خون دل سے آرائشِ بہارِ نمازِ شب کرنے والے ہی (متقی لوگ) جنت میں جائیں گے اور آئمہ طاہرینؑ کی راہ پر نہ چلنے والے بدکار لوگ جہنم کی وادی میں دھکیل دئیے جائیں گے۔ چونکہ ہم سب نے مرنا ہے۔ اور مرنے کے بعد جزا و سزا کا مرحلہ آنا ہے۔ جس کی ہم سب کو تیاری کرنی ہے ۔فرائض نمازوں کے ساتھ ساتھ نمازِ شب کی کثرتوں میں رکوع و سجود ادا کر کے گڑ گڑانے والے لوگ فرشتوں سے بشارت سنیں گے جبکہ بے نماز اور بے عمل لوگوں پر خدا وند تعالٰی اور فرشتے لعنت کریں گے موت مومن کے لیے خو شخبری جبکہ کافر کے لیے عذاب ثابت ہوگی۔ موت کے وقت مومن کے لیے آسانیاں اور کافر کے لیے عذاب ہو گا اور اس کے بارے میں "مشکواة شریف”میں تلقینِ میت کے باب میں (حضرت براء بن حارث سے روایت ہے کہ "رسول اللہ ﷺکے ہمراہ ہم ایک انصاری شخص کے جنازے پر گئے جوں ہی ہم اسکی قبر پر پہنچے ابھی تک ان کو دفن نہ کیا گیا تھا رسول ﷺبیٹھ گئے اور ہم بھی آپؐ کے گرد اس طرح سرنگوں اور خاموش بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ آپؐ کے ہاتھ میں اس وقت ایک لکڑی تھی جس سے آپ ﷺزمین کرید رہے تھے پھر (یکایک) آپؐ نے سر اٹھایا اور فرمایا خدا سے پناہ مانگو قبر کے عذاب سے۔ دو یا تین مرتبہ آپؐ نے یہ الفاظ فرمائے اور اس کے بعد فرمایا جب بندہ مومن کا تعلق دنیا سے منقطع ہونے والا ہوتا ہے اور وہ آخرت کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے فرشتے آتے ہیں۔ جن کے چہرے ایسے روشن ہوتے ہیں گویا ان کے منہ آفتاب ہیں۔ ان کے ساتھ جنت کے کفن اور خوشبوئیں ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اس قدر دور بیٹھ جاتے ہیں جتنی دور تک نگاہ جاتی ہے۔ پھر موت کا فرشتہ آتا ہے اور بندہ مومن کے سرہانے پر بیٹھ جاتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ اے پاک روح خدا کی بخشش اور رضامندی کی طرف چل۔
رسول اللہؐ نے فرمایا کہ روح اس طرح بہتی ہوئی جسم سے نکلتی ہے جس طرح پانی کا قطرہ مشک سے بہتا ہوا نکلتا ہے۔ پس فرشتہء موت اس روح کو لے لیتا ہے اور فورا ہی ملک الموت سے اس روح کو دوسرے فرشتے لے لیتے ہیں (یعنی اس قدر جلد کہ پلک جھپکنے کی دیر نہیں ہوتی) اور اس کو اُس کفن اور خوشبو میں رکھ لیتے ہیں۔ جس کو وہ لائے تھے اور اس روح سے وہ بہترین خوشبو نکلتی ہے۔ جو روئے زمین پر سب سے بہتر ہوتی ہے پھر فرشتے اُس روح کو آسمان کی طرف لے جاتے ہیں ۔ اور فرشتوں کی جس جماعت کے قریب سے وہ روح گزرتی ہے وہ جماعت کہتی ہے کون ہے یہ پاک روح ؟
وہ فرشتے جو اس روح کو لے جاتے ہیں کہتے ہیں یہ فلاں شخص ہے اور فلاں کا بیٹا ہے یعنی وہ اس کے نام و لقب کو عمدہ طریق پر بتاتے ہیں۔ جن سے وہ دنیا میں موسوم ہوتے ہیں ۔ حتٰی کہ یہ فرشتے آسمانی دنیا پر پہنچتے ہیں ۔ اور اس کے لیے آسمان کا دروازہ اس وقت کے لیے کھولا جاتا ہے اور ہر مسلمان کے فرشتے دوسرے آسمان تک اس کے ساتھ جاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ اس روح کو ساتویں آسمان تک پہنچایا جاتا ہے اور اللہ فرماتا ہے۔ میرے بندہ کے نامہء اعمال کو مقام علیین میں جہاں ارواحِ سعید رہتی ہیں) رکھو اور اسکو زمین کی طرف لے جاو ۔(یعنی اسکے مدفون جسم میں لوٹا دو )میں نے مٹی ہی سے جسموں کو پیدا کیا اور مٹی ہی میں ان کو واپس بھیجتا ہوں اور مٹی ہی سے ان کو دوبارہ نکالوں گا۔ اس کے بعد رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ بس روح کو پھر اس کے جسم میں ڈال دیا جاتا ہے اور پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں۔ اور پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے؟
اس کے جواب میں وہ کہتا ہے میرا پروردگار اللہ ہے۔
پھر وہ پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے؟
وہ کہتا ہے میرا دین اسلام ہے ۔
پھر وہ پوچھتے ہیں یہ کون شخص ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا؟
وہ کہتا ہے وہ خدا کے رسولؐ ہیں پھر وہ پوچھتے ہیں تو نے ان کا رسول ہونا کس طرح جانا ؟
وہ کہتا ہے میں نے خدا کی کتاب کو پڑھا اس پر ایمان لایا اور اسکی تصدیق کی۔ پھر ایک پکارنے والا آسمان سے پکار کر کہتا ہے (یعنی خدا کی طرف سے اعلان کرتا ہے) کہ میرا بندہ سچا ہے اس کے لیے جنت کا بستر بچھاؤ اور جنت کا لباس اس کو پہناؤ اور جنت کی طرف ایک کھڑکی کھول دو ۔ چناں چہ کھڑکی کھول دی جاتی ہے اور اس سے جنت کی ہوا اور خوشبو آتی ہے پھر اسکی قبر کو حد نظر تک کشادہ کردیا جاتا ہےاس کے بعد رسولؐ نے فرمایا کہ پھر اس کے پاس ایک خوبصورت شخص آتا ہے جو بہترین لباس پہنے اور خوشبو لگائے ہوتا ہے اور اس سے کہتا ہے خوشخبری ہو تجھ کو اس چیز کی جو تجھ کو خوش کرنے والی ہے (یعنی تیرے لیے تمام نعمتیں موجود ہیں) اور یہ وہ دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا پس میت اس سے پوچھتی ہے کہ تو کون ہے کہ تیرا جسم و جمال کامل ہے اور تو بھلائی کو لایا ہے اور خوشخبری سناتا ہے؟ وہ کہے گا میں تیرا عملِ خیر ہوں۔ میت یہ سن کر کہتی ہے اے میرے پروردگار ! قیامت کو قائم کر ۔ کہ میں پھر اہل و مال کی طرف جاؤں ” ۔
سیّد حبدار قائم
کتاب ‘ نماز شب ‘ کی سلسلہ وار اشاعت
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔