ ہوسکی۔
دوسری جماعت کا واقعہ ھے عبدالمالک عرف منو میرا کلاس فیلو تھا۔ وہ میری پٹی والی گرم ٹوپی لے کر بھاگ گیا ۔ میں اس کے پیچھے منّو مینڈی ٹوپی کا شور مچاتا ہوا بھاگا بھاگتے ہوئے وہ ٹوپی پتھروں پر پھینک گیا ۔ جہاں سے ٹوپی مجھے مل گئ عبدالمالک ء1971 میں چھمب جوڑیاں کے محاذ پر شہید ھوا ۔
اے ہم نفسان محفل ما
رفتید ولے نه از دل ما
فیضی دکنی
ذرا عمر رفته کو آواز دینا
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔