میری زندگی کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ ہمیشہ اہلِ علم کی محفل میں بیٹھنے کا خواہشمند رہتا ہوں۔ میرے دوست احباب جانتے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر اٹک کے معروف ادیبوں، شعراء، صحافیوں اور اساتذہ سے محفل اور استفادہ کرتا ہوں۔ اکثر دینی و ادبی موضوعات پر مفید گفتگو ہوتی ہے۔ ان محفلوں میں اکثر موضوعات چِھڑتے تو ہیں مگر تشنہ ہی رہتے ہیں۔ جن میں سے ایک سوال محترم آغا جہانگیر علی بُخاری صاحب کی طرف سے یہ تھا کہ کیا ہر طرح کی عزت اور ذلت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ تو میں نے بے ساختہ کہا کہ جی ہاں عزت اور ذلت اللہ تعالی ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ تو بُخاری صاحب نے اہم ترین نکتہ یہ اُٹھایا کہ یزید نے بھی قرآن کی آیت پڑھ کر کہا تھا کہ عزت اور ذلت اللہ کی طرف سے ہے ۔ اس نے مجھے عزت دی اور……..
رمضان المبارک میں اکثر میں گھر پر ہی رہتا ہوں ۔ چنانچہ اس ماہِ رمضان المبارک ۱۴۴۳ ہجری میں ان کے کچھ سوالات کے جوابات قرآن مجید سے حاصل کرنے کی کوشش میں ہوں ۔ اور اس کھوج میں ہوں کہ عزت قُرآن کی رُو سے ہے کیا۔
میرے معزز قاری! جب کربلا کے قیدی شام میں دربارِ یزید میں حاضر کیے گئے تو لعین نے سورۃ آل عمران کی چھبیسویں آیت کا کچھ حصہ پڑھا وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُزِلُّ مَنْ تَشَآءُ ط یعنی عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ تو نبی ﷺ کے بعد کائنات کے سب سے بڑے عالم مولا علی علیہ السلام کی علی بیٹی نے فوراً اُس کے جواب میں اسی سورۃ کی آیت ۱۷۸ تلاوت فرمائی ۔
اور کافر لوگ یہ گمان نہ کریں کہ ہم اُنہیں جو ڈھیل دے رہے ہیں وہ اُن کے لیے بہتر ہے ہم تو ان کو صرف اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں تا کہ یہ لوگ اپنے گناہوں میں مزید اضافہ کر لیں اور آخر کار ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہو گا ۔
علی کی علی بیٹی کے اس جواب نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ پہلے یہ سمجھا جائے کہ دراصل عزت ہے کیا قرآن کہتا ہے کہ عزت صرف اللہ کے لیے ہے اور اس کے رسول ﷺ اور مومنین کے لیے ہے تو عزت کا معیار اللہ رب العزت کی ذات ہے اور نبی کریم ﷺ کی ذات ہے اور حقیقی عزت دار مومنین ہیں۔ آئیے قُرآن مجید میں لفظِ عزت کے تحت آنے والی آیات کا جائزہ لیتے ہیں۔
سورۃ البقرہ آیت ۲۰۶ لفظِ عزت غرور و تکبر کے معنی میں استعمال ہوا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ
اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو تو انہیں (عزت) غرور گناہ پر اُبھارتا ہے پس ان کے لیے جہنم ہی کافی ہے اور یہ بہت ہی بُرا ٹھکانہ ہے
یعنی دنیاوی مال و دولت عارضی حکومت جسمانی طاقت پر غرور کرنے والے دراصل عزت دار نہیں بلکہ مغرور و متکبر کہلائیں گے اب یہ بھی عزت و ذلت کے لیے ایک قرآنی معیار ہے ۔ پرکھنا قرآن کے پیروکاروں نے خود ہے ۔
سورۃ النساء آیت ۱۳۹ میں اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں کہ
اَلَّذِيْنَ يَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَآءَمِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ط اَيَبْبتَغُوْنَ عِنْدَھُمُ الْعِزَّةَ فَاِنَّ الْعِزَّةَ لِلهِ جَميْعاً *
النساء ۱۳۹
جو لوگ مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا سرپرست بنا لیتے ہیں کیا وہ ان کے پاس عزت و آبرو کی تلاش کرتے ہیں؟ پس بے شک ساری کی ساری عزت تو اللہ کے لیے ہے
اس آیت ِ مبارکہ میں نزول قُرآن کے دور سے لے کر موجودہ زمانے تک اور پھر قیامت تک کے لیے منافقین کی ایک اہم ترین علامت بیان فرما دی گئی ہے کہ وہ اپنوں یعنی مومنین کو چھوڑ کر اندر سے چھپ چھپا کر کافروں سے جا ملیں گے۔ محض اس لیے کہ اُن کی مدد سے دولت؛ طاقت اور حکومت حاصل کر لیں اور یوں انہیں غلبہ اور عزت حاصل ہو جائے۔آج کی دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کی روشنی میں اس آیت کو پڑھیں تو کیا سب کچھ واضح نہیں ہو جاتا ؟ جو حکمران صرف ظاہری حکومت ؛ تمکنت اور دولت کی خاطر کفار کی سرپرستی میں چلے جاتے ہیں۔ اور اپنی مسلمان رعایا کو کفار کا غلام بنا دیتے ہیں ۔ کیا وہ بزعمِ خود عزت دار ہیں؟ آیت مبارکہ کے آخری الفاظ واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ غالب فقط اللہ کی ذات ہے اور آپ دیکھ لیجئے کہ اللہ کے بنائے اصولوں کے مطابق تو وہ ذلت کی گہری ترین کھائی میں ہیں ۔ مگر افسوس کہ اُن کی آنکھوں میں پردے اور دلوں پر مہریں لگ چکی ہیں۔ وہ کان تو رکھتے ہیں مگر سماعت کی دولت سے محروم ہیں۔ وہ آنکھیں تو رکھتے ہیں مگر نہیں رکھتے۔ اسی مضمون کو سورۃ المآئدہ کی آیت ۵۴ میں مزید وضاحت کے ساتھ یوں بیان فرمایا گیا کہ۔
يَا اَيُّھَاالَّذِيْنَ آمَنُوْا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ يَاْتِیْ اللهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّھُمْ وَيُحِبُّوْنَه اَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَی الْكٰفِرِيْنَ يُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِيْلِ اللهِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لآئِمٍ ط ذٰلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَشَآءَ ط وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ *
المآئدہ ۵۴
اے ایمان والو تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب ہی اللہ ایسے لوگوں کو ان لوگوں پر آشکار کر دے گا جن کو وہ (اللہ ) دوست رکھتا ہو گا اور وہ اللہ کو دوست رکھتے ہوں گے مومنین کے ساتھ نرمی سے اور کافروں کے ساتھ سختی سے پیش آنے والے ہوں گے اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے ڈرنے والے نہیں ہوں گے یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے دیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا اور بڑا علم والا ہے
اس آیت سے معلوم ہوا کہ عزت دار وہ لوگ ہیں کہ اللہ ان کو دوست رکھتا ہے ۔ اور وہ اللہ کو دوست رکھتے ہیں۔ وہ مومنین کے درمیان عجز و انکساری سے رہیں گے ۔ کفار کے ساتھ سختی سے پیش آئیں گے۔ پس اللہ سے دوستی کا مطلب یہی ہے کہ اللہ کے احکامات پر مکمل طور پر عمل کرنے والے ہوں گے۔ جن کی زندگی اطاعتِ پروردگار کا عملی نمونہ ہو۔ جو اپنے دین سے پھر جائیں گے ۔ اور بظاہر حکومت اور دولت کی طاقت کے حصول کی خاطر کفار کی پیروی کو قبول کر لیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے ایسے بندوں کو اُن کے مقابل لے آئے گا جو اللہ کی حکومت کے قیام کی خاطر جان لے بھی سکتے ہوں اور اللہ کی خاطر جان دینے کا حوصلہ بھی رکھتے ہوں۔ جو ملامت یعنی کردار کُشی سے بھی نہیں گھبرائیں گے اس لیے کہ اُن پر اللہ کا فضل و کرم ہو گا ۔ یہاں پر یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ جھوٹی عزت کے خواستگار ہمیشہ مقابل شرفاء پر تہمت سازی کرتے ہیں ۔ یہ بد فطرت بھی قُرآن نے واضح کر دی ہے۔ اسی ملامت اور بد تہذیبی کی بات کو اپنے حبیب ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے سورۃ یونس کی آیت ۶۵ میں اس طرح بیان فرمایا کہ ۔
وَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُھُمْ م اِنَّ الْعِزَّةَ لِلهِ جَمِيْعاً ط ھُوَالْسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ *
یونس ۶۵
اے میرے رسول ﷺ ان (کفار) کی باتوں سے رنجیدہ نہ ہوا کریں اس میں کوئی شک نہیں کہ عزت ساری اللہ کے لیے ہے وہی سب کی سنتا اور حقیقت جانتا ہے
یہ بات تو طے ہے کہ کفار آپ ﷺ سے دل دکھانے والی باتیں کرتے تھے۔ آپ ﷺ کو طعنے دیتے تھے لہذا الله تعالٰی نے اپنے حبیب ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے ایک اور کلیہ قاعدہ دے دیا کہ استعمار کے ساتھی ؛ فانی عزت کے خواہاں اپنے مخالف کی کردار کشی از بس کریں گے۔ اُن کی عزت سرِ بازار عریاں کرنے کے حربے اور طعن و تشنیع کریں گے ۔ مگر اللہ کے بندوں کو اگر یقین ہے کہ وہ حق پر ہیں تو اللہ تسلی دے رہا ہے اور واشگاف الفاظ میں بیان فرما رہا ہے کہ عزت کا خالق و حقیقی مالک اللہ رب العزت ہی کی ذات ہے اور حقیقی عزت وہی ہے جو اللہ دیتا ہے اور جس کو اللہ عزت دیتا ہے اس میں غرور و تکبر نہیں ہوتا ۔ بلکہ عاجزی و انکساری کا مالک ہوتا ہے اور اسی لیے قرآن پاک میں سرکار دو عالم ﷺ کو قیامت تک کے لیے تمام انسانوں کے لیے بہترین نمونہ\ماڈل قرار دیا گیا ہے ۔ پس حقیقی عزت کے متلاشیوں کو اپنے نبی ﷺ کی پیروی کرنا ہو گی ۔
جو طاقت، حکومت، دولت کے نشے میں خود کو عزت دار سمجھتے ہیں اُن کے لیے سورۃ الشعراء میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے واقعے کو تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہے۔ تفصیل کے خواہشمند قارئین اس سورۃ کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اور ان آیات میں اپنی غالب قوت و حکمت اور عزت و غلبہ کو بیان فرمایا ۔ اسی سورۃ کی آیت ۴۴ میں یوں گویا ہے کہ۔
فَاَلْقَوْا حِبَالَهُمْ وَعَصِيَّهُمْ وَقَالُوْا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ اِنَّا لَنَحْنُ الْغٰلِبُوْنَ *
الشعراء ۴۴
اُن جادوگروں نے اپنی رسیاں اور چھڑیاں (میدان میں) پھینک دیں اور کہنے لگے کہ فرعون کے جاہ و جلال کی قسم ہم ہی غالب رہیں گے
یعنی یہاں فرعون کے جاہل پیروکاروں کی جہالت کا ذکر ہے کہ جو اُس کے عارضی اور فانی جاہ و جلال کی قسمیں کھاتے تھے۔ یہاں فرعونیت کو بھی عزت کے لفظ کے ساتھ بیان فرمانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ ایسی طاقت اور فانی جاہ و جلال کو کبھی عزت نہ سمجھنا۔ اس سے اگلی آیات میں اپنی غالب طاقت اور فرعونیت کے عارضی غلبے کی بربادی کو بیان کر کے حقیقی عزت کے معنی کو اور زیادہ واضح فرما دیا ہے ۔
اس کے بعد سورۃ نمل کی آیت ۳۴ میں ایک اور انداز سے لفظِ عزت کی وضاحت فرمائ جسے بعد کی تاریخ میں آج تک ہم بار بار دیکھ رہے ہیں ارشاد ہوا
قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَةً اَفْسُدُوْهَا وَ جَعَلُوْا اَعِزَّةَ اَھلُھَا اَذِلَّةً ج وَكَذَالِكَ يَفْعَلُوْنَ *
نمل ۳۴
(چیونٹیوں کی ملکہ نے) کہا کہ بادشاہوں کا یہ قاعدہ ہے کہ جب کسی بستی میں (بزور فتح) داخل ہوتے ہیں تو اس کو اُجاڑ دیتے ہیں اور وہاں کے عزت دار لوگوں کو ذلیل و رسوا کر دیتے ہیں اور یہ لوگ بھی ایسا ہی کریں گے
بظاہر حضرت سلمان علیہ السلام اور چیونٹیوں کی ملکہ کی گفتگو ہے مگر اس میں بہت گہرا پیغام ہے کہ جب طاقت ور حکمران اپنی فوجی طاقت کے نشے میں کسی شہر یا ملک کو فتح کر لیتے ہیں تو وہاں کے صاحبِ عزت لوگوں کو رسوا کرتے ہیں بستیوں کو اُجاڑ دیتے ہیں تاریخ گواہ ہے کہ کتنے ہی طاقت کے نشے میں چور حکمرانوں نے ایسا کیا مگر آج گمنام ہیں ہڈیاں تک گل سڑ چکی ہیں مگر جن عزت دار لوگوں کی عزتوں کو بظاہر پامال کیا ؛ جن کے مال و اسباب کو لوٹا گیا۔ جن کی اولادوں۔ ناموس اور دوستوں کو قتل کیا گیا آج بھی وہی عزت کی علامت ہیں ۔
سورۃ فاطر کی آیت ۱۰ میں اللہ رب العزت نے عزت لینے کا سلیقہ بیان کرتے ہوئے فرمایا ۔
مَنْ كَانَ يُرِيْدُالْعِزَّةَ فَلِلهِ الْعِزَّةُجَمِيْعاً ط اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الْطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الْصَّالِحُ يَرْفَعُه، ط وَالَّذِيْنَ يَمْكُرُوْنَ الْسَّيِّاٰتِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ط وَمَكْرُ اُولٰئِكَ ھُوَ يَبُوْرُ *
فاطر ۱۰
جو شخص عزت کا خواہاں ہے (تواللہ سے مانگے کیونکہ) ساری عزت تو اللہ ہی کی ہے اس کی بارگاہ تک اچھی باتیں (بلند ہو کر) پہنچتی ہیں اور اچھے کاموں کو وہ خود بلند فرماتا ہے اور جو لوگ تمہارے خلاف بری بری تدبیریں کرتے رہتے ہیں ان کے لیے قیامت میں سخت عذاب ہے اور آخر کار ان لوگوں کے مکر و فریب ملیا میٹ ہو جائیں گے
اس آیت مبارکہ میں بہت آسان الفاظ میں عزت کی تقسیم کا فارمولا بیان فرما دیا گیا کہ اگر تم عزت کے خواہشمند ہو تو اِدھراُدھر مت بھٹکو۔ اللہ کے مخالفین و ملحدین کی لالچ میں نہ آؤ۔ خود کو اور مسلم رعایا کو اُن کی غلامی میں نہ جھونکو۔ بلکہ وہ اللہ جو عزت کا مالک بھی ہے اور خالق بھی اُس کی طرف رجوع کرو۔ اُس کے نبی آخر الزمان ﷺ اور قُرآن کے ذریعے مجھ اللہ کی طرف رسائی حاصل کرو۔ اور یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ تمہاری اچھی سوچیں، تمہاری اچھی باتیں اللہ تک پہنچتی ہیں اپنی عاقبت کے لیے،اللہ کی قُربت کے حصول کے لیے اور اللہ کی مخلوق کی بہتری کے لیے تمہاری اچھی کوششوں کو اللہ تعالیٰ خود بلند فرمائے گا ۔ بُری اور گھٹیا چالوں کو تمہارا رب ناکام بنا دے گا اور دشمنوں کے مکر و فریب کو اپنی حکمت و دانائی سے نابود کر دے گا ۔
اس کے بعد سورۃ صٰفّٰت کی آیت ۱۸۰ میں لفظ عزت کو اپنی صفت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا
سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِعَمَّا يَصِفُوْنَ *
صٰفّٰت ۱۸۰
(یہ لوگ جو باتیں اللہ کے بارے میں بناتے ہیں) تمہارا رب پاک و صاف اور عزت کا مالک ہے ۔
دراصل سورۃ صٰفّٰت کے موضوعات میں توحید و قدرت ؛ قیامت کے اثبات؛ اللہ کے رسول ﷺ کو شاعر و مجنون ہونے کا طعنہ وغیرہ ہیں۔ اس سورۃ کی اختتامی آیات میں سے ایک یہ ہے جس میں پروردگار نے پوری سورۃ کا نتیجہ دیتے ہوئے فرمایا کہ تمہارا رب ہر عیب سے بالاتر ہے عزت اُسی کو زیبا ہے اور سلامتی ہو اُن پیغمبروں پر کہ جنہوں نے مشکل ترین حالات میں اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچایا اور تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے سزاوار ہیں ان آیات کے اختتام کے ساتھ ہی سورۃ ص کی ابتدا ہو رہی ہے جس کی دوسری آیت میں پھر عداوت و تکبر کے معنی میں لفظِ عزت استعمال کیا جا رہا ہے
بَلِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِیْ عِزَّةٍ وَّ شِقَاقٍ *
ص
مگر یہ کفار (بلاوجہ) تکبر اور عداوت میں (پڑے اندھے ہو رہے ہیں)
یعنی جن لوگوں نے غرور و تکبر میں اللہ کا انکار کیا اور اللہ کی مخالفت میں لوگوں کو تقسیم کیا وہ کسی صورت عزت دار نہیں ہو سکتے ۔
سورۃ منافقوں کی آٹھویں آیت بھی اپنے اندر عزت کے حوالے سے ایک مضمون سمیٹے ہوئے ہے ۔
يَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآ الَی الْمَدِيْنَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْاَعِزُّ مَنْھَاالْاَذَلَّ ط وَلِلهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِهٖ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَلٰكِنَّ الْمُنَافِقِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ *
منافقوں ٨
یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم لوٹ کر مدینہ پہنچے تو عزت دار لوگوں کو ذلیل کر کے باہر نکال دیں گے حالانکہ عزت تو خاص اللہ کے لیے ہے اور اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہے مگر منافقین نہیں جانتے
گو کہ اس کے پیچھے اُن منافقین کا ذکر ہے جو مکہ اور مدینہ میں آپ ﷺ کی مخالفت میں کوشاں رہے مگر ہمارا ایمان ہے کہ قُرآن مجید قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے راہنما کتاب ہے لہذا یہ واقعات ہر دور کے منافقین کو آشکار کرتے ہیں اور مومنین کی راہنمائی کرتے ہیں ۔ منافقین جو اپنے ملک سے باہر بیٹھ کر کفار و ملحدین سے ساز باز کر کے اپنے وطن کے عزت داروں کو ذلیل کرنے اور ان کے اپنے وطن سے نکال باہر کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں اُن کو قُرآن کھلا پیغام دے رہا ہے کہ عزت تو فقط اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور مومنین ہی کا حصہ ہے، تم جتنا بھی گٹھ جوڑ کر لو کبھی اس میں کامیاب نہیں ہونے والے ہو۔ یہ تو تھیں وہ آیات جو لفظِ عزت کے تحت قُرآن مجید میں موجود ہیں جو میری نظر سے گزریں۔ ہو سکتا ہے کچھ رہ بھی گئی ہوں ۔ کیونکہ انسان تو بہر حال ناقص ہے۔
محترم قاری! اس کے علاوہ قرآن مجید میں عزت کے لیے اکرم کا لفظ۔ بھی استعمال ہوا ہے ۔ جیسا کہ سورۃ یوسف کی اکیسویں آیت میں حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں لکھا گیا کہ ,, اور مصر کے جس شخص نے حضرت یوسف علیہ السلام کو خریدا اُس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اس کا مقام معزز رکھنا،،
سورۃ الفجر میں اللہ تعالیٰ نے چار قسمیں کھا کر قومِ عاد کی ذلت کا ؛ نسلِ ارم بن سام بن نوح؛ قومِ ثمود اور فرعون کی ذلت کا ذکر فرمایا اور پھر اس کے بعد ارشاد ہوا کہ
فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَابْتَلٰهُ رَبُّه، فَاَكْرَمَه، وَ نَعَّمَه، فَيَقُلُ رَبّیْ اَكْرَمَنْ *
الفجر ١٥
مگر جب انسان کو اس کا رب آزما لیتا ہے ۔ پھر اُسے عزت دیتا ہے اور اُسے نعمتیں عطا کرتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دی ہے
اور اس سے اگلی آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو مال چلے جانے کی صورت میں کہتے ہیں کہ اللہ نے ہماری توہین/ذلت کی ہے اور اس سے اگلی آیت میں رزق کی تنگی کا سبب یتیموں کی عزت نہ کرنا مسکینوں کو ان کا حق نہ دینا قرار دیا گیا ہے ۔
معزز قاری! یہ اتنا وسیع وعریض موضوع ہے کہ اس پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ مگر میں نے قرآنی آیات کو موضوع بناتے ہوئے عمومی استفادے کے لیے بالاختصار لکھا ۔ تا کہ عام آدمی جان سکے اور اہلِ علم و ہنر؛ صاحبان قرطاس و قلم اس موضوع پر مزید عقدہ کشائی کی کوشش کریں۔
میں ذاتی طور پر جو کچھ ان قُرآنی آیات سے جان سکا ہوں وہ یہ ہے کہ عزت کا حقیقی مالک و خالق اللہ رب العزت ہی ہے۔ عزت اور ذلت اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ مگر جو بھی اپنے اعمال و افعال و اقوال و کردار کے ذریعے ۔ اپنی بندگی کا اظہار کرتا ہے ۔ یعنی جو عزت چاہتا ہے اسے عزت دی جاتی ہے ۔ اور وہ عزت دائمی ہوتی ہے۔ اور جو اپنے اعمال و کردار کے ذریعے ذلت چاہتا ہے اسے ذلت و رسوائی ملتی ہے ۔
دولت؛ طاقت؛ حکومت؛ تمکنت؛ جاہ و ہشم عزت کی علامات نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اتباع و پیروی باعثِ عزت ہے؛
سورۃ الحجرات کی آیت نمبر ١٣ کے ساتھ اپنے اس مضمون کا اختتام کرتا ہوں ارشاد باری تعالیٰ ہو رہا کہ
يَاَيُّھَاالْنَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْباً وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَاللهِ اَتْقٰكُمْ ط اِنَّ اللهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ *
الحجرات کی آیت نمبر ١٣
اے لوگو ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کر سکو۔ بے شک اللہ کے ہاں تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہی ہے جو سب سے سے زیادہ متقی/پرہیز گار ہے ۔ بےشک اللہ جاننے والا اور با خبر ہے
کتنا واضح پیغام ہے کہ جو محض قوم اور قبیلے کی بنیاد پر عزت دار ہونے کا داعی ہے ۔ وہ غلط ہے ۔ یہ قبیلے تو دنیا کے اس بڑھتے ہجوم میں صرف تمہاری پہچان کے لیے ہیں۔ اور بالکل کھلے اور دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا کہ یاد رکھو تم میں سے زیادہ عزت دار وہی ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔ جو اللہ کے قرار دیئے گئے حرام سے اجتناب کرتا ہے۔ اور اللہ کے حلال کردہ سے استفادہ کرتا ہے پس دنیا والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اپنے مکر و فریب سے وہ اہلِ دنیا کو دھوکہ دے کر عارضی عزت دار تو بن سکتے ہیں مگر اللہ سب کچھ جاننے والا اور تمہارے ہر عمل کی خبر رکھنے والا ہے
میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ قرآنی آیات کے مفہوم سے باہر نہ نکلا جائے۔ اگر کہیں میرے قارئین کو ایسا لگے کہ میں اپنے موضوع سے ہٹا ہوں تو ضرور نشان دہی فرمائیں.
سیّد مونس رضا
معلم،مدبر،مصنف
ریٹائرڈ او رینٹل ٹیچر
گورنمنٹ پائیلیٹ ہائر سیکنڈری اسکول
اٹک شہر
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔