کمپیوٹر، ریاضی اور ٹیکنالوجی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے دیارِ غیر سے آنے والا گولڈ میڈلسٹ نوجوان اپنے گائوں لوٹا تو اپنے ہم عمر کزن جس نے حال ہی میں بی اے کا امتحان دیا تھا، سے حال احوال کے بعد پوچھنے لگا کہ آگے کیا ادارے ہیں؟ دیہاتی نوجوان بولا میں اب سی ایس ایس کا امتحان دوں گا اور پولیس میں اے ایس پی بنوں گا۔ پولیس ہی کیوں؟ ڈسٹرکٹ منیجمنٹ یا فارن سروسز میں کیوں نہیں؟ جواب میں نوجوان پھر بولا، جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا ، فارن سروس فارن میں ہوتی ہے میں پاکستان میں رہ کر کچھ کرنا چاہتا ہوں اور ڈی ایم جی میری کمزوری ہے جس میں اصل گروپ پولیس ہے۔ ’اصل گروپ‘ سے کیا مطلب ہے تمہارا؟ اور پولیس میں جا کر کیا کرو گے؟ نوجوان کا چہرہ دمکا، پولیس کا اپنا رعب ہے بھائی ! رعب بھی اور کمائی بھی۔ باہر سے آنے والا نوجوان بولا کہ رعب اور پیسہ کسی اور جگہ سے مل جائے تو کیا پھر بھی پولیس ہی میں جائو گے؟ سیدھے سادھے دیہاتی نوجوان نے اپنے کزن کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پولیس اس لئے کہ اپنے حقوق کے لئے تھوڑی بہت طاقت بھی ہونی چاہئے۔ بیرون ملک سے تعلیم مکمل کر کے واپس آنے والے نوجوان کا استدلال بدستور قائم تھا ، پوچھا کہ قائداعظم، علامہ اقبال، ایدھی جیسے بڑے ناموں میں سے کون پولیس کی نوکری کرتا تھا؟ طاقت سے تمہاری کیا مراد ہے؟ بندوق کی طاقت یا کسی کو جیل میں ڈالنے کی طاقت؟ سب سے بڑی طاقت تو علم ہے یا پھر اچھے اعمال میں۔ دیہاتی نوجوان کسی طور اپنی خواہش سے پیچھے ہٹنے کو ہرگز تیار نہ تھا سو قدرے سوچتے ہوئے بولا ، بھائی! وہ تو سب ٹھیک ہے لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے ہمارا ویلیو سسٹم تبدیل ہو چکا ہے اس ملک میں آپ کے پاس پیسہ ہو عہدہ ہو یا منصب ، بس طاقت کے یہی پیمانے ہیں!!!
اس مکالمے کا مقصد محض یہ ہے کہ آج پڑھے لکھے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں میں کمیشن لے کر پولیس میں آنے کو ترجیح دینے لگے ہیں ان میں سے بیشتر کو پولیس میں آ کر اپنی محرومیوں کا بدلہ لینے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے لیکن جب وہ اس ادارے کا حصہ بنتے ہیں تو حالات یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ محکمہ پولیس کا فقیر نے پچھلی تین دہائیوں سے نہایت قریب سے مشاہدہ کیا ہے پولیس کے ایک عام سپاہی سے لے کر آئی جی رینک تک کے افسران سے تعلق خاطر بھی ہیں اور ان کی مشکلات اور مسائل کا اندازہ بھی۔ اس ضمن میں بندہ عاجز کی اولین کتاب ’’کہکشاں‘‘ اس بات کی شاہد ہے کہ پولیس میں بڑے بڑے اعلیٰ دماغ اور روشن چہرے موجود ہیں اور کچھ ریٹائر ہو گئے ہیں جن کا شاندار ماضی آج بھی ان کی فرض شناسی کی گواہی دے رہا ہے اور وہ بہترین انسان دوست پولیس افسران ہیں ان میں جناب حسین اصغر، سجاد افضل آفریدی، کیپٹن(ر) ظفر اعوان، جناب ذوالفقار حمید، عبد الحمید کھوسو ، اے ایس پی اظہر خان، سائیں راکھیو میرانی، چوہدری اسلم، سید علی ناصر، عطا محمد، شہزاد ندیم بخاری، سید خالد ہمدانی اور حال ہی میں اٹک سے ٹرانسفر ہونے والے ڈی پی او رانا شعیب محمود شامل ہیں۔ ایس ایس پی رانا شعیب جیسے بہت کم آفیسر محکمہ میں ہوں گے وہ بہت کم گو اور انسانیت سے پیار کرنے والے نوجوان آفیسر ہیں انہوں نے اٹک میں جس طرح عوامی رابطوں کو بحال رکھا ہے وہ اپنی جگہ ایک مثال ہے جو ٹرینڈ وہ یہاں سیٹ کر گئے ہیں شاید ان کے پیش رو کو عوام کی عادتیں بدلنے میں خاصا وقت درکار ہو گا انہوں نے اپنی پوسٹنگ کے پہلے روز سے لے کر آخری دن تک سوائے اتوار کے شاید ہی ناغہ کیا ہو جس روز وہ عوام الناس کے سامنے نہ کھڑے ہوئے ہوں۔ افسران اپنی محکمانہ شکایات سے پہلو تہی کرتے ہیں اور معاملات کو جوں کا توں رکھنے کے لئے عموماٌ مصلحت سے کام لیتے ہیں، رانا شعیب نے اپنے اللہ کو سامنے رکھ کر ہر آنے والے شکایت کنندہ اور سائل کو وہی عزت و احترام دیا جو عموماٌ سائل کو نہیں ملاکرتا۔ ڈی پی او کی اپنے دفتر میں کھلی کچہریوں کا حساب تو فقیر کے پاس نہیں لیکن وہ ایک بے مثال ضلعی پولیس آفیسر اس لئے بھی ہیں کہ انہوں نے جہاں عوام الناس کی مشکلات کا ازالہ کرنے میں اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھائیں وہاں اپنے ماتحت ملازمین کو بھی حد درجہ شفقت اور پیار دیا اور ملازمین کی چھوٹی چھوٹی مشکلات کو حل کرنے کے لئے جدوجہد کی، شہداء کی بیوائوں اور ان کے خاندان کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی کوششیں کیں، انہوں نے ضلع میں جرائم کی روک تھام کے لئے دن رات ایک کیے رکھا اور اپنے ماتحتوں کی خوش غمی میں شرکت کو بھی اپنے اوپر لازم سمجھا۔
حکومت تبدیل ہوئی تو فقیر کو یہ ’فکر‘ تھی کہ ہر نئی آنے والی حکومت ضلعی افسران میں اپنی مرضی کا ردوبدل ضرور کرتی ہے شاید اسی لئے عیدالفطرپر ڈی پی او اٹک رانا شعیب محمود سے ملنے جانے کا ا رادہ تھا مگر بوجوہ نہ جا سکا اور اب ان کے تبادلے کے احکامات آگئے ہیں گو کہ ان کی تعیناتی کے دوران میری ان سے سرسری سی صرف دو ملاقاتیں ہی ہوئیں لیکن ان کے کام اور عوام کے ساتھ ان کا حسن سلوک ضلع بھر میں ہر زبان پر ہے ۔ ایسے نوجوان جو پولیس میں محض رعب اور طاقت کے نشے سے مرعوب ہو کر آنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ کسی بھی مقام پر انسان کا اخلاق اور اقدار وہ بنیادی ٹول ہیں جن سے لوگوں کے دلوں کو مسخر کیا جا سکتا ہے اس کی زندہ مثال ایس ایس پی رانا شعیب کی ہے وہ جہاں بھی رہیں عافیت اور سکون سے رہیں اور مخلوق کے لئے آسانیاں پیدا کرتے رہیں۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔