صدر پاکستان کو ہٹانے کا طریقہ

( شہباز یا پی ڈی ایم حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ بحث جاری ہے کہ صدر پاکستان جناب عارف علوی کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جائیگا ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ آئین پاکستان میں صدر مملکت کو ہٹانے کا کیا طریقہء کار درج ہے اور کیا  پی ڈی ایم انہیں ہٹا پائیگی )

تحقیق و تحریر :

سیّدزادہ سخاوت بخاری

اس سے قبل کہ ہم آج کے مخصوص موضوع پر بات کریں ، یہ بھی جان لینا ضروری ہے کہ دنیاء بھر میں اس وقت کتنی اقسام کے نظام حکومت قائم ہیں ، پاکستان نے 1973 کے آئین میں اپنے لئے کونسا نظام حکومت منتخب کیا اور اس کے کیا تقاضے ہیں ۔

دنیاء میں موجود چند نظام ہائے حکومت :

1. صدارتی نظام ( Presidential )

جیسا کہ امریکہ ، فرانس ، ترکی ، افغانستان ، برازیل ، روس وغیرہ

2. پارلیمانی نظام حکومت ( Parliamentary System )

جیسا کہ پاکستان ، ہندوستان ، بنگلہ دیش وغیرہ

3. بادشاہت ( Kingdom )

جیسا کہ عرب خلیجی ریاستیں ، برونائی اور اردن وغیرہ

4. جمہوریت زیر سائیہ نام نہاد بادشاہت

( Parliamentary System under the Umbrella of a Ceremonial Monorchy )

جیسا کہ برطانیہ ، جاپان ، ملائیشیا ، تھائی لینڈ ، مناکو ، سویڈن ،ڈنمارک وغیرہ ۔

5 . امارت اسلامی ( Islamic Emerate )

جیسا کہ اس وقت افغانستان میں رائج ہے جہاں طالبان نے بزور شمشیر ملک پر قبضہ کرکے مولوی ھبت اللہ کو امیرالمومنین بنادیا .

6. جنگل راج 

( A Lawless Society , where Might is Right )

جیسا کہ اس وقت پاکستان میں نافذ ہے یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس ۔ لاٹھی والا چاھے تو آدھی رات کو دکان کھول لے ، نہ چاھے تو دن میں بھی لوگ بھوک پیاس سے مرتے رہیں ۔

صدارتی نظام :

اس نظام کے تحت صدر صرف سربراہ مملکت ہی نہیں بلکہ چیف ایگزیٹو بھی ہوتا ہے ۔ اسے عوام اپنے ووٹ سے براہ راست منتخب کرتے ہیں اس لئے وہ اپنی پارٹی کے علاوہ کسی دوسری سیاسی پارٹی کی حمائت کا محتاج نہیں ہوتا ۔ صدارتی نظام میں اسمبلی کا کام قانون سازی ہوتا ہے نہ کہ بلیک میلنگ ، جیسا کہ ابتک پاکستان میں ہورہا ہے ۔ یہ کہ صدارتی نظام میں عدم اعتماد ایک طویل اور پیچیدہ طریقہ ہے لھذا صدر اپنی مدت بہ آسانی اور خوش اسلوبی سے پوری کرلیتا ہے ۔

پارلیمانی نظام :

ہندوستان وغیرہ کی طرح یہ نظام ہم نے بھی برطانیہ سے مستعار لیا اور ابتک اس کے نتائج بھگت رہے ہیں ۔ اس نظام میں چیف ایگزیکٹو کے اختیارات وزیراعظم کے پاس ہوتے ہیں جبکہ صدر مملکت کا عہدہ نمائیشی ہوتا ہے ۔ وزیراعظم کو عوام کی بجائے قومی اسمبلی کے ممبران منتخب کرتے ییں لھذا اگر اس کی اپنی پارٹی کے پاس اسمبلی میں اکثریت نہیں ، تو پھر وہی ہوتا ہے جو عمران خان کے ساتھ ہوا ۔ اور اگر یہی نظام رہا تو آئیندہ بھی یہی کچھ ہوتا رہیگا ۔ دراصل ہمارے کرپٹ سیاستدانوں نے جان بوجھ کر پارلیمانی نظام کا انتخاب کیا تاکہ جب چاھیں کسی حکومت کو چلتا کرسکیں جبکہ صدارتی نظام میں ایسا بہ آسانی ممکن نہیں بلکہ بہت مشکل کام ہے ۔

بادشاھت :

اس نظام کی تعریف کی ضرورت نہیں ۔ بادشاہ بادشاہ ہوتا ہے وہ حبتک زندہ ہے تخت پر بیٹھے گا ، مرگیا تو اس کا بیٹا ، بیٹی یا جو نامزد ہوگا بیٹھ جائیگا ۔

جمہوریت زیر سائیہ بادشاھت :

اس نظام کی اعلی مثال برطانیہ ہے جہاں نظام تو پارلیمانی جمہوری ہے لیکن اس جمہوریت کے سر پر تاج بھی رکھا ہوا ہے یعنی ملکہ برطانیہ کے دستخط بھی ضروری ہیں ۔ ہمارے ہاں ملکہ کی جگہ صدرمملکت نے لے لی ۔

امارت اسلامی :

اس وقت یہ نظام صرف افغانستان میں رائج ہے اور کب تک چلتا ہے اس سوال کا جواب وقت ہی دے گا ۔ البتہ ان کی فلاسفی کے مطابق امیرالمومنین پہلی اور آخری اتھارٹی ہے وہ جو چاھے جیسے چاھے وہی ہوگا ۔ اگر میں غلط نہیں کہ رہا تو اسی سے ملتا جلتا نظام اس وقت ایران میں بھی چل رہا ہے جہاں امیرالمومنین کو رھبر کہا جاتا ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں انتخابات کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے لیکن انتخابات میں حصہ لینے کا اپل وہی ہوتا ہے کہ جسے رھبر اجازت دے ۔ یعنی عوام صرف انہیں کو ووٹ دے سکتے ہیں جنہیں رھبر نے اس کام کے لئے صحیح سمجھا اور الیکشن لڑنے کی اجازت دی ۔

جنگل راج :

اس کی بہترین مثال پاکستان ہے جہاں یہ نظام گزشتہ کئی دہائیوں سے بہ خوبی نافذ ہے ۔ اس میں آئین ، صدر ، وزیراعظم ، وزراء ، اسمبلیاں ، گورنر ، عدالتیں ، فوج ، پولیس اور دیگر تمام ادارے موجود ہیں مگر چلتا یہ طاقت کے زور سے ہے ۔ موم کی ناک کی اصطلاح تو آپ نے سنی ہوگی یہ ہوبہو موم کی ناک کی طرح ہے جب اور جس طرف چاھو اسے موڑ لو ۔ اس نظام میں کوئی مستقل چور ڈاکو یا لٹیرا نہیں ہوتا بلکہ جس کے سر پر ہما پرندہ بیٹھ جائے وہ پاک صاف ہوکر حکمران بن جاتا ہے ۔ اس نظام کی تعریف میں بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن مضمون کی طوالت کو مدنظر رکھتے ہوئے چلتے ہیں آج کے موضوع کی طرف اور دیکھتے ہیں کہ صدر پاکستان کو ہٹانے کا آئینی طریقہء کار کیا ہے ۔

آئین پاکستان کا آرٹیکل ( 47 )

صدر پاکستان کی تنزلی یا معزولی

( Removal or Impeechment of the President of Pakistan)

جیسا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل نمبر 47 میں طے کیا گیا ،

صدر پاکستان کو عہدے سے ھٹانے یا مواخذہ کرنے کے لئے درج ذیل وجوہات کا پایا جانا ضروری ہوگا ۔

1. صدر ذھنی یا جسمانی طور پر معذور ہوجائے ۔

( ایسی حالت میں ہٹائے جانے کو انگریزی میں Removal اور اردو میں "ہٹایا جانا ” کہا جائیگا )

2. صدر کسی آئین شکنی کا مرتکب ہو یا اس کے اعمال اپنے عہدے کی شان سے مطابقت نہ رکھتے ہوں ۔

( ایسی حالت میں ہٹائے جانے کو انگریزی میں Impeechment اور اردو میں جبری معزولی کہا جائیگا )

طریقہء کار ( Precedure )

آئین کے آرٹیکل 47 کے مطابق اگر صدر کی ذات میں درج بالا 2 وجوہات میں سے کوئی ایک وجہ ( Reason ) پائی جائے تو ,

ضروری ہے کہ

پارلیمنٹ یعنی نیشنل اسمبلی اور سینیٹ آف پاکستان ، دونوں ایوانوں کے ملاکر ، کل ممبران کا نصف / آدھے ممبران تحریری طور پر چیئرمین سینیٹ یا اسپیکر قومی اسمبلی کو تحریری طور پر آگاہ کرینگے کہ ان وجوہات کی بناء پر ہم صدر پاکستان کو عہدے سے ھٹانا چاھتے ہیں ۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ چیئرمین سینیٹ کو موصول ہونیوالی ایسی درخواست بھی وہ اسپیکر قومی اسمبلی کو ضروری کاروائی کے لئے بھجوادینگے ۔

اب اسپیکر قومی اسمبلی ، ایسی درخواست ملنے کے 7 دن کے بعد اور 14 دن سے پہلے پہلے ( پارلیمنٹ ) دونوں ایوانوں سینیٹ اور قومی اسمبلی کا مشترکہ اجلاس طلب کرے گا ۔ اسی دوران تنزلی یا معزولی کا یہ نوٹس صدر مملکت کو بھی ارسال کر دیا جائیگا تاکہ اگر وہ مشترکہ اجلاس میں آکر اپنا موقف اور صفائی پیش کرنا چاھیں تو کرسکتے ہیں ۔

مشترکہ اجلاس میں صدر کو ہٹائے جانے کے لئے پیش کی جانیوالی وجوہات پر تفصیلی بحث ہوگی۔ اگر بحث کے بعد دونوں ایوانوں کے ممبران کی کل تعداد کا دو تہائی 2/3 اس کے حق میں ووٹ دیدے تو صدر مملکت فوری طور پر اپنا عہدہ چھوڑ دینگے ۔ مثال کے طور پر ،

سینیٹ ممبران کی تعداد = 100

قومی اسمبلی ممبران ….=. 342

کل ممبران پارلیمنٹ = 442

442 کا 2/3 یا دو تہائی = 294

اس جمع تفریق سے پتہ یہ چلا کہ اگر پی ڈی ایم کے پاس سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ملاکر 294 ووٹ ہوں تو عارف علوی صاحب کو گھر جانا پڑے گا لیکن عددی اور حقیقی صورت حال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے پاس پی ٹی آئی کے ضمیر جاگ ممبران سمیت 200 کا عدد پورا نہیں ہوتا چہ جائیکہ وہ 294 ووٹ پورے کرسکیں لھذا مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں ایک بار پھر ترازو والوں کی مدد درکار ہوگی ورنہ

نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی ۔

SAS Bukhari

سیّدزادہ سخاوت بخاری

مسقط، سلطنت عمان

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

اٹک میں یو م ملیریا کے سلسلہ میں سیمینا ر

منگل اپریل 26 , 2022
ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھا رٹی اٹک کے زیر اہتمام ڈسٹرکٹ ہیلتھ سنٹر اٹک میں یو م ملیریا کے سلسلہ میں سیمینا ر منعقد ہوا
اٹک میں یو م ملیریا کے سلسلہ میں سیمینا ر

مزید دلچسپ تحریریں