تحرير و تحقيق:شاندار بخاري
مقيم مسقط
سب سے پہلے تو تمام تعریفیں اس خدائے بزرگ و برتر کی ہیں ۔ آج کا میرا موضوع بے جا تعریف یا مدح سرائی ہے جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے سکر المدح یہ عربی زبان کے دو الفاظ کا مرکب ہے سکر یعنی نشہ اور مدح یعنی تعریف۔
یہ انسانی فطرت میں شامل ہے کہ وہ کسی بھی رنگ و نسل کا ہو چھوٹا بچہ ہو یا بڑا اور سمجھدار ہو اسے ہر روپ میں سراہے جانا اور اپنی تعریف سننا بہت اچھا لگتا ہے اور کوئی ان کو ان کے کسی فعل یا قول میں اصلاح کی گنجائش ہے یہ بھی کہہ دے تو انہیں اچھا نہیں لگتا اور چاہتے ہیں کہ ان کے عیوب پوشیدہ رہیں اور ان کو صرف اچھے اوصاف سے یاد رکھا جاۓ ۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ جہاں جائیں وہاں ہمارا ذکر خیر ہو خاص طور پر ہماری کسی محفل میں عدم موجودگی میں بھی لوگ ہماری مدح سرائی کریں، بے شک ہم کتنے ہی بخیل کیوں نا ہوں دوسروں کی تعریف کرنے میں ایک لفظ نا کہتے ہوں لیکن اپنی تعریف سننے کی امید سب سے رکھتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں بھی ایسے کئی شیطانی کردار ہیں اور یہ فتنہ گرہر زمانے میں روپ بدل کر موجود رہتے ہیں، جو دوسروں کی تعریف و تحسین میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں تملق اور چاپلوسی ان لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے اور اپنے کسی مقصد یا کسی فائدے کے حصول کیلئیے متعلقہ شخص سے قربت بڑھاتے ہیں اور ان کے سامنے ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں اکثر اوقات تو جس کی تعریف ہو ہی ہو وہ خود شرمندہ ہو جاتے ہیں۔
سکر المدح یا بے جا تعریف کرنے والا رویہ بہت خطرناک ہوتا ہے اس لیے کہ اس بات کا عین امکان ہے کہ بہت زیادہ اور بے جا مدح و تعریف و توصیف سن کر لوگ اپنے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں تکبر وغرور میں مبتلا ہوسکتے ہیں اپنے متعلق تقویٰ، عبادت گزاری، امانت و دیانت، حق پسندی اور پارسائی کے اوصاف سن کر عجب نہیں کے اس خرافات کے جال میں جاپڑیں اور یہ سوچ انہیں مزید اعمال خیر سے روک دے ۔ شیطان انہیں اس بہکاوے میں مبتلا کردے کہ تم بہت بڑے متقی و پرہیز گار انسان ہو، لوگ تمھاری پارسائی اور عظمت کے معترف ہیں اور تمہیں بڑا انسان سمجھتے ہیں اسی لیے تمھارے سامنے اور پیٹھ پیچھے تمھارے گن گاتے اور قصیدے پڑھتے ہیں۔ اگر اپنی تعریف سن کر کوئی انسان اس حد تک خود فریبی کا شکار ہوجائے تو ہلاکت و خسران اس کا مقدر ہے اور جو شخص منھ پر اس کی بے جا تعریف وتوصیف کرکے اس کا سبب بنتا ہے وہ اسے ہلاکت میں ڈالنے کا براہ راست ذمہ دار ہے یہاں باقی صدیقی کا لکھا ہوا اور اقبال بانو صاحبہ کی گائی ہوئی مشہور غزل کا اک مصرع یاد آگیا
” خود فریبی سی خود فریبی ہے ”
پرانے زمانے میں عرب شاعر مدح سرائی کیلئیے مشہور تھے اور انعام و اکرام بھی پاتے یہاں تک کہ جنگوں میں بہادر سپہ سالار کی شان میں شعر لکھے اور پڑھے جاتے ان کی بہادری اور جنگی مہارت کے اوصاف بیان کئیے جاتے جنہیں سن کر ان میں مزید ہمت ، طاقت ، جذبہ اور ولولہ پیدا ہوتا لیکن یہ حسب ضرورت عمل تھا بعض اوقات کچھ لوگ بلا وجہ کسی دبلے پتلے نوجوان کو خوشامد کے نشے سے مسحور کر کے کسی تندرست پہلوان سے لڑوا دیتے اور اس کو پٹتا ہوا دیکھ کر مزا لیتے ۔
خوشامد کے بھی آداب ہیں جہاں رسول اللہ ﷺ نے خود صحابہ کرام ؓ کی تعریف کی وہیں کسی کی بے جا تعریف و توصیف کرنے پر سختی سے منع فرما یا ہے ؛
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
سمع النبی ﷺ یثنی علی رجل ویطریہ فی مدحہ، فقال أھلکتم أوقطعتم ظہرالرجل
ترجمہ : ” تم نے اس شخص کو ہلاک کردیا ” یا فرمایا کہ ” تم نے اس کی کمر توڑ دی "
اس حدیث کی تحقیق کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ممانعت کسی کی تعریف و توصیف کرنے سے نہیں، بلکہ اس میں مبالغہ آرائی کرنے سے ہے ۔ اب آپ اس حدیث کو دوبارہ پڑھیں اس میں ’’یطریہ‘‘ کا لفظ ہے جو کہ عربی زبان سے ہے اور اس کے معانی میں سے ایک معنی کسی شخص کی خوب بڑھاچڑھاکر تعریف کرنا ہے۔
یہاں میں امام عالی المقام امام علي ابن ابي طالب علیه السلام کی ایک روایت نقل کرتا ہوں جس میں انہوں نے 4 اقسام کے نشہ سے بچنے کی تلقین کی ہے ؛
قال أمير المؤمنين عليه السّلام: ينبغى للعاقل أن يحترس من سكر المال و سكر القدرة و سكر العلم و سكر المدح و سكر الشّباب فإنّ لكلّ ذلك ريحا خبيثة تسلب العقل و تستخفّ الوقار ۔
ترجمہ : امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے فرمایا: عقلمند آدمی کو پیسے، طاقت، علم اور بالخصوص تعریف کے نشہ سے بچنا چائیے کیونکہ یہ سب معاملات ایک ایسا نشہ ہیں جو کہ بدنیتی پر مبنی ہیں اور یہ دماغ کو لوٹتے ہیں اور انسان کے وقار کو کم کرتے ہیں ۔
علماء اخلاق کا کہنا ہے کہ اگر آپ کسی محفل سے خطاب کریں اور آپ کی بے جا واہ واہ ہو رہی ہو لیکن آپ کو مزہ آ رہا ہو یہ جانتے ہوئے کہ مجمع آپ کی بات کو نہیں سن رہا بلکہ جملہ کہنے سے پہلے ہی نعرے لگا دے تو یہ سکر المدح ۔ ایران کے مشہور عالم دین عالم اخلاق و ضابطہ حیات علامہ تقی بہجت ؒ کا ایک مشہور واقع ہے کہ ایک مرتبہ عید کی نماز میں لاکھوں لوگوں کا مجمع ان کے پیچھے نماز پڑھنے آ پہنچا اور عموما جہاں وہ نماز پڑھاتے تھے وہاں لوگ اس غلامِ علي عليه السلام جس نے اپنے آپ کو تہذیب اہل بیتؑ کے مطابق اس قدر ڈھال رکھا تھا کہ لوگ نماز کے وقت سے 3 گھنٹے قبل مصلّیٰ بچھا کر علامہ بہجت کی آمد کا انتظار کرتے کہ آپ کے پیچھے نماز پڑھیں تو عید کے موقع پر ایسا ہونا تعجب کی بات نہیں تھی لیکن جب علامہ اپنے گھر سے نکلے اور اس جم غفیر کو دیکھا اور بتایا گیا کہ لاکھوں لوگ آپ کے پیچھے نماز پڑھنے اور آپ کی ایک جھلک دیکھنے کیلئیے آئے ہیں تو آپ وہیں سے گھر لوٹ گئے اور اپنے شاگرد سے کہا کہ وہ نماز پڑھائیں میں نہیں پڑھاہوں گا اصرار ہوا لیکن انہوں نے انکار کیا اور جب ان کے افراد خاص نے پوچھا کہ علامہ اتنا مجمع آپ کیلئیے اکٹھا ہوا ایسے موقعوں کیلئیے تو علماء حضرات ترستے ہیں اور آپ انکار کر رہے ہیں تو علامہ نے کہا کہ جب میں نے مجمع کیطرف دیکھا تو میرے نفس نے کہا کہ یہ سارا مجمع تیرے لئیے آیا ہے تو اگر اس وقت میں نماز پڑھاتا تو یہ ریاکاری میں بدل جاتی یہ نماز اللہ کیلئیے نا ہوتی یہ سکر المدح ہے ۔
امام بیہقی ؒ نے اپنی کتاب شعب الایمان میں بعض علمائے سلف کے حوالہ سے لکھا ہے کہ جب کسی مجلس میں کسی شخص کی تعریف ہونے لگے تو اسے یہ دعا کرنی چاہیے:
أللہم اغفر لی مالا یعلمون، ولا تواخذنی بما یقولون، واجعلنی خیراً مما یظنون۔ 26؎
ترجمہ : اے اللہ میری جن لغزشوں کا ان لوگوں کو علم نہیں ہے انھیں بخش دے۔ جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں اس پر میرا مواخذہ نہ کر اور میرے بارے میں ان لوگوں کا جو گمان ہے، مجھے اس سے بہتر بنا دے۔
تو میرے عزیزومحترم قارہین اس نازک مگرسنگین سے مسئلے پر غور کریں اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کیلئیے کسی کی مدح سرائی میں حد سے تجاوز نا کریں تا کہ آنے والے دور میں جب آپ پیچھے پلٹ کر دیکھیں تو آپ اپنے افعال پر آپ کو شرمندگی اور ندامت نا ہو۔
شاندار بخاري
مسقط
مسقط، سلطنت عمان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔